اسلام آباد: مشہور ٹک ٹاکر سامعہ حجاب اور ان کے مبینہ قریبی دوست زاہد حسین کے معاملے نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ عدالت نے زاہد حسین کا پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے جبکہ ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے۔ تاہم اس کیس نے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں ایک بڑی بحث چھیڑ دی ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں قصوروار صرف لڑکا نہیں بلکہ لڑکی بھی برابر کی شریک ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر تعلقات باہمی رضامندی سے قائم رہے تو پھر بعد میں کسی ایک فریق پر سارا الزام ڈال دینا انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ سامعہ کی زاہد کے ساتھ ایک رومانوی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں دونوں کو خوشگوار موڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو کے نیچے کئی صارفین یہ بھی پوچھ بیٹھے کہ اگر شادی کا ارادہ ہی نہیں تھا تو ایک لڑکے کے ساتھ رومانوی ویڈیوز بنانے اور تحائف لینے کا کیا مقصد تھا؟
واضح رہے کہ سامعہ بیان دے چکی ہیں کہ ان کے کئی بار رشتے سے انکار پر زاہد حسن نے ان کی والدہ کو دھمکایا اور اغوا کی کوشش کی جبکہ ذرائع کے مطابق زاہد حسین نے سامعہ حجاب کے ساتھ تعلقات اور مختلف شہروں کے دوروں کا اعتراف کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مہنگے تحائف اور اخراجات بھی وہ خود برداشت کرتے رہے ہیں۔ دوسری جانب، جب شادی کی بات آئی تو سامعہ حجاب کی جانب سے اچانک مقدمے کا راستہ اختیار کیا گیا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت کو دونوں پہلوؤں کا بغور جائزہ لینا ہوگا، کیونکہ اگر تعلقات باہمی رضامندی کے ساتھ قائم رہے تو صرف مرد کو مجرم قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ دوسری طرف خواتین کے حقوق کے حامی حلقے یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ اگر کسی مرحلے پر دباؤ یا دھوکا دیا گیا تو پھر لڑکی کا موقف زیادہ مضبوط ہو سکتا ہے۔
یہ کیس اب ایک بڑے سوال کو جنم دے رہا ہے: کیا ایسے معاملات میں قصور صرف لڑکے کا ہوتا ہے یا لڑکی بھی برابر کی ذمہ دار ہے؟
فی الحال عدالت میں کارروائی جاری ہے اور حتمی فیصلہ قانون اور شواہد کی بنیاد پر سامنے آئے گا، لیکن عوامی بحث نے یہ معاملہ ایک بڑے سماجی اور قانونی سوال میں بدل دیا ہے۔