اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں 50 بیسز پوائنٹس کی کمی کردی۔
مرکزی بینک کی جانب سے جاری مانیٹری پالیسی کے اعلان کے بعد سود کی نئی شرح 10.50 فیصد مقرر ہوگئی ہے۔
زری پالیسی کمیٹی نے آج اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ 50 بی پی ایس کم کرنے کا فیصلہ کیا جس کا اطلاق 16 دسمبر 2025ء سے ہوگا۔
زری پالیسی بیان کے مطابق کمیٹی نے محسوس کیا کہ مہنگائی جولائی تا نومبر مالی سال 26ء کے دوران ہدف یعنی 5 سے 7 فیصد کی حد میں رہی، اگرچہ کہ قوزی مہنگائی (core inflation) نسبتاً جامد ثابت ہوئی۔ بحیثیتِ مجموعی مہنگائی کا منظرنامہ بڑی حد تک برقرار رہا ، جس کی اہم وجوہات اجناس کی سازگار عالمی قیمتیں، اور مہنگائی کی توقعات قابو میں رہنا ہیں جبکہ یہ سب محتاط زری پالیسی موقف کے دوران ہوا۔ کمیٹی کا تجزیہ یہ بھی تھا کہ اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے جس کا سبب بلند تعدد کے اہم اظہاریوں میں زبردست بہتری ہے۔ ان اظہاریوں میں مالی سال 26ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں توقع سے زیادہ اضافہ بھی شامل ہے۔تاہم اس سے قطع نظر، کمیٹی کی رائے تھی کہ عالمی حالات دشوار رہے ہیں خصوصاً برآمدات کے حوالے سے، اور میکرو اکنامک منظرنامے کے لیے اس کے کچھ مضمرات ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ قیمتوں کا موجودہ استحکام یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ، پائیدار اقتصادی نمو کو سہارا دینے کے لیے پالیسی ریٹ کم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
کمیٹی نے گذشتہ اجلاس کے بعد سامنے آنے والی جن اہم پیش رفت پر نظر ڈالی وہ یہ ہیں ۔ پہلی، افرادی قوت کے سروے برائے 2024-25ء میں 2020-21ء کے بعد سے بیروزگاری کی شرح بڑھنے کی نشاندہی ہوئی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ پچھلے سروے کے مقابلے میں روزگار میں تیز رفتار نمو دیکھی گئی۔ دوسری، قرضوں کی جاری بھاری واپسی کے باوجود اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا، اور ای ایف ایف اور آر ایس ایف کے جائزوں کی کامیاب تکمیل کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے 1.2 ارب ڈالر موصول ہونے سے یہ بڑھ کر 15.8 ارب ڈالر سے زائد ہوگئے ہیں ۔ تیسری، اسٹیٹ بینک اور آئی بی اے کے تازہ ترین سروے کے مطابق صارفین کا اعتماد بڑھا ہے ، جبکہ کاروباری اعتماد اگرچہ مثبت رہا ہے، تاہم اس میں معمولی اعتدال دیکھا گیا۔ چوتھی، مالی سال 26ء کی پہلی سہ ماہی میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے بھاری منافع کی منتقلی کے نتیجے میں مجموعی اور بنیادی مالیاتی توازن میں سرپلس آیا ۔ آخر میں، عالمی ماحول لچکدار رہا، جس کی اہم خصوصیات میں اجناس کی معاون قیمتوں کے علاوہ ٹیرف سے متعلق ارتقاپذیر محرکات، اور دشوار مالی حالات شامل ہیں۔
مذکورہ پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی نے جانچا کہ حقیقی پالیسی ریٹ مناسب حد تک مثبت اور مہنگائی کو وسط مدت کے دوران 5 تا 7 فیصد ہدف کی حد میں مستحکم رکھنےاور پائیدار معاشی نمو میں حصہ ڈالنے کے لحاظ سے مناسب ہے۔ اس ضمن میں زری پالیسی کمیٹی نے مربوط اور فراست پر مبنی زری اور مالیاتی پالیسیوں کا تسلسل برقراررکھنے، اور ساختی اصلاحات پر دوبارہ زور دیا تا کہ معیشت کو پائیدار اور بلند نمو کی سمت گامزن کیا جا سکے۔
بلند تعدد کے تازہ ترین اظہاریوں سے کلیدی شعبوں میں جاری نمو کی مضبوط رفتار کے سابقہ جائزے کو مزید تقویت ملتی ہے۔ مالی سال 26ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران صنعتی کارکردگی مستحکم رہی جس میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں 4.1 فیصد سال بسال نمو ہوئی جبکہ بیشتر شعبوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ مزید برآں، گاڑیوں، کھاد، اور سیمنٹ کی فروخت اور مشینری اور وساطتی اشیا کی درآمدات، سب صنعتی سرگرمیوں کے لیے مثبت منظرنامہ دکھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، برآمدی ماحول کا مسلسل دشوار رہنا صنعتی منظرنامے کے لیے کچھ خطرات پیدا کر رہا ہے۔ زرعی شعبے میں، اہم فصلوں کے بارے میں موصولہ معلومات بھی سابقہ جائزے کی تائید کرتی ہیں۔ گندم کے زیرِکاشت رقبے کی تازہ ترین معلومات، خام مال کی صورتِ حال اور سرکاری ترغیبی اسکیموں کے بارے میں معلومات سے پتا چلتا ہے کہ گندم کی پیداوار اپنا ہدف عبور کرجائے گی۔ اجناس پیدا کرنے والے شعبوں میں اس مثبت پیش رفت سے امکان ہے کہ خدمات کے شعبے کو بھی سہارا ملے گا۔ اس پس منظر میں مالی سال 26ء کی حقیقی جی ڈی پی نمو سابقہ تخمینہ کردہ 3.25 تا 4.25 فیصد کے بالائی حصے میں رہنے کی توقع ہے۔
جولائی تا اکتوبر مالی سال 26ء کے دوران جاری کھاتے میں مجموعی طور پر 0.7 ارب ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا، جو زری پالیسی کمیٹی کی توقعات کے مطابق ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے ساتھ درآمدات میں اضافہ جاری رہا، جبکہ کارکنوں کی ترسیلاتِ زر مضبوط رہیں۔ تاہم، برآمدات دباؤ کا شکار رہیں، جس کی بڑی وجہ غذائی برآمدات، بالخصوص چاول کی برآمدات میں نمایاں کمی تھی۔ فنانسنگ کے لحاظ سے رقوم کی خالص آمدنی متوسط رہی۔ اس کے باوجود، اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر دسمبر 2025ء کے 15.5 ارب ڈالر کے ہدف سے تجاوز کر گئے ہیں، جس کی بنیادی وجہ مرکزی بینک کی جانب سے زرمبادلہ کی مسلسل خریداری ہے۔ مستقبل میں، عالمی سطح پر موجود منفی عوامل، خاص طور پر بدلتی ہوئی تجارتی صورتِ حال برآمدات کو محدود کر سکتی ہے، تاہم تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی درآمدات کو محدود رکھ سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، جاری کھاتے کی صورتِ حال بڑی حد تک جوں کی توں ہے، اور مالی سال 26ء کے دوران امکان ہے کہ خسارہ جی ڈی پی کے صفر سے 1 فیصد کی حد میں رہے گا۔ مزید برآں، طے شدہ سرکاری رقوم کی وصولی کے ساتھ، جون 2026ء تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر بڑھ کر 17.8 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔
مالی سال26ء کی پہلی سہ ماہی میں، مجموعی اور بنیادی توازن دونوں میں سرپلس درج کیا گیا، جس میں بڑا کردار اسٹیٹ بینک کی جانب سے بھاری نفع کی منتقلی کا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ، اخراجات تا جی ڈی پی تناسب پچھلے سال کی تقابلی سطح سے کم رہا، جس نے اس مالیاتی کارکردگی میں بھی حصہ ڈالا ہے۔ دریں اثنا، جولائی تا نومبر مالی سال26ء کے دوران ایف بی آر کی وصولی خاصی کم ہوکر 10.2 فیصد سال بسال رہ گئی، جس کا مطلب ہے کہ مالی سال 26ء کے باقی سات ماہ کے دوران بجٹ میں ٹیکس وصولی کا مجموعی ہدف حاصل کرنے کے لیے نمایاں رفتار کی ضرورت ہے۔ مزید برآں، توقع ہے کہ پورے سال کے لیے مختص سودی ادائیگیاں مقررہ رقم سے کم رہیں گی، جس سے حکومت کو مالیاتی خسارے پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہیں۔ تاہم، بنیادی زرِ فاضل (surplus) کے ہدف کا حصول دشوار ہوگا۔ اس پس منظر میں، زری پالیسی کمیٹی نے ساختی اصلاحات کی اہمیت پر زور دیا، خاص طور پر ٹیکس گزاروں کی تعداد بڑھانے اور خسارے میں چلنے والی ریاستی ملکیت کے کاروباری اداروں (SOEs) کی نجکاری کے لیے، تاکہ مالیاتی بفرز بڑھاکرسرکاری سرمایہ کاری اور سماجی و معاشی بہتری کے لیے ضروری اخراجات کی گنجائش پیدا کی جاسکے۔
زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے 28 نومبر تک زرِ وسیع(ایم ٹو) کی نمو بڑھ کر 14.9 فیصد تک پہنچ گئی، جو بینکاری شعبے سے خالص میزانی قرض گیری میں اضافے کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ جولائی تا نومبر کے دوران ٹیکسٹائل، تھوک و خردہ اور کیمیکلز جیسے اہم شعبوں کی جانب سے قرضے لینے کے باعث نجی شعبے کے قرضوں میں 187 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ بالخصوص گاڑیوں کے لیے قرضوں، مالی حالات میں نرمی، صارفین کے احساسات میں بہتری، اور مستحکم معاشی ماحول کے باعث صارفی مالکاری مضبوط رہی۔ تاہم، سال بہ سال بنیاد پر نجی شعبے کے قرضوں میں 0.3 فیصد کمی آئی، جس کی بنیادی وجہ مالی سال 25ء کی دوسری سہ ماہی میں قرض تا ڈپازٹ تناسب پر مبنی بلند اساسی اثر(high base effect) کے باعث قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہونا تھا۔ واجبات کے معاملے میں، زیرِگردش کرنسی کا حجم مجموعی طور پر برقرار رہا، جبکہ کرنسی تا ڈپازٹ تناسب میں معتدل کمی کے باعث ڈپازٹس میں اضافہ ہوا۔
زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ گذشتہ تین ماہ کے دوران عمومی مہنگائی وسط مدتی ہدف کی حد میں رہی۔ مزید برآں، مہنگائی کے تینوں اجزا- غذائی، توانائی اور قوزی– مرکوز ہو رہے ہیں ، جو بڑی حد تک کمیٹی کی توقعات کے مطابق ہے۔ اس تناظر میں، محتاط زری پالیسی موقف کے ساتھ مالیاتی نظم و ضبط ، حالیہ رسدی رکاوٹوں اور قدرے مستقل قوزی مہنگائی کے باوجود، مہنگائی کو ہدف کے اندر مستحکم رکھنے میں مدد دے رہا ہے ۔ مزید برآں، مہنگائی کی توقعات بھی قابو میں رہیں۔ تاہم، زری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ گذشتہ برس کے پست اساسی اثر کی وجہ سے مالی سال 26ء کے اختتام تک مہنگائی اپنے ہدف کی حد سے اوپر جا سکتی ہے، البتہ مالی سال 27ء میں یہ دوبارہ ہدف کی حد میں لوٹ آئے گی۔ کمیٹی نے رائے دی کہ یہ منظرنامہ جن چیزوں سے مشروط ہے ان میں اجناس کی عالمی قیمتوں میں تبدیلی، توانائی کی قیمتوں میں رد و بدل کے حجم اور وقت ، مالیاتی کوتاہیوں، گندم اور اس سے منسلک مصنوعات اور تلف پذیر غذائی اشیا کی قیمتوں کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات شامل ہیں۔