فنانشل ٹائمز کے سلیکون ویلی کے سابق نمائندے پیٹرک مگی کہتے ہیں کہ ایپل کی دولت اور جدید ترین مینوفیکچرنگ نے چینی مینوفیکچررز کو فنڈنگ، تربیت، نگرانی اور سپلائی چین سے متعلق مہارت فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا، اور یہ وہ ہنر ہے جو بیجنگ اب مغرب کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک ایسا لگتا تھا کہ ’ایپل‘ جیسی بڑی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے چین میں اپنی مصنوعات تیار کرنا ایک بڑا اور عقلمندانہ کاروباری اقدام ہے۔
معاملہ سیدھا سا تھا، کیونکہ چین میں پروڈکشن یعنی پیداوار کی لاگت کم ہے اس لیے بڑی کمپنیوں کو حاصل ہونے والا منافع بھی زیادہ ہو گا۔ مگر زیادہ منافع کی غرض سے اٹھایا گیا یہ اقدام (یعنی چین میں پروڈکشن) اس حقیقت سے قطع نظر کیا گیا کہ امریکی کمپنیاں آئندہ آنے والے برسوں میں امریکہ کے مستقل حریف یعنی چین کے لیے کمائی، ٹیکنالوجی اور جدت کے حصول کا باعث بنے گا۔
انھی غیر ملکی کمپنیوں کے لیے چین کے کارخانوں میں موبائل فون، الیکٹرک گاڑیاں اور بہت کچھ تیار ہوتا ہے جس کے باعث چین نے ایسی صنعتی، تکنیکی اور انسانی صلاحیتیں حاصل کر لی ہیں جن کا آج کوئی دوسرا ملک مقابلہ نہیں کر سکتا۔
اگر امریکی کمپنیاں چین کو سستی پیداوار کے لیے استعمال کر رہی تھیں تو چین اپنی تکنیکی ترقی کو تقویت دینے کے لیے اُن کا استعمال کر رہا تھا۔
یہ کوئی محض اتفاق نہیں تھا۔ پرنسٹن یونیورسٹی سے منسلک محقق کائل چن بتاتے ہیں کہ چین نے اپنی پوری معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ’ایپل‘ جیسی بڑی امریکی کمپنیوں کو اپنی جانب راغب کرنے اور اُن کا استعمال کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے۔
اُن کے مطابق یہ اتنا آسان معاملہ نہیں کہ ’جی ٹھیک ہے، چین میں آ کر مینوفیکچرنگ کریں، بڑا منافع کمائیں اور سب خوش رہیں۔۔۔ حقیقت کچھ یوں ہے کہ ’آپ کو چین کی ترقی میں کچھ حصہ ڈالنا ہو گا۔‘
کائل چن کے مطابق ’نہ صرف ایپل، بلکہ ووکس ویگن، بوش، انٹیل، ایس کے ہینکس اور سام سنگ بھی اِن کمپنیوں میں شامل ہیں۔‘
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ٹیکنالوجی کی صنعت کا مرکز اب بدل گیا ہے۔
ایک وہ دن تھا جب امریکہ عملی طور پر واحد ملک تھا، جو انسانی تاریخ کو بدلنے کے قابل ٹیکنالوجی بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا، مگر اب ہمارے پاس تمام شعبوں میں سخت مقابلہ ہے۔
امریکی کنسلٹنگ فرم ’دی ایشیا گروپ‘ کے چائنہ ڈائریکٹر ہان شین لِن نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ اب محض سادہ سی بات نہیں رہی۔

مگر یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
اپنی کتاب ’ایپل ان چائنہ: دی کیپچر آف دی ورلڈز گریٹسٹ کمپنی‘ میں پیٹرک مگی نے ایپل کے سابق ملازمین کے 200 سے زائد انٹرویوز کی بنیاد پر یہ بات کی ہے کہ ایپل کا چین میں اپنی 90 فیصد سے زائد مصنوعات تیار کرنے کا فیصلہ نہ صرف سستا پڑتا تھا بلکہ منافع بخش بھی تھا۔
فنانشل ٹائمز کے سلیکون ویلی کے سابق نمائندے پیٹرک مگی کہتے ہیں کہ ایپل کی دولت اور جدید ترین مینوفیکچرنگ نے چینی مینوفیکچررز کو فنڈنگ، تربیت، نگرانی اور سپلائی چین سے متعلق مہارت فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا، اور یہ وہ ہنر ہے جو بیجنگ اب مغرب کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
پروفیسر کائل چن بتاتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ غیر ملکی سپلائرز، جو کہ آئی فون اور ایپل کے دیگر آلات کے لیے ’پروڈکشن چین‘ کا حصہ تھے، اُن کی جگہ چینی سپلائرز نے لینا شروع کر دی۔ خاص کر سکرینز، لینز، ڈسپلے، کیمرے کے ماڈیولز اور چپس وغیرہ کے شعبے۔
جاپانی اخبار ’نکی ایشیا‘ کے سنہ 2024 کے تجزیے کے مطابق ایپل کے 87 فیصد سپلائرز کے مینوفیکچرنگ پلانٹس چین میں ہیں اور آدھے سے زیادہ سپلائرز کے ہیڈ کوارٹر چین یا ہانگ کانگ میں ہیں۔
اگرچہ ایپل نے اِن ممالک کی فہرست کو متنوع بنانے کی کوشش کی ہے جہاں اس کے آلات تیار کیے جاتے ہیں، لیکن یہ کمپنی آج بھی چینی مینوفیکچررز پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے علاوہ چینی کارکنوں یعنی ورک فورس پر بھی، جو فی گھنٹہ ایک سے دو ڈالر معاوضہ لیتے ہیں۔
پیٹرک مگی نے دعویٰ کیا کہ اگر چینی حکومت چاہے تو ایپل کی پیداوار کو راتوں رات بند کر سکتی ہے۔

ایپل کا بنیادی سپلائر بننے کے علاوہ چین نے اپنے فونز، الیکٹرک گاڑیاں اور یہاں تک کہ مصنوعی ذہانت کے ماڈل بھی امریکیوں کی طرح نفیس بنانا سیکھ لیے ہیں۔
پیٹرگ مگی نے ’ایپل ان چائنہ‘ میں لکھا کہ ایپل اور دیگر مغربی کمپنیوں کے انجینیئرز اور کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری نے جدت اور اہم علم اور صلاحیتوں کو چینی ہاتھوں میں منتقل کیا، جس سے ہواوے، ژیومی اور بی وائی ڈی جیسی چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اُبھرنے کا موقع ملا۔
یوں ہم اس لمحے میں پہنچ گئے ہیں، جہاں اگرچہ امریکہ آگے رہتا ہے مگر دوسری جانب چین کے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی بڑی کمپنیاں ہیں۔
ہان شین لن کے مطابق ’امریکہ بنیادی ٹیکنالوجیز اور جدید چپس میں آگے بڑھ رہا ہے، چین ایپلیکیشن لیئر کی جدت اور توسیع پذیری میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔‘
کائل چن نے مزید کہا کہ چین نے کچھ شعبوں میں امریکہ کو پیچھے چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ اور یہاں بڑی کہانی یہ ہے کہ وہ جس رفتار سے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔‘
آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں سبقت کی جنگ
اے آئی ایک ایسا شعبہ ہے جو امریکہ اور چین کے درمیان سخت مقابلے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ شعبہ ٹیکنالوجی کی صنعت میں اہم مقام رکھتا ہے۔
اگرچہ چین نے کئی دہائیوں سے اے آئی کی ترقی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ جی پی ٹی-3 سے بہت آگے ہے، جو کہ امریکی کمپنی اوپن اے آئی نے انقلابی زبان کا ماڈل سنہ 2020 میں شروع کیا تھا۔
اور بعد میں چیٹ جی پی ٹی کے مختلف ورژنز کی ریلیز نے دنیا کو اپنی زد میں لے لیا۔
ڈیپ سیک، ایک چینی چیٹ بوٹ، چیٹ جی پی ٹی سے بہت ملتا جلتا ہے اور یہ عین توقعات کے مطابق اس سال جنوری میں منظرعام پر آیا۔ اس کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی ڈویلپمنٹ پر اس کے مدمقابل (چیٹ جی پی ٹی) پر اٹھنے والی لاگت کا ایک چھوٹا سا حصہ خرچ ہوا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خبر کو امریکی ٹیک انڈسٹری کے لیے ’ویک اپ کال‘ قرار دیا تھا۔

کائل چن کا کہنا ہے کہ ’اہم بات صرف یہ نہیں تھی کہ ایک چینی ماڈل اچانک تقریباً اتنا ہی اچھا تھا جتنا کہ بہترین امریکی ماڈلز، اور یہ کہ اسے کمپیوٹنگ کے کم وسائل کے ساتھ حاصل کیا گیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ بہت کم قیمت پر۔۔ لیکن یہ بھی بہت اہم ہے کہ یہ اے آئی چپس پر برآمدی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا۔‘
سنہ 2022 سے امریکہ نے چینی صارفین کو نویڈیا کی ایچ 100 چپس خریدنے سے روک دیا ہے، جو اے آئی سسٹم کی تربیت کے لیے دستیاب سب سے جدید چپس ہیں۔ اس کے بجائے نویڈیا اپنی چپس کے کم طاقتور ورژن تیار کرتی ہے، جو خاص طور پر اپنے چینی صارفین کو نشانہ بناتی ہے۔
کائل چن کے لیے ایک چینی چیٹ بوٹ کا آغاز، جو اس کے امریکی ورژن کا مقابلہ کر سکے، اب ’محب الوطنی‘ کا معاملہ بن گیا تھا۔ ان کی رائے میں چینی شہریوں کے لیے یہ امریکی بالادستی کے لیے ایک چیلنج تھا۔
ڈیپ سیک کا دعویٰ ہے کہ اس نے چینی مارکیٹ میں فروخت ہونے والی ’ڈاؤن گریڈ‘ ہوئی نویڈیا چپس کا استعمال کرتے ہوئے اپنی زبان کے ماڈل کو تربیت دی ہے، لیکن ایسی افواہیں ہیں کہ کمپنی کے بانی نے بڑی تعداد میں ایچ 100 چپس خریدی ہیں اور انھیں کم نفیس چپس کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
اپریل میں ٹرمپ نے قومی سلامتی کے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے ایچ 20 چپ کی برآمدات پر پابندی عائد کر دی تھی، سب سے جدید چپ جو کہ چین کو فروخت کی جا رہی تھی۔
حال ہی میں چین نے امریکی حکومت کو چین میں اس کی فروخت کا 15 فیصد حصہ دیا، یہ ایک غیرمعمولی نوعیت کا معاہدہ ہے جس نے اس کی قانونی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
امریکی برآمدی پابندیوں نے چینی کمپنیوں کو متبادل تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
پروفیسر کائل چن کے لیے اس طرح کے اقدامات ’چین کی ترقی کو کم کرنے کے لحاظ سے مختصر مدت میں موثر ہیں، لیکن درمیانی سے طویل مدت میں، وہ اس ملک کی اپنی خود مختار ٹیکنالوجی اور سپلائی چین کو تیار کرنے کی کوششوں کو فروغ دیتے ہیں۔‘
اس کی ایک مثال وہ ہے جو ہواوے کے ساتھ ہوا، جسے سنہ 2019 میں جاسوسی، انٹیلکچوئل پراپرٹی کی چوری اور ڈیٹا کی نگرانی کے الزامات کے بعد ’امریکی قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی کے مفادات کے خلاف سرگرمیوں‘ میں مصروف اداروں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
نتیجتاً کمپنی کے موبائل فونز گوگل کے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کو مزید استعمال نہیں کر سکتے تھے۔
کائل چن کی رائے میں ’اس دھچکے کو سہنے کے بعد ہواوے نے اپنا آپریٹنگ سسٹم اور ایس او سی چپس تیار کرنے میں کئی سال صرف کیے۔‘ اُن کی رائے میں ’مجھے نہیں لگتا کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر یہ کام کر پاتے اگر ان پر امریکہ کی طرف سے اتنی بھاری پابندیاں نہ لگائی جاتیں اور لازمی طور پر ایسا کرنے پر مجبور نہ کیا جاتا۔‘

چین کو حاصل ہونے والے فوائد
امریکہ اپنے نجی شعبے کی طاقت، اختراع کے لیے ملک کی مضبوط اقتصادی ترغیب اور دیگر عوامل کے علاوہ اس سے پیدا ہونے والی توانائی کی وسیع مقدار کی بدولت ٹیکنالوجی کا سردار بن گیا۔
تو چین نے کیا فوائد حاصل کیے ہیں؟
کائل چن بتاتے ہیں کہ جہاں امریکہ میں سرمایہ کاری مارکیٹ کے مطابق تیزی سے ہوتی ہے وہیں چین میں حکومت اپنے طویل المدتی منصوبوں پر قائم رہتی ہے اور ان میں مستقل طور پر سرمایہ کاری کرتی ہے، چاہے وہ فوری منافع نہ بھی دیں۔
ان کے مطابق ’چین میں ایک ایسا نظام ہے جو انتہائی سخت اندرونی مسابقت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جہاں مقامی حکومتیں اپنے مقامی کاروبار کو سپورٹ کرتی ہیں اور ایک قسم کا ٹورنامنٹ بنایا جاتا ہے۔‘
’یہ شدید اندرونی مقابلہ ایسے کھلاڑی پیدا کرتا ہے جو نہ صرف چین بلکہ عالمی سطح پر بھی مسابقتی ہونے کا انتظام کرتے ہیں۔‘
ایک اور لفظ کا ماہرین بار بار تذکرہ کرتے ہیں کہ تکنیکی دوڑ میں چین کے فائدے کی وضاحت کرنے کے لیے ’میگنیٹیوڈ‘ یعنی اس کی آبادی کی وسعت اور اس آبادی پر دستیاب ڈیٹا کا بھی تعلق ہے۔
دی ایشیا گروپ کے چائنہ ڈائریکٹر ہان شین لن کا کہنا ہے کہ ’چین ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو اپنی پوری آبادی کے ساتھ جانچ سکتا ہے۔‘
مثال کے طور پر ’چینی ادویات سازوں کی مریضوں کو زیادہ تیزی سے بھرتی کرنے اور سینٹرلائزڈ قومی مریضوں کے ڈیٹا بیس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نے چین میں خاص طور پر آنکولوجی کے شعبے میں کلینکل ٹرائلز اور اس کے نتیجے میں ادویات سازی کی رفتار کو بہت تیز کر دیا ہے۔‘
ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کمپنیاں چین کو ٹیکنالوجی کے مستقبل کی وضاحت کرنے کے لیے کم از کم امریکہ کی طرح مراعات یافتہ پوزیشن میں رکھتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ شنگھائی میں اس کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تپا کہ ’جو چیز مجھے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح بغیر کسی رکاوٹ کے جدید ٹیکنالوجی روزمرہ کی زندگی میں ضم ہوتی نظر آتی ہے، اے آئی سے چلنے والی لاجسٹکس سے لے کر ہر قسم کے لین دین کے لیے کیش لیس ادائیگیوں تک۔‘
تاہم، انھوں نے خبردار کیا کہ چین جس راستے پر چل رہا ہے وہ خطرات سے خالی نہیں ہے۔ ان کی رائے میں ’عالمی سطح پر بہت سے ممالک کے تعاون اور قبولیت کے بغیر خاص طور پر معیارات کے لحاظ سے چین کو خطرات لاحق ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’نتیجتاً، چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو جیسے اقدامات کے ذریعے گلوبل ساؤتھ میں اپنی رسائی کو بڑھایا ہے، اور اقوام متحدہ جیسی کثیر الجہتی تنظیموں میں سٹینڈرڈ طے کا تعین کرنے والے اداروں پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔‘