دنیا کے بیشتر نقشوں میں شمال ہی اوپر کی جانب کیوں ہوتا ہے؟

سمتیں صرف کسی نقشے یا قطب نما پر لگے ہوئے نشان نہیں ہیں بلکہ یہ طاقتور سیاسی، اخلاقی اور ثقافتی تصورات کی علامات بھی ہیں۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دنیا میں ہر نقشے پر شمال ہمیں سب سے اوپر کیوں نظر آتا ہے؟
A map by the Greek astronomer and geographer Claudius Ptolemy.
Getty Images

دنیا میں کچھ ہی چیزیں اتنی قدرتی نظر آتی ہیں جتنی چار سمتیں۔

زمین پر ہر جگہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ آسمان میں سورج کی زینت جنوب میں نظر آتی ہے اور شمالی ستارہ شمال کی سمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اگر ہمیں سمتوں کے بارے میں بنیادی معلومات ہی نہ ہو تو ہم اپنا راستہ مکمل طور پر کھو سکتے ہیں۔

یہ سمتیں صرف کسی نقشے یا قطب نما پر لگے ہوئے نشان نہیں ہیں بلکہ یہ طاقتور سیاسی، اخلاقی اور ثقافتی تصورات کی علامات بھی ہیں۔

یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دنیا میں ہر نقشے پر شمال ہمیں سب سے اوپر کیوں نظر آتا ہے؟

اگرچہ قطب نما کی چار بنیادی سمتوں کا تعین مقناطیسی قطب شمالی (شمال، جنوب) اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب (مشرق مغرب) کی طبعیاتی حقیقت کے مطابق ہوتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ شمال کو خودبخود نقشوں پر سب سے اوپر رہنے کا اعزاز دے دیا جائے۔

جنوب اور مشرق آرام سے یہ مقام حاصل کر سکتے ہیں اور ماضی میں ایسا ہوتا بھی رہا ہے۔

مغرب نقشوں پر سب سے نیچے کیوں؟

ابتدا سے ہی ایک بات واضح ہے کہ مغرب اس مقابلے سے باہر ہی رہا ہے۔ تاہم بعد میں ’مغرب‘ اور ’مغربی دنیا‘ کی اصطلاح دنیا میں بہت مشہور ہوئی۔

لیکن قدیم زمانے میں مغرب کو خصوصی حیثیت نہیں دی جاتی تھی کیوںکہ سورج مغرب میں غروب ہوتا ہے اور وہ دن کے اختتام کا وقت ہے۔

sun set
Getty Images

غروب آفتاب زندگی کے سفر کے اختتام اور اندھیرے اور موت کے آغاز کی علامت ہے۔ اس لیے تقریباً کسی بھی ثقافت نے مغرب کو عبادت کے لیے ایک مقدس سمت کے طور پر منتخب نہیں کیا۔

لیکن بہت بار مغرب کو نقشوں میں نیچے کی طرف رکھا گیا ہے اور اس کی ایک مثال ہیئرفورڈ کا زمانہ قدیم کا نقشہ ہے، جس پر سب سے نیچے مغرب کی سمت نظر آتی ہے۔

نقشے کے نچلے حصے میں مغرب کی موجودگی اختتام، نحوست، تاریکی اور زوال کی یاد دہانی کرواتی ہے۔

یہی نہیں اس نقشے کے کنارے پر حروف ’ایم او آر ایس‘ لکھے ہوئے نظر آتے ہیں جن کا لاطینی زبان میں مطلب ’موت‘ ہے۔

چونکہ مغرب کا تعلق موت اور زوال سے جوڑا جاتا ہے اس لیے یہ فطری بات ہے کہ یہ نقشے میں سب سے نیچے ہوتا ہے۔

مشرق اوپر کیوں؟

جب بھی سمتوں کی کہانی لکھی جاتی ہے تو اس کی ابتدا مشرق سے ہی ہوتی کیونکہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔

دورِ قدیم سے ہی مشرق کو جنم یا زندگی کی نئی شروعات کی علامات سے جوڑا جاتا ہے۔

عیسائیت کے ابتدائی دور میں مشرق کو جنت کا مقام سمجھا جاتا تھا اور اسی وجہ سے بہت سے قدیم نقشوں میں اسے بلند ترین مقام پر رکھا گیا ہے۔

ہیئرفورڈ کے نقشے پر سب سے اوپر حضرت عیسیٰ کو قوسِ قزح پر سوار دکھایا گیا ہے جبکہ ان کے نیچے حوّا کا باغ نظر آتا ہے۔ اس کے نیچے بابل کا مینار ہے اور نقشے کے وسط میں یروشلم ہے۔

Hereford world map
Getty Images

نچلے حصے میں مغرب میں ہرکولیس کے ستون ہیں، جو کہ قیامت یا آخری وقت کی نشانی سمجھے جاتے ہیں۔

زمینی دنیا سے باہر اور نقشے کی سرحدوں پر دنیاوی وقت ختم ہوتا ہے اور جنت کی ابدی حالت میں پہنچ جاتا ہے جہاں سمتوں کی ضرورت نہیں رہتی۔

اس نقشے کے نِچلے کونے میں گھوڑے پر سوار ایک شخص فریم سے باہر نکلتا ہوا نظر آتا ہے، وہ اس دنیا کو دیکھ رہا ہے جسے وہ پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ اس کے سر کے اوپر ایک نشان ہے جس کا مطلب ہے: ’جاری رکھیں۔‘

ایسا لگتا ہے کہ اس کا جسم زندگی کا ساتھ چھوڑ رہا ہے، لیکن وہ نقشے کے اوپری حصے میں مشرق کی طرف (دوبارہ جنم کی جگہ) کی طرف جانے کو بے چین نظر آتا ہے۔

دنیا کا یہ نقشہ تقریباً 1300 عیسوی میں بچھڑے کی کھال پر بنایا گیا تھا۔

اس نقشے پر ہزاروں علامات ہیں، بھول بھلیوں اور جادوئی مخلوقات کی تصاویر ہیں، یہ مسیحی انسائیکلوپیڈیا کی طرح بائبل میں انسان کے جنم کی کہانی سُناتا ہے۔ لیکن اس کا مقصد کیا تھا، یہ اب بھی ایک معمہ ہی ہے۔

یہ نقشہ کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں ہے اور اس میں زمینی راستوں کے بجائے روحانی راستوں کو دکھایا گیا ہے۔ لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمال کے بجائے مشرق نقشے میں سب سے زیادہ اوپر ہو سکتا تھا۔

جیسا کہ اسلامی نقشہ جات کی تاریخ کے ایک محقق جوزف ریپوپورٹ نے کیا ہے: ’نیویگیشن کا تعلق شناخت سے ہے اور اس کیروحانی اور مذہبی تشریحات بھی کی جا سکتی ہیں، خالصتاً جغرافیائی نہیں۔‘

Idrisi map with south at the top
Getty Images

جنوب کا عروج

اسلام میں روزمرّہ کی زندگی میں عبادات کی ادائیگی میں ابتدا ہمیشہ ہی بہت اہم رہی ہے۔

مسلمان مذہبی رسومات کی ادائیگی کے وقت اپنا رُخ قبلے کی سمت رکھتے ہیں۔

مسلمانوں کا قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ تھی لیکن سنہ ہجری کے دوسرے سال میں یہ مقام مسجد الحرام یا کعبہ کو دے دیا گیا۔

اس تبدیلی نے دنیا کے بارے میں مسلمانوں کے نظریے کو تبدیل کیا، یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے ایک بنیادی سمت کو دوسری پر ترجیح دی تو جنوب ان کی ترجیحی سمت بن گئی۔

Map of the book The Journey of a Man in the Horizon, drawn by Idrisi for Roger II, King of Sicily, in 1154
Getty Images

اسی لیے مسلمانوں کے بنائے گئے نقشوں میں جنوب ہمیشہ اوپر کی طرف ہوتا ہے۔

ان نقشوں میں سے سب سے مشہور نقشہ 1154 میں ادریسی نامی مسلمان جغرافیہ دان نے بنایا تھا، جو کہ سیسلی کے عیسائی بادشاہ راجر دوم کے دربار میں خدمات سرانجام دیتے تھے۔

جوزف ریپوپورٹ کہتے ہیں کہ: ’ان نقشوں میں یورپ کو نیچے اور اس یورپ سے چھوٹا دکھایا گیا ہے جس یورپ کو دیکھنے کے ہم عادی ہیں۔‘

اگرچہ یورپ ان نقشوں میں توجہ کا مرکز نہیں ہے، لیکن اسے وہاں ایک شاعرانہ نام دیا گیا ہے: ’افق کا سفر کرنے کا خواب دیکھنے والوں کی تفریح۔‘ مؤرخ جوزف ریپوپورٹ کے مطابق یہ اس نام کا لفظی ترجمہ ہے۔

صدیوں بعد جنوب نقشوں کے اوپری حصے میں دوبارہ نمودار ہوا۔ ان نقشوں میں جواکوئیں ٹوریس کا ’امریکہ اپ سائیڈ ڈاؤن‘ اور سٹیورڑ میک آرتھر کا ’دنیا کا نظرثانی شدہ نقشہ‘ شامل ہے۔

Getty Images

میک آرتھر نے محسوس کیا کہ انھیں نقشے میں تبدیلی کی ضرورت ہے: انھوں نے زمین کو 180 ڈگری گھمایا تاکہ ان کا آبادئی ملک آسٹریلیا اوپر اور مرکزِ نگاہ ہو، جبکہ شمالی امریکہ اور یورپ کو نیچے کی طرف 'منتقل' کر دیا گیا۔

میک آرتھر نے اپنے نقشے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا: ’جنوب اب بے قدری کے گہرائیوں میں نہیں ڈوبے گا، شمال کا کوئی احسان نہیں برداشت کرے گا۔ جنوبی اس دنیا میں سب سے اوپر کھڑا ہو گا۔‘

سچ یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر ممکن ہے کیونکہ ابتدا میں شمال کو کبھی بھی نقشوں میں سب سے اوپر والا مقام نہیں دیا گیا تھا۔

شمال، پہلے سے طے شدہ انتخاب

شمال ایک ایسی سمت ہے جو کہ تضادات کا شکار ہے۔

یہ ایک ویران اور تاریک جگہ ہے۔ جلاوطنی، سزا اور موت کے لیے ایک بنجر زمین۔ قرونِ وسطیٰ کے عیسائی نقشوں میں شمال کو شیاطین سے بھرا دکھایا گیا ہے۔

لیکن یہ سادگی اور بے مثال خوبصورتی کا خطہ بھی ہے۔ ایک ایسی جگہ جو حیرت اور حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ شمالی ستارے کی موجودگی کے ساتھ ساتھ اسے استحکام اور یہاں تک کہ چھٹکارے کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔

شمال چار بنیادی سمتوں میں سب سے زیادہ منفرد اس لیے ہے کیونکہ یہ زمین کے مقناطیسی گراونڈ کے حقیقی قطب سے منسلک ہے۔ کنویکشن کرنٹ بجلی کو زمین کے آئرن اور نِکل کور کے ساتھ جوڑتے ہیں، اس سے ایک جیومیگنیٹک فیلڈ بنتی ہے جو سیارے کے گرد گھومتی ہے۔

لیکن چونکہ ہمارے پاس کوئی عصبی قطب نما نہیں ہے اس لیے ہمارے پاس مقناطیسی شمال کو سائنسی نقطہ نظر سے سمجھنے کی گنجائش نہیں ہے۔

پھر شمال کو کیوں نقشوں میں سب سے اوپر رکھا گیا ہے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر تاریخ دانوں کا اختلاف پایا جاتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ چینی شمال کو نقشوں میں سب سے اوپر کیوں رکھتے تھے۔ اس سے قبل وہ جنوب کو دیگر سمتوں پر ترجیح دیتے تھے لیکن جب بادشاہ نے شمالی سرزمین پر بیٹھنا شروع کیا تو نقشے میں شمال کو سب سے اوپر آنا ہی تھا۔

According to historian Felipe Fernández-Armesto:
Getty Images

تاریخ دان اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

نیویگیشن اور کارٹوگرافی کی تاریخ کے محقق فیلپ فرنانڈیز آرمیسٹو کے مطابق ’اگر نقشے کے اوپری حصے میں شمال کو رکھنے کی کوئی وجہ ہے تو وہ شمالی ستارہ ہے۔‘

’شمال کو اوپر رکھنے کے حوالے سے انقلاب کھلے پانی میں نیویگیشن کے استعمال کے وقت آیا۔ شمالی ستارہ ان پراسرار سمندروں میں اپنا راستہ تلاش کرنے کے لیے سب سے اہم چیز تھا، جہاں کوئی قدرتی خصوصیات یا نشانات نہیں پائے جاتے تھے۔‘

اگر ہم دنیا کے نقشوں کے اوپری حصے میں شمال کو برقرار رکھنے کے ایک اہم موڑ کی بات کریں تو ہمیں سنہ 1569 اور فلیمش کارٹوگرافر جیرارڈس مرکٹر کے نقشے کی اشاعت کی بات بھی کرنا پڑے گی۔

یہ وہ پہلا نقشہ تھا جس کے ڈیزائن میں زمین کے گھماؤ کو بھِ مدِنظر رکھا گیا تھا۔ اس نقشے کا مقصد طول البلد اور عرض بلد کی لکیروں کا استعمال کرتے ہوئے ماہی گیروں کو راستہ تلاش کرنے میں مدد دینا تھا۔

شمال کو نقشے کے اوپری حصے پر رکھا گیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ یہ زیادہ اہم تھا بلکہ اس لیے کہ میراکٹرکے مطابق شمالی اور جنوبی قطب لامحدود حد تک پھیلے ہوئے تھے، انھیں غیر اہم سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہاں کسی کا سفر کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔

یہ نقشہ سمندری مقاصد کے لیے کارٹوگرافی کا بنیادی معیار بن گیا اور یہاں تک کہ 1970 کی دہائی میں مریخ کی سطح کی نقشہ سازی کی بنیاد بھی یہی نقشہ بنا۔

اس نقشے کے بعد میراکٹرکا شمال اتنا غالب ہو گیا کہ یہ دور دراز سیاروں تک بھی پہنچ گیا۔

Gradual disappearance of the main directions
Getty Images

آج آپ خود شمال ہیں

آج کل سب کے پاس اپنے موبائل فونز میں اپنے ذاتی نقشے ہیں۔ ان نقشوں میں ہم کسی بھی سمت کو کوئی اہمیت دیے بغیر ایک نیلے نقطے کو فالو کرتے ہیں۔

گوگل سے منسلک ٹیکنالوجی کے ماہر ایڈ پارسنز کہتے ہیں کہ ’روایتی نقشے کسی علاقے کا عمومی جائزہ لینے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اب آپ خود کو ذہنی طور پر ان علاقوں میں موجود تصور کرتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر کے اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔‘

’آن لائن نقشوں پر، بنیادی ہدایات اب اتنی اہم نہیں رہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ اب گوگل میپس کے ساتھ ساتھ فون کو بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ صارف کہاں ہے۔

’سمارٹ فونز کے ساتھ پرورش پانے والی آج کی نسل نے کبھی کھو جانے کا حقیقی تجربہ نہیں کیا ہے۔‘

تاہم کچھ ماہرین فکرمند ہیں کہ نئے دور میں آسانیاں پیدا ہونے سے کہیں ہماری تاریخ تو نہیں حذف ہوتی جا رہی۔

سائنسی امور پر مہارت رکھنے والے صحافی مائیکل بونڈ کہتے ہیں کہ ’بحری جہاز کی صلاحیتیں ارتقائی تاریخ میں انسانی بقا کے لیے ہمیشہ اہم رہی ہیں۔اپنے گردونواح کے بارے میں معلومات جمع کرنے سے آپ کو علمی نقشہ بنانے میں مدد ملتی ہے۔‘

تاریخ میں پہلی بار انسانیت بحری صلاحیتوں اور آلات کو کھونے کے دہانے پر پہنچ گئی ہے، جس نے ہزاروں سالوں سے اس کی بقا کو یقینی بنایا ہے۔

دوسرے لفظوں میں ہم اپنا راستہ کھو چکے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US