ہتھیاروں کے علاوہ اس تقریب کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں 26 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی، جن میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جانگ ان شامل تھے
اس تقریب کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں 26 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی، جن میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جانگ ان شامل تھےلیزر ہتھیار، نیوکلیئر بیلسٹک میزائل اور دیوہیکل انڈر واٹر ڈرون ان نئے ہتھیاروں میں شامل ہیں، جن کی چین نے آج عالمی سطح پر نقاب کشائی کی ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی شکست اور عالمی امن کے قیام کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر بیجنگ میں منعقدہ پریڈ سے خطاب میں یہ واضح کیا کہ ’چین رکنے والا نہیں اور نہ ہی ہم بدمعاشوں سے خوفزدہ ہوں گے۔‘
ہتھیاروں کے علاوہ اس تقریب کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں 26 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی، جن میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جانگ ان شامل تھے۔
ہائپر سونک کروز میزائلچین کے قومی پرچم بردار ہیلی کاپٹرز اور جدید لڑاکا طیاروں نے چینی صدر شی جن پنگ کو سلامی بھی پیش کی۔
اس دوران ہم نے ہائپر سونک گلائیڈرز، وائے جے-21 جہاز شکن کروز میزائل اور آبدوز سے لانچ کیے جانے والے جے ایل-3 بیلسٹک میزائل بھی دیکھے۔
پریڈ میں چین کے جوہری بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) کی نمائش بھی کی گئی۔
دفاعی تجزیہ کار الیگزینڈر نیل نے بی بی سی کی نامہ نگار تیسا وونگ کو بتایا کہ یہ طول رینج کے حامل میزائل ہیںاور ایک میزائل متعدد وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار الیگزینڈر نیل کے مطابق اس میزائل کو کچھ ایسے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ چین سے براعظم امریکہ کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

چین نے آج ’گوام کلر‘ نامی ڈونگ فینگ 26 ڈی میزائل کی نقاب کشائی بھی کی۔
یہ درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ہے جو بحرالکاہل میں لڑاکا طیاروں کے ایک گروپ یا امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس کا نام امریکی علاقے ’گوام‘ کی مناسبت سے رکھا گیا ہے جہاں امریکہ کا اہم فوجی اڈہ موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ چین کے ساتھ تنازع کی صورت میں یہ اڈہ امریکہ کی فوجی کارروائیوں کے لیے لانچ پیڈ کا کام کرے گا۔

ایک اور ہتھیار ایل وائے ون (LY-1) کی بھی نقاب کشائی کی گئی، یہ لیزر ہتھیار آٹھ پہیوں والے HZ-155 بکتر بند ٹرک کے اوپر نصب تھا۔
دفاعی تجزیہ کار الیگزینڈر نیل کے مطابق یہ لیزر ہتھیار اس قدر طاقتور ہے کہ یہ دشمن کے الیکٹرانک نظام کو ناکارہ کرنے اور جلا دینے کے ساتھ ساتھ حریف پائلٹ کو اندھا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
پریڈ میں بہت بڑے حجم کی خودکار گاڑیاں بھی دکھائی گئی ہیں جو زیر سمندر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
یہ آبدوز نما ڈرون پانی کے اندر 18 سے 20 میٹر تک جا سکتے ہیں اور دشمن کے بیڑے یا آبدوزوں کے حملے کے دوران کمانڈ اینڈ کنٹرول اور جاسوسی مشن کے لیے استعمال کے جا سکتے ہیں۔
پریڈ میں ڈرون ٹیکنالوجی کی نئی اقسام بھی شامل تھیں، جیسے ٹینکوں پر نصب ڈرون پلیٹ فارم، خودکار ڈرون اور ’روبوٹک ڈاگ‘۔

چین کے ففتھ جنریشن کے فوجی طیاروں کو رن وے سے ٹیک آف کرتے اور ساتھ ہی ساحلی پٹی پر سمندر کے اوپر پرواز کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
دفاعی تجزیہ کار الیگزینڈر نیل کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ طیارے ساحل سے اندر کی طرف پرواز کر رہے ہیں اور یہ پچھلی پریڈ کے مقابلے میں ایک نئی پیشرفت ہے۔
الیگزینڈر نیل کے مطابق اس سے چین کی سمندری طیارہ بردار جہازوں سے زمینی حملہ کرنے کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

تقریب کے دوران شمالی کوریا کے صدر کم جانگ ان اور چین کے صدر شی جن پنگ کو آپس میں بات کرتے بھی دیکھا گیا۔
وہ ہتھیار جن کے بارے میں مغرب کو فکرمند ہونے کی ضرورت ہے: فرینک گارڈنر کا تجزیہ
اب پینٹاگون کے ماہرین اور دنیا بھر کے دفاعی حکام چین کی تازہ ترین فوجی پریڈ اور ہتھیاروں کی نمائش کا جائزہ لیں گے۔
پیپلز لبریشن آرمی نے عسکری جدت کے ایک وسیع پروگرام کا آغاز کیا ہے، جس میں وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور کچھ شعبوں میں وہ امریکہ کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔
ہائپرسونک میزائل جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیزی سے سفر کرتے ہیں، ایک ایسا شعبہ ہے جہاں چین دنیا بھر کی قیادت کر رہا ہے۔
لندن تھنک ٹینک آر یو ایس آئی میں میزائل ٹیکنالوجی کے ماہر ڈاکٹر سدھارتھ کوشل ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل (YJ-17) اور ہائپر سونک کروز میزائل (YJ-19) کو اہم سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ چین مصنوعی ذہانت اور خود کار ہتھیاروں میں بھی بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ان میں سے ایک مثال AJX002 ہے، ایک بہت بڑا ( 60 فٹ) جوہری صلاحیت والا ڈرون جوسمندر کی گہرائیوں میں کام کر سکتا ہے۔۔
چین کے جوہری ہتھیار، جن میں سینکڑوں میزائل شامل ہیں، اب بھی روس اور امریکہ سے بہت کم ہیں۔ روس اور امریکہ کے پاس ہزاروں کی تعداد میں جوہری ہتھیار ہیں اور ان کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔