اسلام آباد : وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے خیبر پختونخوا ہاؤس میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ملکی سیاست، عمران خان کی رہائی اور اپوزیشن جماعتوں کے کردار پر کھل کر اظہار خیال کیا۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ پچاس سال پہلے کی ایک اسٹڈی میں گوادر اور کالا باغ کو پاکستان کی خوش قسمتی قرار دیا گیا تھا۔ ان کے مطابق گوادر پورے خطے اور دنیا کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ کالا باغ ڈیم زرعی انقلاب لا سکتا ہے اور اس پر فوری کام ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جب ان کی عمران خان سے ملاقات ممکن نہیں ہوتی تو بیرسٹر سیف یا خاندان کے افراد یا وکلاء کے ذریعے پیغام رسانی ہوتی ہے۔ "عمران خان کا جو بھی پیغام ہوتا ہے، وہ مجھ تک پہنچتا ہے اور ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔
گنڈا پور نے کہا کہ جن لوگوں نے انہیں بجٹ پیش کرنے پر غدار کہا تھا، وہ خود غدار ہیں۔ "مائنس عمران خان کہنے والے کسی بے شرم نے آج تک معافی نہیں مانگی"، انہوں نے واضح کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت جان بوجھ کر پی ٹی آئی میں تقسیم پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ پارٹی اندرونی لڑائیوں میں الجھی رہے۔ لیکن عمران خان کے ساتھ ان کا رابطہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ عمران خان کی رہائی صرف عدالت سے ہوگی، کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ خان صاحب نے مذاکراتی کمیٹی خود بنائی تھی اور پھر خود ہی ختم بھی کردی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہ عمران خان کی رہائی کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کوشش نہ کرتے ہوں۔
گنڈا پور نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کی جنگ پی ٹی آئی نے لڑی ہے اور اب فاٹا کے فنڈز کے حصول کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کریں گے۔ ان کے مطابق فاٹا کا انضمام ایک نیشنل پالیسی کے تحت عمل میں آیا تھا۔
مولانا فضل الرحمان کے بارے میں بات کرتے ہوئے گنڈا پور نے کہا کہ اگر وہ "حق کا کلمہ" پڑھنے پر راضی ہو جائیں تو انہیں خوش آمدید کہیں گے، مگر وہ جانتے ہیں کہ مولانا ایسا نہیں کریں گے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مولانا نے 26 ویں آئینی ترمیم میں پیسے لے کر ووٹ دیا۔ "ہماری پارٹی نے مولانا کے پیچھے نمازیں پڑھیں مگر انہوں نے حکومت کا ساتھ دے دیا۔
صحافی کے سوال پر کہ مولانا پر پیسے لینے کا الزام پہلی بار کیوں لگا، گنڈاپور نے جواب دیا کہ "اگر مولانا نے ووٹ دیا تو یقیناً پیسے ہی لیے ہوں گے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ جو شخص کبھی عورت کی حکمرانی کو حرام قرار دیتا تھا، وہ "ڈیزل کے پرمٹ" کے لیے عورت کی حکمرانی کو قبول کرچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں ڈی آئی خان کے عوام کو کہا جاتا تھا کہ مولانا کو ووٹ دیں مگر اب عوام حقیقت جان چکے ہیں۔