فلم دھورندھر پر بننے والے سوشل میڈیا ٹرینڈز میں سے ایک ’فرسٹ ڈے ایز سپائی‘ کی مزاحیہ ویڈیوز ہیں جس میں انسٹاگرام پر پاکستانی اور انڈین شہری اپنی مزاحیہ ریلز لگا رہے ہیں کہ وہ پڑوسی ملک میں پہلے ہی دن بطور جاسوس کام کرتے ہوئے کیسے پکڑے گئے تھے۔
انڈیا اور پاکستان عرصہ دراز سے ایک دوسرے پر اپنے ملکوں میں جاسوس بھیجنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں اور اس موضوع پر بالی وڈ میں کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ اس کی حالیہ مثال فلم دھورندھر ہے جس میں مرکزی اداکار رنویر سنگھ پاکستان کے شہر کراچی میں انڈین جاسوس بنے ہوئے ہیں۔
جہاں ایک طرف اس فلم نے پاکستان اور انڈیا میں تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید بٹوری ہے وہیں اس کی ریلیز کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف ٹرینڈز بھی بنے ہیں۔
ان میں سے ایک ’فرسٹ ڈے ایز سپائی‘ کا تفریحی کونٹینٹ ہے جس میں انسٹاگرام پر پاکستانی اور انڈین شہری اپنی مزاحیہ ریلز لگا رہے ہیں کہ وہ پڑوسی ملک میں پہلے ہی دن بطور جاسوس کام کرتے ہوئے کیسے پکڑے گئے تھے۔
رواں سال دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تناؤ میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک حملے کے دوران سیاحوں کی ہلاکت کے بعد مئی میں دونوں ملکوں کے درمیان چار روزہ فوجی لڑائی ہوئی جس میں میزائل و ڈرون حملے اور جنگی طیارے گِرائے جانے کے دعوؤں نے شہ سرخیاں بنائیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چار روزہ لڑائی کے بعد سے انڈیا میں بعض شہریوں کو پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا، جن میں سے ایک یوٹیوبر جیوتی ملہوترا ہیں جبکہ نومبر میں پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اعجاز ملاح نامی ایک مچھیرے کو پاکستانی سکیورٹی اداروں نے گرفتار کیا جنھیں مبینہ طور پر انڈیا کی ایک خفیہ ایجنسی نے اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا تھا۔
انڈیا اور پاکستان میں جاسوسی کی ریلز
پڑوس ملک میں جانے والے کسی جاسوس کا پہلا دن کیسے ہو گا، اس تصور کو عملی شکل دینے کے لیے پاکستان اور انڈیا کے بہت سے انفلوئنسرز نے تفریحی ویڈیوز بنائی ہیں۔
شاید اس کونٹینٹ میں پڑوس ملک کا کچھ مذاق بھی اڑایا گیا لیکن یہ تمام ریلز دھورندھر کے ایک ہی گانے ’کارواں‘ سے شروع ہوتی ہیں جس کے بول کچھ یوں ہیں کہ ’آندھی بن کے آیا ہوں، میرا حوصلہ بھی عیاش ہے۔‘
مگر اِن ریلز میں بنیادی طور پر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک ناتجربہ کار جاسوس پڑوس میں پہلے ہی دن کیسے پکڑا جائے گا۔ یعنی یہ کہ دونوں ملکوں کی تہذیب اور لوگوں کا رہن سہن کتنا مختلف ہے۔
مثلاً اِن ریلز میں کوئی انڈین جاسوس پاکستان میں ’آپ جناب‘ کہنے پر پکڑا جاتا ہے تو کوئی پاکستانی جاسوس انڈیا میں ’92 کے ورلڈ کپ‘ یا ’پی ٹی اے اپروو آئی فون‘ کا ذکر کرنے پر اپنے خفیہ آپریشن کا پول کھول دیتا ہے۔
گذشتہ کچھ روز سے یہ ریلز اس قدر انسٹاگرام، فیس بُک، ایکس اور ٹک ٹاک پر نظر آنے لگی ہیں کہ صبا بشیر نامی صارف کا کہنا ہے کہ ’سانس بھی لیتی ہوں تو سپائی والی ریلز سامنے آ جاتی ہیں۔‘
جبکہ فریحہ کی رائے ہے کہ سپائی میمز کی جنگ پاکستانی انفوئنسرز نے جیت لی۔ اس پر ایک صارف میانک دوبے نے تبصرہ کیا کہ ’پاکستانی ہر چیز کو مقابلہ بنا دیتے ہیں اور اپنی فتح کا اعلان کر دیتے ہیں۔‘
وہ ’انڈین جاسوس‘ جنھیں پاکستان میں گرفتار کیا گیا
گذشتہ دہائیوں کے دوران کئی بار انڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے پر جاسوسی کا الزام لگایا۔ ہم نے کچھ ایسے ناموں کی فہرست مرتب کی ہے جنھیں پاکستان میں ’انڈین جاسوس‘ کے طور پر گرفتار کیا گیا تھا:
کلبھوشن یادیو عرف ’حسین مبارک پٹیل‘
مارچ 2016 میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو نامی شخص کو بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔ پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا کہ کلبھوشن انڈین بحریہ کے افسر اور انڈین انٹیلیجنس ادارے را کے ایجنٹ ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کلبھوشن یادھو نے حسین مبارک پٹیل کا نام اختیار کیا ہوا تھا اور بلوچستان میں ایران کی سرحد سے داخل ہوئے تھے۔
پاکستان نے کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد ایران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ اپریل 2017 میں پاکستان کی فوجی عدالت نے کلبھوشن کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی جس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا۔
کلبھوشن شاید پہلے ایسے انڈین جاسوس تھے جو صوبہ پنجاب سے باہر پکڑے گئے۔ ماضی میں اکثر مبینہ انڈین جاسوس پنجاب کے مختلف علاقوں سے گرفتار ہوئے اور ان کی اکثریت کا تعلق انڈین پنجاب سے تھا۔
سربجیت سنگھ
سربجیت سنگھ کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے اگست 1990 میں گرفتار کیا تھا۔ انڈیا کا موقف تھا کہ نشے میں دھت ایک پنجابی کاشتکار کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے غلطی سے سرحد پار کر گیا تھا۔
پاکستان نے سربجیت سنگھ کے خلاف فیصل آباد، ملتان اور لاہور میں دھماکوں کے الزامات میں مقدمہ چلایا اور اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ فوجی حکمران پرویز مشرف کے اقتدار کے دوران جب انڈیا پاکستان کے مابین جامع مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا تو اس وقت انڈیا میں کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے سربجیت سنگھ کی رہائی کی مہم چلائی اور کئی بار ایسا لگا کہ حکومتِ پاکستان ان کو رہا کردے گی لیکن مذاکرات کی ناکامی کے بعد سربجیت سنگھ کی رہائی بھی کھٹائی میں پڑ گئی۔
سربجیت 2013 میں کوٹ لکھپت جیل میں قیدیوں کے ایک حملے میں زخمی ہو گئے اور جانبر نہ ہو سکے۔ سربجیت سنگھ کی لاش کو انڈیا کے حوالے کیا گیا اور انڈیا کی حکومت نے سربجیت سنگھ کو سرکاری اعزازات کے ساتھ دفن کیا۔
کشمیر سنگھ
کشمیر سنگھ 1973 میں پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوئے اور جب پاکستان کی جیلوں میں 35 برس گزارنے کے بعد انھیں 2008 میں رہا کیا گیا تو انڈیا میں ان کا شاندار خیر مقدم کیا گیا۔ انڈین سرزمین پر پہنچتے ہی انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ جاسوسی کے لیے پاکستان گئے تھے۔
پاکستانی فوج میں کلرک رویندرا کوشک عرف ’نبی احمد شاکر‘
راجستھان میں پیدا ہونے والے رویندرا کوشک ایک ایسے جاسوس تھے جو 25 برس تک پاکستان میں ’نبی احمد شاکر‘ کے نام سے رہے۔ وہ نہ صرف بہت کامیابی سے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے بلکہ انھوں نے پاکستان میں شادی بھی کر لی تھی اور ان کا بچہ بھی تھا۔
بعد میں وہ پاکستانی فوج میں کلرک کے طور پر بھرتی ہوئے اور پھر ترقی کرتے ہوئے کمشنڈ افسر بن گئے اور پھر وہ ترقی کرتے ہوئے میجر کے عہدے تک پہنچ گئے۔ رویندرا کوشک کی گرفتاری ایک اور انڈین جاسوس کی گرفتاری کے بعد عمل میں آئی جسے خصوصی طور پر میجر رویندرا کے ساتھ رابطے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
رویندرا کوشک کی گرفتاری کے بعد انھیں پاکستان کی مختلف جیلوں میں 16 برس تک رکھا گیا اور 2001 میں ان کی موت جیل میں ہوئی۔
رام راج
2004 میں لاہور میں گرفتار ہونے والے رام راج شاید واحد ایسے جاسوس تھے جو پاکستان پہنچتے ہی گرفتار ہوگئے۔ انھیں چھ برس قید کی سزا ہوئی اور جب وہ اپنی سزا کاٹ کر واپس انڈیا پہنچے تو انھیں انڈین اداروں نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ وہ پاکستان آنے سے پہلے اٹھارہ برس تک انڈیا کے خفیہ اداروں میں کام کر چکے تھے۔
سرجیت سنگھ
سرجیت سنگھ نے 30 برس پاکستانی جیلوں میں گزارے۔ سرجیت سنگھ کو 2012 میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے رہا کیا گیا اور وہ واپس انڈیا پہنچے تو ان کا کسی نے استقبال نہ کیا۔ سرجیت سنگھ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ پاکستان میں ’را‘ ایجنٹ بن کر گئے تھے لیکن کسی نے ان کی بات پر کان نہ دھرے۔
سرجیت سنگھ نے اپنی رہائی کے بعد بی بی سی کی نامہ نگار گیتا پانڈے سے بات کرتے ہوئے انڈین حکومت کے رویے پر غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انڈین حکومت ان کی غیر موجودگی میں ان کے خاندان کو 150 روپے ماہانہ پینشن ادا کرتی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ’را‘ کے ایجنٹ تھے اور وہ گرفتاری سے پہلے پچاسی بار پاکستان کا دورہ کر چکے تھے جہاں وہ دستاویزات حاصل کر کے واپس لے جاتے تھے۔
سربجیت 2013 میں کوٹ لکھپت جیل میں قیدیوں کے ایک حملے میں زخمی ہو گئے اور جانبر نہ ہو سکےگربخش رام عرف شوکت علی
2006 میں کوٹ لکھپت جیل سے رہا ہونے والے گربخش رام پاکستان میں ’شوکت علی‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ 18 برس تک پاکستانی جیلوں میں رہے۔ گربخش رام کو 1990 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ کئی برس پاکستان میں گزارنے کے بعد واپس انڈیا جا رہے تھے۔
انڈین جریدے ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گربخش رام نے ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا کہ ان کو وہ سہولتیں دینے سے انکاری ہیں جو سربجیت سنگھ کے خاندان کو ملی ہیں۔
ونود سانھی
ونود سانھی 1977 میں پاکستان میں گرفتار ہوئے اور 11 برس پاکستانی جیلوں میں گزارنے کے بعد انھیں 1988 میں رہائی ملی۔
وہ اپنی کہانی بتاتے ہیں کہ وہ ٹیکسی ڈرائیور تھے جب ان کی ملاقات ایک ’انڈین جاسوس‘ سے ہوئی جس نے انھیں سرکاری ملازمت کی پیشکش کی۔ ان کے بقول انھیں پاکستان بھیجا گیا لیکن جب وہ پاکستانی قید سے رہا ہوئے تو حکومت نے ان کی مدد نہیں کی۔