برِج نرائن پاکستان کے حامی تھے، انھیں یہیں رہنا تھا۔ سو جب سنہ 1947 میں ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے اعلان کے بعد فسادات پھوٹے تو لاہور کے معیشت دان نکلسن روڈ پر اپنے گھر سے باہر آ کر فسادیوں کو سمجھانے لگے کہ وہ دکانوں اور مکانوں کو آگ نہ لگائیں کیوںکہ ’یہ اب پاکستان کی ملکیت ہے۔‘
برِج نرائن پاکستان کے حامی تھے، انھیں یہیں رہنا تھا۔ سو جب سنہ 1947 میں ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے اعلان کے بعد فسادات پھوٹے تو لاہور کے معیشت دان نکلسن روڈ پر اپنے گھر سے باہر آ کر فسادیوں کو سمجھانے لگے کہ وہ دکانوں اور مکانوں کو آگ نہ لگائیں کیوںکہ ’یہ اب پاکستان کی ملکیت ہے۔‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے پروفیسر برِج نرائن نو آبادیاتی پنجاب میں زرعی معیشت کے تجزیے کے لیے معروف تھے۔ وہ 1888 میں پیدا ہوئے اور ہندوستان کی تقسیم سے قبل لاہور میں سناتن دھرم کالج (جو بعد میں ایم اے او کالج بنا) میں معاشیات کے پروفیسر تھے۔ انھیں پنجاب یونیورسٹی نے بھی اعزازی پروفیسر آف اکنامکس مقرر کیا تھا۔
ڈاکٹر جی آر مدن اپنی کتاب ’اکنامک تھنکنگ ان انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ برصغیر کی تقسیم سے قبل پروفیسر برِج نرائن کو ’20ویں صدی کے صفِ اوّل کے ماہرینِ معاشیات میں شمار‘ کیا جاتا تھا۔ وہ مغربی ممالک کی بعض جامعات میں معاشی مسائل پر لیکچر دیتے تھے اور وہ اسی موضوع پر 15 سے زیادہ کتابیں لکھ چکے تھے۔ ان کے مضامین مختلف جرائد اور رسائل میں بھی شائع ہوئے تھے۔
مگر جناح کے دو قومی نظریے کی حمایت اور گاندھی کی مخالفت بھی ان کی مقبولیت کی ایک وجہ تھی۔ ڈاکٹر جی آر مدن لکھتے ہیں کہ پروفیسر نرائن نے ’گاندھی کی ’چرخہ اکنامکس‘ کی کھلے عام مخالفت کی تھی۔‘
قیامِ پاکستان کے ’پُرجوش حامی‘
صحافی، ادیب اور شاعرگوپال مِتّل اپنی کتاب ’لاہور کا جو ذکر کیا‘ میں بتاتے ہیں کہ جہاں بیشتر ماہرینِ اقتصادیات یہ کہتے تھے کہ پاکستان اقتصادی طور پر کبھی مستحکم نہیں ہو سکے گا اور اس کا وجود بڑا ہی ناپائیدار ہے وہیں پروفیسر برج نرائن نے متعدد مضامین اس نظریے کی حمایت میں لکھے کہ پاکستان اقتصادی طور پر خود کفیل ہونے کا اہل ہوگا۔
اپنی کتاب ’دی پنجاب بلڈیڈ، پارٹیشنڈ اینڈ کلینزڈ: اَن ریولنگ دی 1947 ٹریجڈی تھرو سیکرٹ برٹش رپورٹس اینڈ فرسٹ پرسن اکاؤنٹس‘ میں پاکستانی نژاد سویڈش محقق اشتیاق احمد نے دلی میں سُوم آنند کے سنہ 1999 میں لیے گئے یہ تاثرات نقل کیے ہیں: ’پروفیسر برج نرائن نے پاکستان کے مطالبے کا دفاع کیا اور ایک وسیع اور مدلل معاشی استدلال تیار کیا کہپاکستان ایک قابلِ عمل ریاست ہو گی۔‘
تقسیم ہند کے دوران ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ افراد پناہ کی تلاش میں در بہ در ہوئے تھےقیام پاکستان سے پہلے اپنے والدین کے ساتھ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں رہنے والے سُوم آنند نے بتایا کہ پروفیسر برج نرائن پاکستان کے تصور کے ’پُرجوش حامی‘ تھے۔ وہ اخبارات میں مضامین لکھتے جن میں ’معاشیات کے اپنے وسیع علم کی بنیاد پر یہ ثابت کرتے کہ پاکستان ایک کامیاب اور پائیدار ریاست ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے انھیں یہیں رہنے کے لیے کہا تھا اور وہ پوری طرح تیار تھے کہ اپنی زندگی پاکستان کی خدمت کے لیے وقف کر دیں۔‘
’وہ مخلصانہ طور پر یقین رکھتے تھے کہ جناح ایک جمہوری ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں غیر مسلموں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔‘
سُوم آنند کہتے ہیں کہ ’ہندو بڑی تعداد میں مئی 1947 ہی سے نقل مکانی کر رہے تھے اور 15 اگست تک صرف کوئی دس ہزار ہی باقی رہ گئے تھے، اس امید پر کہ حالات سنبھل جائیں گے اور وہ پاکستان ہی میں رہ سکیں گے کیونکہ یہیں ان کی جڑیں تھیں۔‘
’لیکن جیسے ہی ریڈکلف ایوارڈ منظر عام پر آیا، جرائم پیشہ عناصر نے قتل و غارت اور لوٹ مار شروع کر دی۔ اس سے ان لوگوں کی امیدیں چکنا چور ہوگئیں جو جناح کے سیکولر نظریے پر یقین رکھتے تھے۔‘
تاہم پروفیسر نرائن ’اپنے موقِف پر قائم رہے اور کہا کہ پاکستان ہی ان کا حقیقی وطن ہے، اس لیے ان کے جانے کی کوئی وجہ نہیں۔‘
لاہور میں فسادات: ’یہ کافر ہے، اسے مار ڈالو‘
خوش ونت سنگھ اپنی سوانح عمری ’ٹروتھ، لوو اینڈ اے لٹل میلیس: این آٹو بایوگرافی‘ میں بتاتے ہیں کہ لاہور میں فسادات کی چنگاری سکھ رہنما ماسٹر تارا سنگھ نے لگائی جب اُنھوں نے پنجاب اسمبلی کی عمارت کے باہر ڈرامائی انداز میں اپنی کرپان نیام سے نکالی اور نعرہ لگایا: ’پاکستان مردہ باد!‘
سنگھ، جو تب لاہور میں تھے، لکھتے ہیں کہ ’یہ ایسے ہی تھا جیسے ماچس کی جلتی ہوئی تیلی تیل بھرے کمرے میںپھینک دی جائے۔ پورے صوبے میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اُٹھے۔‘
صحافی، ادیب اور شاعرگوپال مِتّل کے مطابق فسادات منظم تھے یا خود رو، اس پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں تھیں۔ وہ اپنی کتاب ’لاہور کا جو ذکرکیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بہر حال یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اگر فسادات منظم ہیں تو اتنی دکانوں اور اتنے مکانوں کو کیوں جلایا جا رہا ہے جو پاکستان کا اثاثہ تھے۔ فسادیوں نے اس بستی پر جس میں پروفیسر برج نرائن رہتے تھے، حملہ کیا تو انھوں نے یہی دلیل دے کر انھیں آتش زنی اور قتل و غارت سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔‘
محقق اشتیاق احمد نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ کیسے لاہور میں جاری فسادات کے دوران پروفیسر نرائن کو قتل کیا گیا۔ وہ سُوم آنند کا حوالہ دیتے ہیں کہ ’ایک ہجوم اس علاقے میں آن پہنچا جہاں وہ رہتے تھے۔ وہ (ہجوم) ترک شدہ ہندو اور سکھ گھروں کو جلا اور لوٹ رہا تھا۔
’نرائن ان کے قریب گئے اور کہا کہ ایسا نہ کریں کیونکہ یہ اب پاکستان کی ملکیت ہے۔ ان کی بات سے پہلا گروہ قائل ہو گیا اور وہاں سے ہٹ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد مزید غنڈے آ گئے اور پھر جلانے اور لوٹنے لگے۔ نرائن دوبارہ ان کے قریب گئے اور وہی بات دہرائی۔‘
’لیکن ان میں سے ایک چلایا: ’یہ کافر ہے، اسے مار ڈالو‘۔‘
اس میں لکھا ہے کہ ’ہجوم ان پر ٹوٹ پڑا اور پاکستان کے سب سے پُرجوش ہندو حامی کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔‘
دیگر تاریخ دانوں نے بھی اپنی کتابوں میں اس واقعے کے بارے میں لکھا ہے۔ ’دی کافی ہاؤس آف لاہور: اے میموائر 1942–57‘ میں مورخ کے کے عزیز لکھتے ہیں کہ پروفیسر برج نرائن وہ واحد ہندو محقق تھے جنھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ کانگریس کے دعوؤں کے برعکس پاکستان معاشی طور پر ایک قابلِ عمل ریاست ہوگا۔ ’وہ یہ بات اپنے کلاس رومز اور سیمینارز میں دہراتے اور عوامی اجتماعات میں بھی اس پر زور دیتے۔‘
کے کے عزیز لکھتے ہیں کہ ’جب ایک مجمع ان کے گھر کو آگ لگانے کے ارادے سے وہاں پہنچا تو برج نرائن نے گلی میں اپنے دروازے پر ان کا سامنا کیا اور کہا کہ چند دنوں میں یہ تمام گھر پاکستان کی ملکیت ہوں گے اور انھیں نقصان پہنچانا دراصل پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان کی بات نے پہلی بار آنے والے مجمع کو قائل کر لیا اور وہ منتشر ہوگئے۔‘
’مگر تھوڑی دیر بعد ایک اور ہجوم جمع ہوگیا۔ اس بار پروفیسر انھیں قائل نہ کر سکے۔ وہ قتل کر دیے گئے اور ان کی لائبریری راکھ میں بدل گئی۔‘
لاہور کا سناتن دھرم کالج ایم اے او کالج بن گیا
مِتّل لکھتے ہیں کہ لاہور کے سناتن دھرم کالج کے پروفیسر برج نرائن پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیے ہوئے تھے اور ان کی ’بے تعصبی کا کٹر سے کٹر مسلم لیگی قائل تھا۔‘
مِتّل کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا لیکن انھوں نے بھی لاہور کو اپنا مسکن بنایا اور زیادہ تر وقت اپنے مسلمان ساتھیوں کے ساتھ گزارتے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ پروفیسر نرائن کی موت ’میرے لیے زبردست دھچکا تھی۔ وہ میرے استاد تھے اور میرے مزاج کی تشکیل میں ان کا بڑا دخل تھا۔‘
’گھر والے لاہور میں رہنے کے لیے پہلے بھی تیار نہیں تھے، اب میرے قدم بھی ڈگمگا گئے۔ جب امرتسر جانے والا آخری قافلہ لاہور سے روانہ ہوا تو میں بھی ایک بس پر سوار ہو گیا۔ قافلہ امرتسر پہنچا تو وہاں بھی جلے ہوئے مکان نظر آئے۔ لاہور میں پیشانی پر نورِ شہادت پیدا نہیں ہوا تھا لیکن یہاں آکر ندامت کے قطرے ضرور نمودار ہو گئے۔‘
متل نے مزید لکھا کہ ’قافلے والے لٹ لٹا کر آئے تھے لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ لٹیرے خود ان میں بھی موجود ہیں۔ کسی کا ٹرنک غائب تھا تو کسی کا بستر۔‘
گوپال متل کے مطابق بہت ممکن تھا کہ ’اگر پروفیسر برج نرائن زندہ رہتے تو پاکستان کے اقتصادی استحکام کا کام انھیں کے سپرد ہوتا لیکن قضا و قدر کو یہ منظور نہیں تھا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ پروفیسربرِج نرائن 'کی راکھ اسی پاکستان کی خاک میں ملی جس سے انھیں محبت تھی۔
’آزادی کے بعد سنہ 1916 میں لاہور میں کھلنے والا سناتن دھرم کالج انبالا، انڈیا منتقل ہوگیا تھا۔ اور امرتسر میں 1933 میں قائم ہونے والا محمدن اینگلو اوریئنٹل (ایم اے او) کالج لاہور، پاکستان میں اسی عمارت میں جہاں پروفیسر برِج نرائن پڑھاتے تھے۔‘