پنجاب پولیس کے مطابق اس آپریشن کے دوران پولیس کے ایک ایس ایچ او ہلاک جبکہ 48 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ پنجاب پولیس کے مطابق زخمی ہونے والوں میں 17 اہلکار ایسے ہیں جنھیں گولیاں لگی ہیں۔ پولیس کے مطابق اس دوران ٹی ایل پی سے تعلق رکھنے والے تین مظاہرین اور ایک راہگیر بھی ہلاک ہوئے جبکہ آٹھ عام شہری زخمی ہوئے۔
ٹی ایل پی کے مظاہرین کے خلاف آپریشن گذشتہ رات کیا گیا تھا’بچے گھر کے اندر سو رہے تھے جب رات کے پچھلے پہر اچانک شور مچا کہ آپریشن شروع ہو گیا ہے اور پولیس نے شیلنگ شروع کر دی ہے، تھوڑی دیر میں آنسو گیس کی بُو ہمارے گھر میں آنے لگی تو میں نے جلدی سے کھڑکیاں بند کیں۔ مگر کچھ ہی دیر بعد ہمیں بدبو محسوس ہونا شروع ہو گئی اور بچوں نے کھانسنا شروع کر دیا، میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو فون کیا جو کچھ فاصلے پر رہتا ہے، اُس نے کہا کہ بیوی بچوں کو لے کر فوراً ہمارے گھر آجاؤ۔‘
اورنگزیب بٹ وسطی پنجاب میں جی ٹی روڈ پر واقع شہر مریدکے کے علاقےرانا ٹاؤن کے رہائشی ہیں۔ رانا ٹاؤن جی ٹی روڈ کے اُس حصے کے قریب واقع ہے جہاں پیر کی علی الصبح پولیس نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاجی مارچ کے شرکا کو منتشر کرنے کے لیے آپریشن کیا تھا۔
پنجاب پولیس کے مطابق اس آپریشن کے دوران پولیس کے ایک ایس ایچ او ہلاک جبکہ 48 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ پنجاب پولیس کے مطابق زخمی ہونے والوں میں 17 اہلکار ایسے ہیں جنھیں گولیاں لگی ہیں۔ پولیس کے مطابق اس دوران ٹی ایل پی سے تعلق رکھنے والے تین مظاہرین اور ایک راہگیر بھی ہلاک ہوئے جبکہ آٹھ عام شہری زخمی ہوئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس موقع پر 40 سرکاری و نجی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔
مقامی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کا یہ آپریشن مذاکرات کی ناکامی کے بعد شروع کیا گیا جو کہ پانچ گھنٹے میں مکمل ہوا اور اب جی ٹی روڈ کا علاقہ مظاہرین سے کلیئر کروا لیا گیا ہے۔
تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال مریدکے کی ایمرجنسی سمیت تمام وارڈز کے اندر اور باہر بیڈ لگائے گئے ہیں جہاں اس آپریشن میں زخمی ہونے والے مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کو لایا گیا۔
ایمرجنسی وارڈ میں تعینات ڈاکٹر شہزاد نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ صبح سے انھوں نے لگ بھگ ڈیڑھ درجن پولیس اہلکاروں کو طبی امداد مہیا کی جبکہ دیگر وارڈز میں بھی زخمی موجود ہیں۔
اورنگزیب بٹ نے بتایا کہ ’بھائی سے کال پر بات کے بعد وہ بیوی بچوں کو لے کر گھر سے نکلے مگر باہر سانس لینا محال تھا۔ بہت سے لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔‘
اس کارروائی کے دوران ٹی ایل پی کی جانب سے اپنے متعدد کارکنوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے دعوے کیے گئے، تاہم بی بی سی ان دعوؤں اور ہلاکتوں کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے اور پولیس نے تاحال صرف تین مظاہرین کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
’آپریشن سے پہلے لائٹیں بند کر دی گئیں‘
شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے صحافی حکیم محمود بیگ ٹی ایل پی کے اس احتجاجی مارچ کی کوریج کر رہے تھے۔
ان کے مطابق جب سکیورٹی فورسز نے آپریشن کا آغاز کیا تو اس وقت وہ مریدکے میں جی ٹی روڈ پر موجود تھے کیونکہ مقامی پولیس پہلے ہی بتا چکی تھی کہ اگر مظاہرین منتشر نہ ہوئے تو اتوار کی رات آپریشن کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’سکیورٹی فورسز نے رات دو بجے کے قریب شیلنگ کا آغاز کیا تھا۔ اس سے قبل پولیس اہلکاروں اور رینجرز کے علاوہ سادہ کپڑوں میں بھی بہت سے اہلکار موقع پر موجود تھے۔ مرکزی کنٹینر پر سعد رضوی، ان کا بھائی انس رضوی اور ٹی ایل پی کے مرکزی رہنما موجود تھے جبکہ ٹی ایل پی کے سکیورٹی رضاکاروں نے مرکزی کنٹینر کے گرد حصار بنا رکھا تھا۔‘
پولیس کے مطابقٹی ایل پی سے تعلق رکھنے والے تین مظاہرین اور ایک راہگیر بھی ہلاک ہوئے ہیںحکیم محمود کے مطابق ’جب باقاعدہ آپریشن کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے اِسی مرکزی کنٹینر کی لائٹیں بند ہو گئیں، یہ لائٹیں انتظامیہ کی جانب سے بند کی گئیں یا ٹی ایل پی کی سکیورٹی کی جانب سے یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ مگر لائٹیں بند ہونے کے بعد مظاہرین پریشان ہوئے کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ لگ بھگ 15 منٹ بعد کنٹینرز کی لائٹیں دوبارہ آن ہوئیں تو سب نے دیکھا کہ سٹیج والے پریشان ہیں اور سعد رضوی بار بار کہہ رہے تھے کہ مجھے مائیک پکڑاؤ میں بات کرتا ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ سعد رضوی نے مائیک پکڑ کر آپریشن کرنے والے پولیس اہلکاروں کو آپریشن روکنے اور واپس چلے جانے کی درخواستیں کیں اور انھیں واسطے دیے۔ مگر اس دوران شیلنگ اور فائرنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔
انھوں نے کہا کہ آپریشن کے آغاز سے کچھ دیر قبل انھیں ایک مقامی پولیس افسر نے اس مقام سے نکل جانے کی ہدایت کی تھی۔
شیخوپورہ سے رپورٹنگ کےلیے مریدکے آنے والے مقامی صحافی شیخ سفیان علی گذشتہ دو روز سے مریدکے میں موجود تھے۔
شیخ سفیان علی کے مطابق جب آپریشن کا آغاز ہوا تو اس وقت ٹی ایل پی کے کارکنوں کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’دوسرے شہروں سے آنے والی پولیس کی مختلف ٹیموں نے رات دس بجے سے ہی اپنی پوزیشنیں سنبھالنا شروع کر دی تھیں۔ پنجاب کانسٹیبلری کے اہلکار بھی بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے جبکہ لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ، گجرات اور گوجرانوالہ سے اہلکاروں کی ٹیمیں بھی یہاں پہنچی تھیں۔ آپریشن سے قبل افسران اپنی اپنی ٹیموں کو ہدایات دے رہے تھے۔ ہمیں اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر مذاکرات نہ ہوئے تو معاملہ خراب ہو گا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب شیلنگ شروع ہوئی تو ٹی ایل پی کے کارکن اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار تھے، وہ اپنے ساتھ پانی اور نمک بڑی مقدار میں لائے ہوئے تھے۔ ٹی ایل پی کے مختلف گروپس پولیس اہلکاروں پر حملہ آور ہوتے بھی نظر آئے، بیشتر کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔۔۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’لگ بھگ پانچ گھنٹے جاری رہنے والے اس آپریشن کے دوران کبھی شیلنگ اور فائرنگ کی آوازیں تیز ہو جاتیں اور کبھی ہلکی۔ پھر اچانک دو تین جگہوں پر آگ لگتی نظر آتی۔‘

’یہاں جلی ہوئی گاڑیاں اور موٹر سائیکل ہیں، تباہی کا منظر ہے‘
شیخوپورہ پولیس کے ترجمان رانا یونس نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ آپریشن رات دو بجے شروع کیا گیا تھا اور صبح سات بجے تک آپریشن مکمل ہو گیا جس کے بعد اب جی ٹی روڈ کی صفائی کا کام جاری ہے۔
انھوں نے بتایا کہ امید ہے کہ دوپہر تک مریدکے میں صورتحال نارمل ہو جائے گی۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی جہانزیب اس آپریشن کے مکمل ہونے کے بعد مریدکے شہر کے اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں تحریک لبیک کے کارکن گذشتہ رات موجود تھے۔
جہانزیب نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’یہاں نظر آنے والی صورتحال بہت خراب ہے۔ ہر طرف جلی ہوئی چیزیں بشمول گاڑیاں نظر آ رہی ہیں۔ یہاں اب ٹی ایل پی کا کوئی کارکن نظر نہیں آ رہا جبکہ ریلی مکمل طور پر منتشر کر دی گئی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اب یہاں ہر طرف پولیس ہے۔ ٹی ایل پی کا مرکزی کنٹینر مکمل طور پر جل چکا ہے اور تباہی کا منظر ہے۔ اس کنٹینر میں سے ابھی بھی دھواں نکل رہا ہے۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکل بھی بڑی تعداد میں جلی ہوئی سڑک پر نظر آ رہی ہیں۔‘
’ٹی ایل پی کے کارکن جو اپنے زیر استعمال اشیا لائے ہوئے تھے، ان کے کپڑے وغیرہ یہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ زمین پر گولیوں اور آنسو گیس کے شیلز کے خول پڑے ہیں۔‘
’جی ٹی روڈ کی فی الحال صفائی کا کام جاری ہے اور چھوٹی ٹریفک کے لیے سڑک کو کھول دیا گیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آنسو گیس کی بُو ابھی بھی فضا میں موجود ہے، یہ آنکھوں میں چبھ رہی ہے اور یہاں کھڑا ہونا ابھی بھی مشکل ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ مقامی افراد اس مقام کو دیکھنے کے لیے آر ہے ہیں اور تصاویر بنا رہے ہیں۔