ایک ایسے لمحے پر جب جنگ بندی کے امکان ظاہر کیے جا رہے تھے الحیہ اور ان کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ وہ اسرائیلی اور امریکی وفود سے کچھ ہی فاصلے پر تھے۔ حملے کے وقت الحیہ اور حماس کی اعلیٰ قیادت غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے نئی امریکی سفارتی پیشکش پر بات چیت کر رہے تھے۔

تقریباً ایک سال قبل میں نے دوحہ میں حماس کے رہنما اور مرکزی مذاکرات کار خلیل الحیہ کا انٹرویو کیا تھا۔ میری اُن سے ملاقات ایک گھر میں ہوئی تھی جو اس عمارت سے زیادہ دور نہیں جہاں اسرائیل نے منگل کی شب حملہ کیا ہے۔
غزہ جنگ کی شروعات سے خلیل الحیہ حماس کے مرکزی مذاکرات کار رہے ہیں۔ وہ قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے اسرائیلیوں اور امریکیوں کو پیغام بھیجتے اور وصول کرتے ہیں۔
اور اب ایک ایسے لمحے میں جب جنگ بندی کے امکانات ظاہر کیے جا رہے تھے، خلیل الحیہ اور اُن کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ وہ اسرائیلی اور امریکی وفود سے کچھ ہی فاصلے پر تھے۔
حملے کے وقت خلیل الحیہ اور حماس کی اعلیٰ قیادت غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے نئی امریکی سفارتی پیشکش پر بات چیت کر رہی تھی۔
اسرائیل کی جانب سے دوحہ پر حملے کے اعلان نے فوراً سوشل میڈیا پر اِس قیاس آرائی کو تقویت دی کہ امریکی پیشکش محض ایک بہانہ تھی تاکہ حماس کی قیادت کو ایک مقام پر اکٹھا کر کے انھیں نشانہ بنایا جا سکے۔
گذشتہ سال 3 اکتوبر کو خلیل الحیہ میرے ساتھ ملاقات کے لیے ایک چھوٹے گھر میں داخل ہوئے۔ میں حیران تھا کہ اُن کے ساتھ بہت کم سکیورٹی ہے۔ ملاقات سے قبل ہمیں اپنے فون جمع کروانے پڑے، اُس گھر میں اُن کے ساتھ دو باڈی گارڈ بھی آئے تھے۔
باہر قطری پولیس کے اہلکار ایس یو وی میں سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔ بس یہی خلیل کی مکمل سکیورٹی تھی۔ ایک فضائی حملے کو سو باڈی گارڈ بھی نہیں روک سکتے تھے لیکن خلیل الحیہ اور اُن کے ساتھی پُرسکون اور بااعتماد تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ قطر کو ایک محفوظ مقام سمجھا جاتا تھا اور وہ وہاں باآسانی نقل و حرکت کر سکتے تھے۔
31 جولائی 2024 کو اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کیا تھا جو کہ تہران میں موجود حماس کے سیاسی رہنما تھے۔ وہ اس وقت ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برادری کے بعد جا رہے تھے۔
غزہ میں جنگ کے دوران میں نے سوچا کہ آیا خلیل الحیہ کے ساتھ ایک ہی کمرے میں بیٹھنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن اسی دورانیے میں میں نے بھی یہی سوچا تھا کہ قطر محفوظ ہے۔
گذشتہ دہائیوں کے دوران قطر نے مشرق وسطیٰ کے سوئٹزرلینڈ جیسا مقام حاصل کیا ہے جہاں دشمن آپس میں بیٹھ کر ڈیل کر سکتے ہیں۔
امریکیوں نے دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔ 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد قریب دو سال تک قطر سفارتی کوششوں کا مرکز رہا ہے جہاں جنگ بندی کے لیے کئی بار مذاکرات ہوئے۔
صدر ٹرمپ کے مشیر سٹیو وٹکوف کے ذریعے ہونے والے امن مذاکرات بُری طرح ناکام رہے۔ لیکن اب وہ بربادی کے دہانے پر ہیں۔ ایک سینیئر مغربی سفارتکار کے بقول ’اب کوئی سفارتکاری نہیں ہے۔‘
خیال رہے کہ قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری کا کہنا ہے کہ دوحہ پر اسرائیلی حملے سے قبل قطر کو مطلع نہیں کیا گیا تھا۔
ایکس پر ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’ایک امریکی اہلکار کی طرف سے اُس وقت کال آئی جب دھماکوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔‘
اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ امریکی حکومت نے قطر کو حملے سے قبل صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا مگر وارننگ پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔ ایک بیان کے مطابق ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے اپنے معاون خصوصی سٹیو وٹکوف سے کہا تھا کہ وہ قطر کو اسرائیلی حملے سے متعلق مطلع کر دیں۔
حماس کے رہنما خلیل الحیہ جنھیں دوحہ میں اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا اُدھر وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اسرائیلیوں کو بتایا ہے کہ دشمن کبھی آرام سے سو نہیں سکیں گے اور وہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہوئے حملوں کا حکم دینے کی قیمت چُکا رہے ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں زور پکڑ رہی ہیں۔ دوحہ میں حملے سے کچھ گھنٹے قبل اسرائیلی فوج نے تمام فلسطینیوں کو غزہ شہر چھوڑنے کا حکم دیا اور جنوب کی طرف جانے کو کہا۔ خیال ہے کہ اس سے 10 لاکھ شہری متاثر ہو سکتے ہیں۔
ٹی وی پر نشر ہونے والے بیان میں نتن یاہو نے غزہ میں فلسطینیوں سے کہا ہے کہ ’اِن قاتلوں کی وجہ سے مت رُکیں۔ اپنے حقوق اور مستقبل کے لیے کھڑے ہوں۔ ہمارے ساتھ امن قائم کریں۔ صدر ٹرمپ کی پیشکش کو قبول کریں۔‘
’فکر نہ کریں، آپ یہ کر سکتے ہیں۔ ہم آپ سے ایک مختلف مستقبل کا وعدہ کرتے ہیں۔ لیکن آپ کو ان لوگوں کو راستے سے ہٹانا ہو گا۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو ہمارے مشترکہ مستقبل کی کوئی حد نہیں ہو گی۔‘
اگر غزہ میں موجود فلسطینی انھیں سُن سکتے ہیں تو اُن کے لیے یہ الفاظ کھوکھلے ہوں گے۔ اسرائیل نے اُن کے لاکھوں گھروں کے ساتھ ساتھ کئی ہسپتال، یونیورسٹیاں اور سکول تباہ کر دیے ہیں۔
غزہ بھوک سے متاثرہ ہے اور غزہ شہر میں قحط ہے۔ خطے میں انسانی بحران کے دوران لوگوں کی جبری نقل مکانی کروانے سے صرف شہریوں پر اسرائیلی دباؤ بڑھے گا۔
اسرائیل نے غزہ میں 60 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے اور اکثریت شہریوں کی ہے۔ نتن یاہو کو انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں جنگی جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ کا سامنا ہے۔ عالمی عدالت انصاف اسرائیل کے خلاف نسل کشی کی تحقیقات بھی کر رہی ہے۔
دوحہ میں حملے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ نتن یاہو اور ان کی حکومت نہ صرف غزہ میں بلکہ تمام فرنٹس پر آگے بڑھے گی۔ اسے یقین ہے کہ امریکی حمایت کے ساتھ اس کی فوج اہداف پر عملدرآمد کرے گی۔
اس حملے پر وائٹ ہاؤس نے افسوس ظاہر کیا ہے۔ قطر امریکہ کا قیمتی اتحادی ہے جہاں امریکی فوج کا اڈہ ہے اور امریکہ وہاں بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے۔
لیکن نتن یاہو بظاہر یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ اس پر اُن کی مخالفت کریں گے۔ نتن یاہو سمجھتے ہیں ٹرمپ واحد رہنما ہیں جو اُن کی بات سُنتے ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں جاری ہیں۔ رواں ماہ برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
نتن یاہو کی قوم پرست کابینہ کے اتحادی یہ مطالبہ دہرا سکتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطینی غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کیا جائے۔