دائیں بازو کے نظریات کے حامی چارلی کرک کو گذشتہ ہفتے یوٹا یونیورسٹی میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ امریکی حکام نے اس معاملے میں ایک نوجوان ٹائلر روبنسن کو گرفتار کیا ہے۔
چارلی کرک کو گذشتہ ہفتے یوٹا یونیورسٹی میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھاامریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جو چارلی کرک کی موت کا جشن منا رہے ہیں۔
امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے چارلی کرک شو کی میزبانی کرتے ہوئے کہا کہ ’ان لوگوں کی شناخت کریں اور ان کے آجروں کو فون کریں۔‘
’ہم سیاسی تشدد پر یقین نہیں رکھتے، ہم تہذیب پر یقین رکھتے ہیں۔‘
دائیں بازو کے نظریات کے حامی چارلی کرک کو گذشتہ ہفتے یوٹا یونیورسٹی میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ امریکی حکام نے ٹائلر روبنسن نامی نوجوان کو اس معاملے میں گرفتار کیا تھا۔
چارلی کرک کی موت کے حوالے سے نامناسب سمجھی جانے والی سوشل میڈیا پوسٹس پر ملازمتوں سے فارغ کیے جانے والوں میں پائلٹس، طبّی کارکنان، ٹیچرز اور سیکرٹ سروس کے ایک ایجنٹ بھی شامل ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ملازمتوں سے برطرفی اظہار رائے کی آزادی اور ملازمین کو حاصل حقوق کے خلاف ہے۔
چارلی کرک اپنی موت سے قبل ’چارلی کرک شو‘ کی میزبانی کیا کرتے تھے۔ پیر کو اس شو کی قسط میں بات کرتے ہوئے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا کہنا تھا کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امریکیوں کے ’سیاسی تشدد کا دفاع کرنے اور اس پر جشن منانے کے امکانات‘ زیادہ ہیں۔
امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جو چارلی کرک کی موت کا جشن منا رہے ہیںانھوں نے مزید کہا کہ ’سیاسی قتل کا جشن منانا تہذیب کے دائرے میں نہیں آتا۔‘
رپبلکن پارٹی کے دیگر اراکین بھی عوامی سطح پر چارلی کرک کی موت کا جشن منانے والوں کو سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے رُکنِ کانگرس رینڈی فائن نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’میں ان کی ملازمت سے برطرفی، ان کے فنڈ ختم کرنے اور ان کے لائسنس کی منسوخی کا مطالبہ کروں گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ایسے افراد کو ’مہذب معاشرے سے نکال کر پھینک دینا چاہیے۔‘
دوسری جانب جنوبی کیرولینا سے تعلق رکھنے والی کانگرس کی رُکن نینسی میس نے محکمہ تعلیم سے درخواست کی ہے کہ وہ ’اس سکول اور یونیورسٹی کی پائی پائی کاٹ لے‘ جو چارلی کرک کے خلاف کی گئی غیرحساس پوسٹس کرنے والے ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنے سے انکاری ہیں۔
چارلی کرک ایک کرسچن تھے اور انھیں جنس، نسل اور اسقاطِ حمل پر نظریات کے سبب لبرلز کی جانب سے اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
ان افراد میں امریکی سیکرٹ سروس کے ملازم انتھونی پف بھی شامل ہیں جنھوں نے فیس بُک پر لکھا تھا کہ کرک ’اپنے شو میں نفرت اور نسلی تعصب کا اظہار کرتے تھے۔۔۔ آخر میں آپ کو خدا کے آگے جوابدہ ہونا ہی پڑتا ہے۔‘
اس کے بعد انتھونی کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی گئی تھی۔
سیکرٹ سروس کے ڈائریکٹر شون کرن نے اپنے سٹاف کو ایک میمو بھی لکھا، جس میں کہا گیا ہے کہ محکمے کے ملازمین اس معاملے پر محتاط رہیں۔
’سیکرٹ سروس کے مرد اور خواتین (مسائل کے) حل پر توجہ مرکوز رکھیں، ان میں اضافے کا باعث نہ بنیں۔‘
دوسری جانب نجی کمپنیوں کے ملازمین بھی ملازمتوں سے فارغ کیے جارے ہیں۔
مشیگن میں آفس ڈپو کی برانچ نے اپنے ایک ملازم کو فارغ کیا ہے جنھیں ایک ویڈیو میں چارلی کرک کے حوالے سے ایک پوسٹر پرنٹ کرنے سے انکار کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
کمپنی نے بی بی سی کو ملازم کو فارغ کرنے کی تصدیق کی ہے۔
آفس ڈپو کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ملازم کا رویہ ’مکمل طور پر ناقابلِ قبول اور غیر حساس‘ تھا جس سے کمپنی کی پالیسی کی خلاف ورزی ہوئی۔
امریکہ میں پروفیسرز اور صحافیوں کو بھی چارلی کرک کی موت کے حوالے سے تبصروں پر سزا کا سامنا ہے۔
طویل عرصے سے واشنگٹن پوسٹ کے لیے کالم لکھنے والی کیرن عطیہ نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ امریکی اخبار نے چارلی کرک کی موت کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم بلیو سکائی پر پوسٹس لکھنے پر انھیں برطرف کر دیا۔
جنوبی کیوولینا کی کلیمسن یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے چارلی کرک کی موت کے بعد ’نامناسب‘ پوسٹس کرنے پر اپنے ایک ملازم کو ملازمت سے برطرف کر دیا اور دو پروفیسرز کو چھٹیوں پر بھیج دیا ہے۔
چارلی کرک کے حوالے سے نامناسب سمجھے جانے والی پوسٹس پر صرف امریکہ میں ہی کارروائیاں نہیں ہو رہی ہیں بلکہ ایسے واقعات ملک سے باہر بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
کینیڈا میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو نے پروفیسر روتھ مارشل کو چھٹیوں پر بھیج دیا کیونکہ انھوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بظاہر چارلی کرک پر فائرنگ کے واقعے پر طنز کیا تھا۔
امریکہ میں نجی کمپنیاں اپنے ملازمین کو ’اپنی مرضی‘ سے نکالنے کی آزادی رکھتی ہیں۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن سے منسلک قانونی امور کے پروفیسر سٹیون کولنز کہتے ہیں کہ امریکی آئین کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق نجی ملازمین کو برطرفیوں سے محفوظ نہیں رکھتا کیونکہ اس کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا۔
ان کے مطابق یہ اصول سرکار پر لاگو ہوتا ہے کہ وہ شہریوں کے اظہار رائے کے حق کو محدود نہیں کر سکتی۔
تاہم کورنل یونیورسٹی کے ورکر انسٹٹیوٹ سے منسلک ریزا لائبروٹز کہتی ہیں کہ چارلی کرک کے حوالے سے پوسٹس پر احتساب کا مطالبہ کرنے والی عوامی شخصیات آزادی اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔
چارلی کرک اپنی موت سے قبل ’چارلی کرک شو‘ کی میزبانی کیا کرتے تھےان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سیاسی بیان بازی میں شدت عروج پر ہے اور ایسے میں یہ برطرفیاں ان کے لیے حیران کُن نہیں۔
’میرے خیال میں اس سے اس خوف کا عکس نظر آتا ہے جو امریکہ میں موجود ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا ایجنڈا نہ ماننے پر آپ کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘
امریکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی پروفیسرز کا بھی ایک بیان میں کہنا تھا کہ ملک میں تعلیمی آزادیوں کی حفاظت کی جانی چاہیے، نہ کہ سیاسی دباؤ میں اس پر قدغن لگائی جانی چاہیے۔‘