بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی نئی گندم پالیسی میں کم از کم امدادی قیمت (Minimum Support Price) مقرر کرنے پر اعتراض اٹھا دیا ہے، جس کے بعد وزارتِ فوڈ سیکیورٹی نے تفصیلی وضاحت کے ساتھ اپنے تحفظات دور کر دیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، گندم پالیسی کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف نے وزارتِ فوڈ سیکیورٹی کو ایک باضابطہ خط ارسال کیا، جس میں پالیسی کے خدوخال اور اس میں شامل قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار سے متعلق تفصیلات طلب کی گئیں۔ فنڈ کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ پاکستان نے بظاہر گندم کے لیے ایک فکس (مقررہ) امدادی قیمت طے کر دی ہے، جو مارکیٹ میکانزم کے خلاف تصور کی جاتی ہے۔
تاہم، وزارتِ فوڈ سیکیورٹی کے ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کے اعتراض کا مفصل جواب دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ گندم کی قیمت فکس نہیں کی گئی بلکہ ”انڈیکٹو پرائس“ (Indicative Price) یعنی اندازاً قیمت مقرر کی گئی ہے، جس کا مقصد صرف کسانوں کو رہنمائی فراہم کرنا ہے۔
وزارت نے اپنے جواب میں بتایا کہ انڈیکٹو پرائس کا تعین امریکی ”انٹرنیشنل ہارڈ ریڈ گندم“ (U.S. Hard Red Wheat) کی قیمت کو بنیاد بنا کر کیا گیا ہے، جس کی بین الاقوامی منڈی میں فی ٹن قیمت 238 ڈالر ہے۔ اس قیمت میں کراچی بندرگاہ تک لینڈنگ اخراجات شامل کر کے اندازہ لگایا گیا اور مزید کراچی سے ملتان تک درآمد شدہ گندم کی ترسیل کے اخراجات کو بھی شامل کرتے ہوئے تقریباً 3500 روپے فی من قیمت کا تخمینہ نکالا گیا۔
وزارت فوڈ سیکیورٹی نے آئی ایم ایف کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ یہ قیمت مارکیٹ کے مطابق متغیر رہ سکتی ہے اور حکومت نے کسانوں یا منڈی پر کوئی قانونی کم از کم قیمت مقرر نہیں کی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے اعتراضات اور وزارت فوڈ سیکیورٹی کے جوابات وزیراعظم ہاؤس کے ساتھ بھی شیئر کیے گئے ہیں تاکہ پالیسی کو بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق مزید بہتر بنایا جا سکے۔
وزارت کے حکام کے مطابق، حکومت کی ترجیح یہ ہے کہ کسانوں کو مناسب معاوضہ ملے جبکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے خدشات کو بھی مدنظر رکھا جائے تاکہ ملک کی فوڈ سیکیورٹی پالیسی شفاف، پائیدار اور عالمی اصولوں کے مطابق ہو۔