یہ بریسلٹ میوزیم کی ایک ملازمہ نے نو ستمبر کو چوری کیا تھا جس کے بعد انھوں نے اسے اپنی ایک جان پہچان والے چاندی کے تاجر کہ ہاتھ فروخت کیا۔ خاتون کو اس کے عوض 180,000 مصری پاؤنڈ (3,720 امریکی ڈالر) دیے گئے۔

قاہرہ میں واقع ایک مصری میوزیم سے تقریباً تین ہزار سال پرانا سونے کا بریسلیٹ گم ہو گیا تھا تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ اس قدیم اور تاریخی ورثے کو رقم کے حصول کے لیے چوری کر کے فروخت کر دیا گیا ہے۔
یہ بریسلٹ ایک فرعون کی ملکیت تھا۔ مصر کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ مصری عجائب گھر کے سٹور روم سے چوری ہونے والے اس خزانے کو المناک انجام کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
حکام کے مطابق گمشدہ بریسلٹ ’مصری میوزیم کے بحالی کی ایک ماہر نے میوزیم کے گودام سے چوری کیا تھا۔‘
یہ بریسلٹ میوزیم کی ایک ملازمہ نے نو ستمبر کو چوری کیا تھا جس کے بعد انھوں نے اسے اپنی ایک جان پہچان والے چاندی کے تاجر کہ ہاتھ فروخت کیا۔ خاتون کو اس کے عوض 180,000 مصری پاؤنڈ (3,720 امریکی ڈالر) دیے گئے۔
چاندی کے تاجر نے اس برسلیٹ کو خریدنے کے بعد سونے کے کارخانے میں کام کرنے والے ایک شخص کے ہاتھ 194,000 مصری پاؤنڈ (4,000 امریکی ڈالر) میں فروخت کیا۔ نئے خریدار نے اس قدیم برسلیٹ کو پگھلا کر مائع سونے کی شکل میں تبدیل کیا اور اس کے نئے زیورات بنا دیے۔
تاریخی بریسلٹ ہمیشہ کے لیے گُم ہو گیا
مصری وزارت داخلہ کے مطابق فرعون کے آخری دور سے تعلق رکھنے والا یہ برسلیٹ اب ہمیشہ کے لیے گم ہو چکا ہے کیونکہ اس پگھلایا جا چکا ہے۔
تاہم یہ واقعہ مصری عجائب گھروں میں استعمال ہونے والے حفاظتی طریقوں کے بارے میں بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔
سیاحت اور نوادرات کی وزارت میں آثار قدیمہ کے سینیئر ماہر ڈاکٹر میگڈی شاکر نے بی بی سی کو بتایا کہ مصر میں75 سے زیادہ عجائب گھر ہیں، لیکن ان کی ذمہ داریاں متعدد اداروں میں تقسیم ہیں، جن میں ثقافت، سیاحت اور نوادرات، زراعت اور ریلوے کی وزارتیں شامل ہیں۔
میگڈی شیکر کے مطابق جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان عجائب گھروں کی ذمہ داری کو کسی ایک ادارے یا انتظامیہ کے تحت یکجا کی جائے، جو ریاست کے منتخب کردہ کسی بھی ایک ادارے کو رپورٹ کرے۔ اس انتظامیہ کو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ان عجائب گھروں کو محفوظ بنانے کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔
مصری ماہر آثار قدیمہ نے ہر ایک فن پارے کے لیے ایک ’الیکٹرانک کوڈ‘ بنانے کی ضرورت پر زور دیا، جس میں ہر نمونے کی مکمل تفصیلات شامل ہوں، یعنی اِس کی دریافت کے لمحے سے لے کر بحالی کے عمل تک، ان مقامات تک جہاں یہ نمونے کی نمائش کیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ اسے ورثے کو بحال کرنا اور اسے محفوظ کرنا اور قانونی فریم ورک سے باہر اس کی گردش کو روکنا اہم ہے۔
مصر کی وزارت سیاحت اور نوادرات کے چیف ماہر آثار قدیمہ نے تمام مصری عجائب گھروں کے لیے ایک متفقہ کنٹرول روم کے قیام اور ذخیرہ میں موجود تمام نوادرات کی فوری طور پر فہرست تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جن کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔
’اصلی مجرم وہ ہیں جو نوادرات کی فروخت سے مالی فائدہ اٹھاتے ہیں‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزارت سیاحت اور نوادرات کے شعبے کے سربراہ نے اس شعبے سے منسلک کارکنوں کی تنخواہوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس شعبے میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد اُن کی اپنی تنخواہ 9,000 مصری پاؤنڈز یعنی تقریباً 185 امریکی ڈالر سے زیادہ نہیں ہے، اور اس صورتحال کے باعث ملازمین پر بہت زیادہ معاشی دباؤ ہے۔ کچھ کمزور افراد ’نوادرات کے بروکرز‘ یا بین الاقوامی گروہوں سے متعلق بیرونی لالچ میں آ جاتے ہیں۔ تاہم یہ اس طرح کے جرائم کے لیے جواز نہیں ہے۔
مصری نوادرات کی ماہر ڈاکٹر مونیکا ہانا نے لکھا کہ ’میں مصری عجائب گھر میں ہونے والی چوری کے حوالے سے ایک بہت اہم نکتہ واضح کرنا چاہوں گی۔ وہاں کام کرنے والے کیوریٹر اور بحالی کا فریضہ انجام دینے والے بڑی مہارت سے اپنا کام کرتے ہیں۔‘
’آخری بار جب ہم نے ارد گرد دیکھا، تو ہمیں معلوم ہوا کہ نوادرات کے ڈیلر دراصل دولت مند ہیں، نہ کہ بحالی کرنے والے (جن میں سے کچھ بحالی کا سامان اپنی جیب سے خریدتے ہیں) اور میوزیم کے کیوریٹر جو مصر کے ورثے کے تحفظ کے لیے وقف ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو لوگ ہمارے ورثے کی حفاظت کرتے ہیں وہ ہماری تہذیب کے دفاع کی پہلی لائن ہیں اور ہمیں ان سب پر جھوٹا الزام لگا کر ان پر الزام تراشی کرنے کے بجائے ان کو درپیش حالات پر نظر ڈالنی چاہیے۔ اصلی مجرم اور وہ لوگ جو نوادرات کی فروخت سے مالی فائدہ اٹھاتے ہیں‘۔
فرعون آمینیموپے کا بریسلٹ اب ماضی کا حصہ بن گیا

16 ستمبر کو مصر کی وزارت سیاحت اور نوادرات نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں تصدیق کی گئی تھی کہ تحریر سکوائر میں مصری عجائب گھر کی بحالی لیب سے قدیم بریسلٹ کے غائب ہونے کا مقدمہ تحقیقات کے لیے پولیس اور پبلک پراسیکیوشن آفس کو بھیجا گیا ہے۔
تمام متعلقہ حکام کو اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرنے کے لیے مطلع کر دیا گیا تھا۔ قدیم بریسلٹ کی ایک نقل پورے ملک کے ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور بندرگاہوں پر تمام آثار قدیمہ کے اداروں کو بھیج دی گئی تھی تاکہ اس کی بیرون ملک منتقلی کو روکا جا سکے۔ جبکہ بحالی لیبارٹری میں موجود تمام نمونوں کی فہرست بنانے اور ان کا جائزہ لینے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
وزارت سیاحت اور نوادرات کے مطابق ’تحقیقات کا مرکزی نکتہ گمشدہ سونے کا بریسلٹ ہے، جس میں ایک گول ہیئت والا لاپیس لازولی یعنی سنگ لاجورد کا نگینہ بھی لگا ہوا تھا۔‘
واضح رہے کہ یہ قیمتی بریسلٹ بادشاہ آمینیموپے کا تھا جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تیسرے عبوری دور (1076 تا 723 قبل مسیح) میں حکمران تھے۔
اس مصری میوزیم کی ویب سائٹ کے مطابق آمینیموپے کو اکیسویں شاہی خاندان کا ایک کم معروف مگر دلچسپ بادشاہ قرار دیا جاتا ہے، جنھیں ابتدا میں تینس کے شاہی قبرستان میں ایک چھوٹے کمرے میں دفن کیا گیا تھا۔ مگر بعد میں پھر ان کی باقیات کو طاقتور فرعون پسوسینیس اول کے قریب دوبارہ دفن کیا گیا۔ ان کی قبر 1940 میں دریافت ہوئی۔