"مجھے اب جا کر پتا چلا ہے کہ مجھے کلینیکل ڈپریشن ہے۔ میں ایک زہریلے رشتے سے گزرا، زندگی نے اوپر بھی پھینکا اور بہت نیچے بھی۔ جس دنیا کا تصور لے کر میں بڑا ہوا، جب حقیقت دیکھی تو لگا کہ معاشرہ بالکل الٹ ہے… اور یہی چیز اندر سے توڑ دیتی ہے۔"
پاکستانی میوزک انڈسٹری کا نمایاں نام نعمان جاوید، جنھوں نے دو دہائیوں سے لوگوں کے دلوں میں اپنی گائیکی سے گھر بنایا، لیکن ان کے ذاتی زخم اس شہرت سے کہیں گہرے تھے۔ اپنے کیریئر کے ساتھ ساتھ ان کی ناکام شادیوں اور خودکشی کی کوشش نے بھی پوری قوم کو ہلا دیا تھا۔
ایک حالیہ گفتگو میں، احمد علی بٹ کے شو میں بیٹھ کر، نعمان جاوید نے اپنی خاموش چیخوں کو الفاظ دیے۔
"بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں دیکھیں… دنیا بے بس لگی… اور میرے اپنے زخم جاگ اٹھے"
نعمان نے بتایا کہ جب وہ خود اپنی زندگی کے بدترین وقت سے گزر رہے تھے، اسی دوران نیوز چینلز پر بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی خبریں تیزی سے آ رہی تھیں۔
> "میں پہلے ہی اندر سے ٹوٹا ہوا تھا… جب میں نے یہ خبریں دیکھیں تو لگا کہ یہ دنیا کتنی بے حس ہے۔ مجھے لگا شاید اب کچھ بدل نہیں سکتا… اور اسی لمحے میں نے وہ غلط فیصلہ کرلیا۔"
لیکن وہ زندہ بچ گئے اور آج وہ اس لمحے کو اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صرف اللہ نے بچایا اور سمجھایا کہ زندگی چھوڑنے سے نہیں… سامنا کرنے سے سنبھلتی ہے۔
شادی، ٹوٹا رشتہ اور ذمہ داری، "قصور میرا تھا… کسی اور کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا"
اپنی شادی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے فریحہ پرویز کے ساتھ رشتے کے انجام پر کہا:
> "غلطی میری تھی۔ میں ہوں جو ذمہ دار ہوں۔ شادی ایک خوبصورت بندھن ہے، لیکن شاید وہ میرے نصیب میں نہیں تھی۔ میں کسی اور کو الزام نہیں دیتا۔"
روشنی پھر لوٹ سکتی ہے
اگر انسان قبول کر لے کہ درد سے بھاگنا نہیں، سمجھنا ہوتا ہے
نعمان جاوید کی کہانی ان تمام لوگوں کے لیے آئینہ ہے جو خاموش ڈپریشن کا شکار ہیں، لیکن مسکراتے چہرے کے پیچھے ٹوٹتے رہتے ہیں۔ وہ ثابت کر رہا ہے کہ…
ہاں! گرنے کے بعد اٹھا بھی جا سکتا ہے. اگر انسان خود کو الزام دینے کے بجائے خود کو سمجھنا شروع کر دے۔