بریڈ یعنی ڈبل روٹی کی بات کی جائے تو اب اس کی مختلف اقسام دستیاب ہیں۔ لیکن جو بریڈ ہم مارکیٹ سے خریدتے ہیں، اُس کے صحت پر حیران کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ بحث اکثر جاری رہتی ہے کہ صحت کے لیے کون سی بریڈ بہتر ہےبریڈ یعنی ڈبل روٹی کی بات کی جائے تو اب اس کی مختلف اقسام دستیاب ہیں۔ لیکن جو بریڈ ہم مارکیٹ سے خریدتے ہیں، اُس کے صحت پر حیران کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کی طرح سنہ 2020 میں کورونا کی عالمی وبا کے دوران میں نے گھر میں کچھ نہ کچھ خود بنانے کی ٹھانی۔ ہزاروں افراد کی طرح بی بی سی میں میرے کولیگز نے بھی اپنے ان تجربات کو ایک گائیڈ کی صورت میں مرتب کیا۔ لہذٰا میں نے بھی فیصلہ کیا کہ کیوں نہ میں بھی یہ تجربہ کروں۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ بریڈ بنانے کے لیے مجھے سب کچھ زیرو سے شروع نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ مجھے میرے ایک دوست نے خمیر اور آمیزہ تحفے کے طور پر دیا۔ بہت سی ناکام کوششوں کے بعد آخرکار میں کھانے کے قابل بریڈ بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ مزے دار بھی تھی۔
میرے پاس یہ تیار کرنے کا کوئی مستند طریقہ نہیں تھا۔ لیکن جو طریقہ میں نے اپنایا وہ کام کر گیا۔
آغاز میں تو میں نے شوقیہ خود سے بریڈ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن جب میں نے پروسیسیڈ فوڈ سے جڑے صحت کے خطرات کے بارے میں جانا تو میں نے عزم کیا کہ میں یہ خود سے ہی تیار کروں گی۔ ان خطرات میں اضافی نمک، چینی، فیٹ اور کیمیکل شامل ہیں۔
نہ صرف میری تیار کردہ بریڈ مارکیٹ سے ملنے والی بریڈ سے زیادہ مزیدار تھی بلکہ یہ الٹرا پروسیسڈ اجزا سے بھی پاک تھی جن کے بارے میں طبی ماہرین خبردار کرتے رہتے ہیں۔ پانچ سال بعد بھی میں یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہوں۔
لیکن سب کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ روزانہ بریڈ تیار کرے جبکہ خالص اور نیچرل اجزا سے تیار کی گئی بریڈ مہنگی بھی پڑتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مارکیٹ میں دستیاب بریڈ کی ایک وسیع ورائٹی دسیتاب ہوتی ہے اور یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہماری صحت کے لیے کون سی بریڈ زیادہ بہتر ہے۔
تو کون سی بریڈ صحت کے لیے اچھی ہے اور ہمیں یہ خریدتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
چورلی وڈ
سنہ 1950 کی دہائی میں لندن کے علاقے چورلی وڈ کی ایک فیکٹری میں بریڈ کی تیاری کے لیے تیزرفتاری کے ساتھ آمیزہ تیار کرنے کا طریقہ ڈھونڈا گیا۔
اس طریقے میں زیادہ چکنائی، اضافی خمیر اور کیمیکل جیسا کے انزائمزآکسیڈینٹس (آمیزے کو مضبوطی سے مکس کرنے کا عمل) اور ایملسیفائر (جو دوسرے کیمیکلز کو اکٹھا کرنے میں مدد کرتا ہے) شامل کیا، پھر تیز رفتاری سے انھیں مکس کیا گیا۔
اس جدید نئی تکنیک نے کم پروٹین والی برطانوی گندم کا استعمال کرتے ہوئے بریڈ کو سستا بنا دیا۔ اضافی اشیا جیسے ایملسیفائر نے بریڈ کو زیادہ دیر تک محٖفوظ رکھنا یقینی بنایا۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی تقریباً 80 فیصد بریڈز جو ہم کھاتے ہیں وہ چورلی وڈ طریقے سے ہی بنائی جاتی ہیں۔
اس طریقے کو ابتدائی طور پر چھوٹے نانبائیوں کو بڑی صنعتی بیکریوں کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مدد کرنے کے طریقے کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ لیکن اس کو پذیرائی ملی اور بڑے انڈسٹریل بیکرز نے بھی اس طریقے کو اپنا لیا اور اس سے چھوٹی بیکریوں کے لیے یہ کاروبار کرنا مشکل ہو گیا۔
ساور ڈو
چورلی وڈ میں تو تیزی سے آمیزے کو مکس کر کے ڈبل روٹی تیار کر لی جاتی ہے۔ لیکن ساور ڈو میں بریڈ آہستہ آہستہ تیار کی جاتی ہے۔
اس طریقے میں کوئی بھی اُبھری ہوئی بریڈ بنانے کے لیے بہت سے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔ پہلے تمام اجزا کو ملایا جاتا ہے اور اس کے بعد پھر گوندھا جاتا ہے۔ اس سے گلوٹین کو ایک لچکدار آٹا بنانے میں مدد ملتی ہے۔
اس کے بعد تمام اجزا کو یا تو فوری طور پر پکایا جاتا ہے یا پھر اسے کسی شکل میں ڈھالنے کے لیے دوبارہ اُبالا جاتا ہے۔ ابال کے اس دوسرے مرحلے کے دوران خمیر چھوٹے بلبلے بناتا ہے جو بریڈ کی ساخت کو بہتر بنائے میں مدد دیتا ہے جس کے بعد روٹی بیکنگ کے لیے تیار ہے۔
اس طریقے میں قدرتی اجزا سے تیار کی گئی ڈبل روٹی نہ صرف زیادہ دیر تک محفوظ رہ سکتی ہے بلکہ یہ صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔
1950 کی دہائی میں چورلی وڈ کا طریقہ وضع کرنے سے پہلے، بریڈ پکانا زیادہ محنت طلب عمل تھا۔ ساور ڈو طریقے سے بنائی گئی بریڈ آسانی سے ہضم ہوتی ہے کیونکہ اس عمل میں آہستہ اُبال پروٹین کو توڑ دیتا ہے اور ہمارے جسم کے لیے اہم وٹامنز اور معدنیات کو جذب کرنا آسان بناتا ہے۔
اس عمل میں بیکٹیریا آٹے میں موجود کاربو ہائیڈریٹس کو توڑ دیتے ہیں، یہ عمل ہاضمے کی راہ میں رکاوٹ بننے والی شکر کی مقدار کو نمایاں طور پر کم کر دیتا ہے۔
پولیفینول نامی فائبر اور صحت مند مرکبات ہمارے آنتوں کے جرثوموں کے لیے اہم ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح، سست ابال کا عمل ان لوگوں کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے جنھیں اپنے خون میں شکر کی سطح کو منظم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کچھ مطالعات سے پتا چلا ہے کہ دیگر بریڈز کے مقابلے ساور ڈو طریقے سے بنی ہوئِی بریڈ کھانے کے بعد بھوک کم لگتی ہے۔ لیکن بعض سٹڈیز یہ بتاتی ہیں کہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
الٹرا پروسیسڈ بریڈ
آج کل سپر مارکیٹ کی شیلف پر پائی جانے والی بہت سی بریڈز کو چورلی وڈ طریقہ استعمال کرتے ہوئے تیار کیا جاتا ہے۔
بعض ممالک بشمول امریکہ میں پراسیس شدہ بریڈ میں پوٹاشیئم برومیٹ شامل ہو سکتا ہے، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو برقرار رکھنے میں بریڈ کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔
سنہ 2020 کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں تقریباً 50 فیصد کیلوریز الٹرا پروسیسڈ فوڈز کی شکل میں ہوتی ہیں۔ امریکہ میں بھی کم و بیش یہی اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
لیکن الٹرا پروسیسیڈ فوڈ کی شناخت کیسے کریں؟ اس کے لیے ماہرین نے ایک اُصول وضع کیا ہے کہ ایسے پانچ اجزا جنہیں آپ اپنے باورچی خانے میں نہیں رکھتے اور یہ صرف فیکٹری میں ہی استعمال ہوتے ہیں۔
ساور ڈو طریقے میں جو اضافی وقت لگتا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ فیکٹریوں میں تیار ہونے والی بریڈز سے کہیں زیادہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق سپر مارکیٹس میں دستیاب بریڈز کو بڑے پیمانے پر انتہائی تیزی کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔ اس میں ایسے اجزا شامل کیے جاتے ہیں جو نہ صرف شیلف لائف بڑھاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ سپر مارکیٹس میں ملنے والی بریڈز الٹرا پروسیسڈ فوڈز کی درجہ بندی میں آ جاتی ہیں۔
غذائی ماہر جینا ہوپ نے بی بی سی کو بتایا کہ مختلف اقسام کی بریڈز صحت کے لیے مختلف فوائد رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہول گرین بریڈ میں زیادہ فائبر ہوتا ہے اور یہ صحت کے لیے بہتر ہے۔
ہول گرین بریڈ
گندم کا دانہ کئی تہوں پر مشتمل اور پروٹین سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس کا بیرونی خول جیسے چوکر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے میں صحت کے لیے فائدہ مند نشاستہ بھی پایا جاتا ہے۔
عام بریڈ میں گندم کے دانے کا بیرونی خول اور چوکر ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ ہول گرین بریڈ کی تیاری میں گندم کا پورا دانہ استعمال کیا جاتا ہے۔
گندم کے پورے دانے سے بنائی جانے والی بریڈ میں فائبر، وٹامنز اور معدنیات ہوتی ہیں اور اس سے ماہرین کے مطابق دل کی بیماری اور کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
چورلی ووڈ طریقے سے تیار کی جانے والی بریڈ جلد تیار ہو جاتی ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق یہ صحت کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ہوتا۔ ہول گرین بریڈ میں پایا جانے والا فائبر آپ کو زیادہ دیر تک پیٹ بھرنے کا احساس دلاتا ہے کیونکہ ہم اسے آہستہ آہستہ ہضم کرتے ہیں، اس لیے یہ خون میں شوگر کی سطح میں بتدریج اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وائٹ بریڈ کھانے کے بعد ہمیں جلد بھوک لگ سکتی ہے۔
ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ روزانہ تین مرتبہ ہول گرین بریڈ استعمال کرتے ہیں، ان کے پیٹ کی چربی، ان لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے جو بہتر اناج کھاتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہول گرین روٹی متوازن وزن برقرار رکھنے میں بھی مدد دیتی ہے۔
لیکن اگر آپ کے لیے وائٹ بریڈ سے جلد چھٹکارا پانا مشکل ہے تو آپ اپنی خوراک میں ہول گرین سے بنی دیگر اشیا شامل کر سکتے ہیں۔ ان میںبراؤن پاستہ، براؤن رائس اور یہاں تک کہ برآون پاپ کارن بھی ہو سکتے ہیں۔
صحت کے لیے فائدہ مند وائٹ بریڈ کی تیاری
آج بھی وائٹ بریڈ برطانیہ میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہے۔ حالاںکہ جیسا کے ہم نے آپ کو اُوپر بتایا کہ ہول گرین کے مقابلے وائٹ بریڈ میں زیادہ غذائیت نہیں ہوتی۔
لیکن ماہرین نے اس کا بھی حل تلاش کر لیا ہے اور ایسی وائٹ بریڈ بنائی جا رہی ہے جس کے اجزا ہول گرین بریڈ والے ہی ہوں گے، لیکن اس کا ذائقہ وائٹ بریڈ جیسا ہو گا۔
محققین کا منصوبہ ہے کہ مٹر، پھلیاں اور مختلف سیریلز کی تھوڑی مقدار کے ساتھ بریڈ کو افزودہ کیا جائے گا۔اس کے ساتھ ساتھچوکر کو شامل کیا جائے گا جو عام طور پر وائٹ بریڈ کی تیاری میں نکال دیا جاتا ہے۔
کیتھرین ہاورتھ، جو صحت کے لیے اچھی وائٹ بریڈ بنانے کی تحقیق میں شامل ہیں نے 2024 میں بتایا تھا کہ یہ ایک انتہائی نازک عمل ہے جس میں یہ کوشش کی جائے گی کہ وائٹ بریڈ میں وہ تمام اجزا شامل ہوں جو صحت کے لیے فائدہ مند ہول گرین بریڈ میں ہوتے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران ماہرین نے تجرباتی طور پر ایسی وائٹ بریڈ تیار کی ہے جسے بی بی سی کے سائنس کے نامہ نگار پلب گھوش نے استعمال کیا اور اسے انتہائی لذیز پایا۔ اس وائٹ بریڈ کو مارکیٹ تک آنے میں دو برس لگ سکتے ہیں۔
بریڈ کی تیاری کے لِیے خمیر تیار کیا جا رہا ہے۔ تو پھر آپ کا انتخاب کیا ہو گا؟
ماہرین کہتے ہیں کہ ڈبل روٹی کے انتخاب کے وقت اس کے اجزا ضرور دیکھ لیں۔ بہت سی ایسی بریڈز جو سپر مارکیٹس کے شیلفس پر پڑی بہت خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ صحت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو۔