اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے تاجر حاجی پارو جو اپنی کاروباری سمجھ بوجھ پر افریقی ممالک میں تجارت کے ’بے تاج بادشاہ‘ بنے

کئی فلاحی کاموں میں بھی شامل رہنے والے گجراتی تاجر سیوا حاجی پارو ان چند تاجروں میں شامل ہیں جنھوں نے اگرچہ 46 سال کی مختصر زندگی پائی لیکن انھوں نے بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیے اور غیر منقسم ہندوستان سے دور مشرقی افریقہ کے کاروبار پر راج کیا۔

گجراتی تاجر سیوا حاجی پارو نے اگرچہ 46 سال کی مختصر زندگی پائی لیکن اپنی زندگی میں انھوں نے بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیے اور غیر منقسم ہندوستان سے دور مشرقی افریقہ کی کاروباری دنیا پر راج کیا۔

سیوا کے والد حاجی پارو پردھان اور اُن کے بھائی ظفر پارو پردھان نے بہت سے دوسرے گجراتی تاجروں کی طرح سنہ 1850 میں سمندر پار ایک طویل سفر اختیار کیا اور زنجبار پہنچے۔

وہاں سے وہ باگامویو (موجودہ تنزانیہ) گئے اور وہیں آباد ہو گئے۔ اُس وقت یہ علاقہ ’جرمن ایسٹ افریقہ‘ کہلاتا تھا اور جرمن حکومت کے زیرِ انتظام تھا۔

حاجی پارو کے ہاں سنہ 1851 میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نامانھوں نے سیوا رکھا۔ سیوا ابھی عنفوان شباب پر ہی تھے کہ ایک واقعہ نے ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ڈال دی۔

اس رپورٹ میں ہم سیوا حاجی پارو کے ہاتھوں بڑی کاروباری سلطنت کے قیام کی کہانی جاننے کی کوشش کریں گے۔

ڈاکٹر چھایا گوسوامی نے اپنی کتاب ’گلوبلائزیشن بیفور اِٹس ٹائم‘ میں سیوا حاجی پارو کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’حاجی پارو پردھان نے 1852 میں ٹنگنییکا (موجودہ تنزانیہ) میں ایک جنرل سٹور کھولا جہاں سے ان کے کاروباری عروج کا سفر شروع ہوا۔ سنہ 1860 میں انھوں نے باگامویو میں اس سٹور کی ایک نئی شاخ کھول لی۔‘

’سنہ 1869 میں جب اُن کے بیٹے سیوا ابھی کاروبار کی الف ب ہی سیکھ رہے تھے کہ اس دوران ان کے دو بڑے بھائیوں کی اچانک موت ہو گئی۔ یوں 18 سالہ سیوا کے کندھوں پر اپنے والد کے قائم کردہ ادارے ’حاجی کنجی‘ کی ذمہ داری آن پڑی۔‘

ڈاکٹر گوسوامی لکھتے ہیں کہ ’سیوا کو محسوس ہوا کہ زنجبار کی مارکیٹ بہت مسابقتی ہے۔ اس لیے انھوں نے ’کارواں فائنانسنگ‘ یعنی تجارتی قافلوں کو مالی مدد دینے کے کم مقابلے والے لیکن پرخطر کاروبار میں قدم رکھا۔‘

’1960 کی دہائی میں انھوں نے کپڑے، تانبے، اور پیتل کے برتن قافلوں کو فراہم کرنا شروع کیا۔ اس کے بدلے میں وہ ہاتھی دانت خریدنے لگے۔ ان اشیا کے بدلے میں حاصل ہونے والے ہاتھی دانت، گینڈے کے سینگ اور دانت ’حاجی کنجی‘ کے گودام میں رکھے جاتے تھے۔‘

’پھر وہ اِن قافلوں کے لیے مزدور بھی مہیا کرنے لگے، جس سے اُن کا کاروبار مزید پھیل گیا۔‘

ایسا کاروبار جو 50 فیصد سے زیادہ منافع دیتا تھا

شیرین والجی نے ’تنزانیہ میں اسماعیلی برادری کی تاریخ‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ انھوں نے بھی سیوا حاجی پارو کے کاروبار کے بارے میں لکھا ہے۔

اُن کے مطابق ڈاکٹر ہانس مائر اور سیوا حاجی پارو کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا کاروبار اس وقت کتنا منافع بخش تھا۔

مثلاً، اُن کا قافلہ جو سامان لے کر کلیمنجارو جاتا تھا، تقریباً 50 فیصد منافع دیتا تھا۔ ڈاکٹر مائر، سیوا حاجی کو فی مزدور ماہانہ 11 ڈالر ادا کرتے تھے، اور سیوا ان مزدوروں کو اس میں سے تقریباً 6 ڈالر دیتے تھے۔ یعنی اگر کبھی نقصان بھی ہوتا، تب بھی منافع بہت ہوتا تھا۔

ڈاکٹر گوسوامی کے مطابق: 'ان کے گاہک صرف عرب یا افریقی نہیں تھے، بلکہ ان کے گاہکوں میں یورپی اور امریکی تاجر، مسیحی مشنری اور سیاح بھی شامل تھے۔

'سیوا حاجی نے دوسرے تاجروں کی طرح اسلحے کے کاروبار میں بھی قدم رکھا، جو اُس وقت عام تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے 10,000 بندوقیں باگامویو سے اُنانیِمبے بھیجی تھیں۔ جرمن کمپنیوں کے باگامویو میں دفاتر کھولنے کے بعد بھی سیوا حاجی پارو اسلحے کے سب سے بڑے درآمد کنندہ رہے۔'

ڈاکٹر گوسوامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’جب مشرقی افریقہ کو جرمنی اور برطانیہ کے درمیان تقسیم کیا گیا تو سیوا نے جرمن قبضے والے ٹانگنیکا اور برطانوی زیر انتظام یوگینڈا میں اپنے ایجنٹ مقرر کیے، اور یوں اُن کا کاروبار جاری رہا۔‘

شیرین والجی لکھتی ہیں کہ ’سنہ 1891 تک ان کا کاروبار بہت پھیل چکا تھا، اور وہ ان تمام مقامات پر سٹورز کھول چکے تھے جہاں سے قافلے گزرتے تھے۔ ان کے سٹورز تَبورا، اُجیجی، موانزا اور دیگر جھیلوں کے علاقے پر پھیلے ہوئے تھے۔‘

’اُن کے کاروبار کا اندازہ 1891 میں بوکومبی کی شاخ میں موجود سامان سے لگایا جا سکتا ہے۔ اُس وقت وہاں 18,150 پاؤنڈ مالیت کا سامان موجود تھا۔ جس میں تقریبا 14000 کلوگرام مانچسٹر کا ریشمی کپڑا، اتنا ہی بمبئی سے آیا ہوا گری امریکن کپڑا، چار ہزار کلو سے زیادہ بارود، اور 150,000 بندوقوں کے فائر کیپ شامل تھے۔ اور 1890 تک وہ جرمن ایسٹ افریقہ کے اندرونی حصے میں تجارت پر تقریباً اجارہ داری قائم کر چکے تھے۔‘

شیرین مزید لکھتی ہیں: ’زنجبار میں اسماعیلی برادری کے ابتدائی خوشحال تاجروں میں سے ایک سیوا حاجی پارو بھی تھے۔ ان ابتدائی افریقی تاجروں نے کاروباری سوجھ بوجھ اور نئے خطروں کو لینے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔‘

'ان تاجروں نے 19ویں صدی کے آخر تک قافلوں کے ذریعے ہونے والی تجارت پر تقریباً اجارہ داری قائم کر لی تھی۔ جس سے نہ صرف انھیں بڑا منافع ہوا، بلکہ انھوں نے وہ سرمایہ دیگر شعبوں میں بھی لگایا۔ سیوا حاجی پارو کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔'

سیوا کے بنائے ہوئے ہسپتال آج بھی موجود ہیں

ڈاکٹر چھایا گوسوامی کے مطابق ’جس طرح جے رام شیو جی اور تھاریا توپن جیسے دیگر گجراتی تاجروں نے کیا، اسی طرح سیوا حاجی پارو نے بھی اِس وقت کے زنجبار کے سلطان سید حمد بن ثوینی کو قرض دیا تھا۔

’انھوں نے دارالسلام اور باگامویو میں اپنی تمام جائیداد جرمن نوآبادیاتی حکومت کے نام کر دی تھی، لیکن ایک شرط کے ساتھ۔ شرط یہ تھی کہ ان جائیدادوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کچھ حصہ جذام کے مریضوں کو کھانا کھلانے پر اور کچھ حصہ ان کے قائم کردہ باگامویو ہسپتال کی دیکھ بھال پر خرچ کیے جائيں گے۔‘

چھایا گوسوامی لکھتی ہیں کہ '1880 کی دہائی کے آغاز میں سیوا حاجی نے کچھ پتھروں سے بنی ہوئی عمارتیں خریدیں کیونکہ وہ وہاں بے گھر افراد اور یتیموں کے لیے ایک ہسپتال بنانا چاہتے تھے۔‘

دارالسلام میں قائم سیوا حاجی ہسپتال کو ان کی فلاحی سوچ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہسپتال آج کل ’محِمبیلی ہسپتال‘ کے نام سے کام کر رہا ہے۔

انھون نے مزید لکھا ہے کہ ’اس کے علاوہ، سیوا نے مسیحی مشنریوں کو ایک عمارت اور فنڈز بھی دیے تاکہ وہ تمام ذاتوں کے بچوں کے لیے سکول کھول سکیں۔ باگامویو کے مسیحی مشنریوں نے سیوا کو مسلمانوں میں اپنا 'مہربان دوست' قرار دیا ہے۔‘

عزیز الدین تیجپر نے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے جس کا عنوان ہے ’'ہندوستانیوں کی مشرقی افریقہ کی طرف ہجرت: اسماعیلی برادری کا ایک مطالعہ: 1866-1966‘۔ یہ مقالہ یونیورسٹی آف سینٹرل فلوریڈا نے شائع کیا ہے۔

عزیز الدین تیجپر لکھتے ہیں کہ ’سیوا حاجی کے زنجبار کے سلطان سے دوستانہ تعلقات تھے۔ چنانچہ ان کا سلطان سے ایک معاہدہ ہوا کہ حکومت کے کھیتوں میں اگنے والی تمام فصلیں صرف سیوا حاجی پارو کے ذریعے فروخت کی جائیں گی۔ تاہم یہ معاہدہ نو ماہ سے زیادہ قائم نہ رہ سکا، کیونکہ اس معاہدے کے نو ماہ کے اندر ہی سیوا حاجی کی موت ہو گئی۔‘

بہر حال شیرین والجی کے مطابق یہ معاہدہ 17 لاکھ 80 ہزار مالیت کا تھا۔

تیجپر مزید لکھتے ہیں کہ ’علی دینہ وسرام، جو انیسویں صدی کے آخر میں مشرقی افریقہ میں ایک معروف شخصیت بن چکے تھے، کا تعلق بھی (گجرات کے علاقے) کَچھ سے تھا اور ابتدا میں وہ سیوا حاجی پارو کے معاون کے طور پر کام کرتے تھے۔ جب سیوا حاجی پارو کا 46 سال کی عمر میں وفات ہوئی تو علی دینہ وسرام نے ان کا کاروبار سنبھالا اور اسے دوسرے ممالک تک پھیلایا۔‘

سیوا حاجی پارو کو علی دینہ وسرام اور تھاریا توپن کے ساتھ مشرقی افریقہ کے ’تین غیر تاج پوش بادشاہوں‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔

’فرینڈز آف مومباسا‘ تاریخ پر مبنی ایک ویب سائٹ ہے جسے کئی مصنفین نے مرتب کیا ہے۔ اس کے ایک مضمون میں محب ابراہیم لکھتے ہیں: ’سیوا حاجی پارو پہلے ایشیائی تھے جنھیں جرمن حکومت کی طرف سے اعزازی ڈگری دی گئی۔ وہ کبھی محدود نظریے کے حامل نہیں تھے، ان کی سوچ بہت وسیع تھی۔‘

سیوا حاجی پارو کی قائم کردہ سلطنت زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی

شیرین والجی کے مطابق: ’اپنی وصیت کے مطابق انھوں نے اپنی بیوی کو پچاس ہزار روپے، اور اپنی بہن فاطمہ بائی کو چالیس ہزار روپے دیے۔ رتنشی ابراہیم اور علی دینہ وسرام کو کاروبار جاری رکھنے کی اجازت دی گئی، لیکن ایک مکان کے علاوہ باقی تمام جائیداد جرمن حکومت کے حوالے کر دی گئی۔‘

’اپنی زندگی کے دوران انھوں نے باگامویو، زنجبار، اور دارالسلام میں اسماعیلی برادری کو کئی عطیات دیے۔‘

10 فروری 1897 کو سیوا حاجی پارو کی وفات کے بعد علی دینہ وسرام نے ان کے کاروبار کو یوگینڈا، کینیا، آزاد کانگو اور جنوبی سوڈان تک پھیلایا۔

تاہم جیسا کہ شیرین والجی لکھتی ہیں: ’اگرچہ ان تاجروں نے خوشحال سلطنتیں قائم کیں، لیکن اکثر اسماعیلی تاجروں کے کاروبار ان کی وفات کے بعد دو دہائیوں سے زیادہ قائم نہ رہ سکے۔ علی دینہ وسرام نے سیوا حاجی کا کاروبار خریدا اور اسے جاری رکھا، لیکن وسرام کی وفات کے دو دہائیوں کے اندر وہ سلطنت بھی ختم ہو گئی۔‘

سیوا نے مشنریوں کی تعلیم اور دیگر سرگرمیوں کے لیے بھی خوب مالی معاونت فراہم کی۔

ڈاکٹر چھایا گوسوامی لکھتی ہیں: ’1897 میں سیوا حاجی پارو کی وفات کے آٹھ دن بعد، مشنریوں کے رسالے میں لکھا گیا کہ وہ ہمارے مہربان دوست تھے۔ ہمارے مشن کے وفادار دوست نے ہمیں اپنی آخری وصیت میں بھی نہیں بھلایا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US