’نہیں پتا تھا کہ تین دن بعد عدیل اکبر کے جنازے کو کندھا دینا پڑے گا‘: پولیس افسر کی موت سے جڑے حقائق، قیاس آرائیاں اور چند سوالات

یہ وائس نوٹ اُس واقعے کی ابتدائی مگر غیرمصدقہ تفصیل فراہم کرتا ہے جو گذشتہ 24 گھنٹوں سے پاکستان کے روایتی اور سوشل میڈیا پر خبروں میں ہے۔ یاد رہے کہ تاحال اسلام آباد پولیس نے سرکاری سطح پر اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ آیا عدیل اکبر نے خود کو گولی ماری، جیسا کہ وائرلیس کال میں دعویٰ کیا گیا ہے، یا نہیں۔

’آپریٹر سرینا کے پاس ایس پی آئی نائن نے ہم سے رائفل لی ہے اور اپنے آپ کو فائر مارا ہے۔ ابھی ہم اُن کو پولی کلینک ہسپتال منتقل کر رہے ہیں۔ اوور۔‘

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کرائم سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے واٹس ایپ گروپس میں یہ وائس نوٹ جمعرات کی شام لگ بھگ پانچ بجے پوسٹ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔

بی بی سی کو اسلام آباد پولیس نے اس وائس نوٹ کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ وائرلیس کال اسلام آباد پولیس کے ایس پی عدیل اکبر کے سرکاری محافظ (گن مین) کی جانب سے کنٹرول روم کو کی گئی تھی۔

یہ وائس نوٹ اُس واقعے کی ابتدائی مگر غیرمصدقہ تفصیل فراہم کرتا ہے جو گذشتہ 24 گھنٹوں سے پاکستان کے روایتی اور سوشل میڈیا پر خبروں میں ہے۔ یاد رہے کہ تاحال اسلام آباد پولیس نے سرکاری سطح پر اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ آیا عدیل اکبر نے خود کو گولی ماری، جیسا کہ وائرلیس کال میں دعویٰ کیا گیا ہے، یا نہیں۔

آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی کے مطابق ایس پی عدیل اکبر کو گولی لگنے کا واقعہ جمعرات کی شام لگ بھگ چار بج پر 26 منٹ پر اُس وقت پیش آیا جب وہ شاہراہ دستور پر سفر کرتے ہوئے اپنے آفس کی طرف جا رہے تھے، اور اسی سڑک پر راستے میں ایک پُل کے قریب انھیں گاڑی کے اندر فائر لگا۔

آئی جی اسلام آباد کے مطابق ’اس واقعے سے متعلق اسلام آباد کے تینوں ڈی آئی جیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو 48 گھنٹوں میں اس واقعہ سے متعلق اپنی رپورٹ وزارت داخلہ کو پیش کرے گی۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس ضمن میں مزید کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

سرکاری سطح پر موت کی وجوہات کے بارے میں تاحال کچھ نہیں بتایا گیا۔ اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ ڈی آئی جیز پر مبنی تین رکنی ٹیم نے اپنی تفتیش کا آغاز کر دیا ہے اور ایس پی عدیل اکبر کے گن مین اور ڈرائیور کے بیانات قلمبند کر لیے گئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائسز (پمز) میں ان کا پوسٹ مارٹم ہوا جس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق انھیں ایک گولی سر کے سامنے لگی اور عقب سے نکل گئی۔ اس ابتدائی میڈیکل رپورٹمیں کہا گیا ہے کہ گولی کی وجہ سے عدیل اکبر کا دماغ شدید متاثر ہوا اور اُن کی موت بھی دماغ متاثر ہونی کی وجہ سے ہوئی۔

حکام کے مطابق عدیل اکبر کی باڈی سے دیگر نمونے بھی حاصل کیے گئے ہیں جن کو فرانزک لیب لاہور بھجوا دیا گیا ہے۔

آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے جمعرات کی رات میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ کہا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ پیش آنے سے قبل عدیل کی کسی افسر سے بات ہوئی تھی۔

’جس افسر سے متعلق بات ہو رہی ہے کہ ایس پی عدیل کو فائر لگنے سے قبل ان سے بات ہوئی تھی تو ان سے بھی ہماری بات ہوئی ہے، کیا اس موبائل کال کے نتیجے میں کچھ ایسی چیز ٹریگر ہوئی، اس ضمن میں کوئی نتیجہ اخذ کرنا فی الحال قبل از وقت ہو گا۔ ہم پر پہلو سے اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ گاڑی کے اندر پیش آیا ہے، ہم نے سیف سٹی کیمروں کی ویڈیو فوٹیج لی ہے، اور اس فوٹیج سے بھی یہی پتہ چلا کہ باہر سے کچھ نہیں ہوا، یہ گاڑی کے اندر کا واقعہ ہے۔‘

عدیل اکبر کون تھے؟

پولیس کے 46ویں کامن سے تعلق رکھنے والےگریڈ 17 کے افسر عدیل اکبر اسلام آباد پوسٹنگ سے قبل بلوچستان میں تعینات تھے۔ آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی کے مطابق وہ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ پہلے بلوچستان سے ٹرانسفر کر کے اسلام آباد لائے گئے تھے اور انڈسٹریل ایریامیں بطور ایس پی اپنے فرائص سرانجام دے رہے تھے۔

عدیل اکبر پنجاب کے وسطی علاقے مریدکے کے رہائشی اور شادی شدہ تھے۔

فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) میں تعینات ایس پی حسن جہانگیر وٹو نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ عدیل اکبر 43ویں کامن میں اُن کے بینج میٹ تھے۔

حسن جہانگیر وٹو کے مطابق سی ایس ایس کلیئر کرنے کے بعد پہلے انھیں آفس مینجمنٹ گروپ ملا تھا مگر اپنے نتائج اور گروپ کو بہتر کرنے کی غرض سے انھوں نے سنہ 2018 میں دوبارہ سی ایس ایس کے امتحان میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد وہ پولیس سروس گروپ میں ٹاپ میں آئے۔

حسن جہانگیر نے بتایا کہ مارچ 2018 میں عدیل کی ابتدائی پوسٹنگ بلوچستان میں بطور اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ آف پولیس ہوئی اور انھوں نے اپنی مختصر سروس کا زیادہ تر وقت بلوچستان میں ہی گزارا اور حال ہی میں ہو ٹرانسفر ہو کر اسلام آباد آئے تھے۔

حسن جہانگیر وٹو کا کہنا تھا کہ سی ایس ایس کلیئر کرنے کے بعد ہونے والی ابتدائی چھ ماہ کی ٹریننگ میں بھی عدیل ان کے ہمراہ تھے اور اس دوران انھوں نے انھیں بڑا ہنس مکھ پایا۔ حسن جہانگیر کے مطابق ان کی عدیل اکبر سے آخری ملاقات دو دن پہلے ہوئی تھی جس میں تین، چار گھنٹے تک گپ شپ اور ہنسی مذاق ہوتا رہا۔

انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ تین ہی روز بعد عدیل اکبر کے جنازے کو کندھا دینا پڑے گا۔ حسن جہانگیر کا کہنا تھا کہ عدیل اکبر ایک ہنس مکھ انسان تھے جنھوں نے کبھی اپنے آپ کو درپیش مسائل کا ان کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔

ڈی ایس پی انڈسریل ایریا سرفراز بٹ نے بی بی سی بتایا کہ عدیل اکبر گذشتہ دنوں میڈیکل ریسٹ پر تھے کیونکہ انھیں ڈینگی ہوا تھا۔

انھوں نے کہا کہ انڈسریل ایریا سرکل میں جتنے بھی زیر التوا مقدمات ہیں، اُنمیں ہونے والی پیش رفت کےبارے میں وہ تفتیشی افسران سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ لیتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ وہ اپنے آفس میں رات گئے تک کام کرتے تھے اور کام کے دوران انھوں نے کبھی بھی اُن کے چہرے پر تھکاوٹ کے اثار نہیں دیکھے اور نہ ہی انھوں نے کبھی بیزاری کا اظہار کیا تھا۔

’ڈاکٹر، صحافی سب ہی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں‘

تصویر
Getty Images

میڈیا پر جیسے ہی پولیس افسر عدیل اکبر کی گولی لگنے سے ہلاکت کی خبر کی تصدیق ہوئی، اُسی کے ساتھ قیاس آرائیوں کے ایک ناختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوا۔ گذشتہ 24 گھنٹے سے عدیل اکبر کی موت کی متعدد وجوہات غیرمصدقہ انداز میں شیئر کی جا رہی ہیں اور اس میں اُن کی ذاتی زندگی تو کبھی پروفیشنل لائف اور کبھی ان کی صحت کو درپیش مسائل سے متعلق دعوے کیے جا رہے ہیں۔

عدیل اکبر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر موجود مواد کو بڑے پیمانے پر شیئر کرتے ہوئے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اور ان پوسٹس کے تناظر میں اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ موت کی ممکنہ وجہ کیا ہو سکتی ہے۔

قیاس آرائیوں پر مبنی اس بحث کو ایک نئی جہت سوشل میڈیا پر پوسٹ کردہ اُس تحریر نے فراہم کی جس میں ایک سرکاری ڈاکٹر کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ عدیل اکبر کے معالج ہیں اور اس فیس بُک پوسٹ میں انھوں نے عدیل اکبر کو لاحق صحت کے مسائل سے متعلق بتایا مگر بعدازاں انھوں نے یہ پوسٹ ڈیلیٹ کر دی۔

سوشل میڈیا پر آئے غیرمصدقہ خبروں کے اس طوفان پر بہت سے سوشل میڈیا صارفین نہ صرف تنقید کر رہے ہیں بلکہ اس بحث کے پولیس افسر کے اہلخانہ پر ممکنہ اثرات پر بھی بات کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے اسی نوعیت کی خبروں پر تنقید کرتے ہوئے جمعرات کی شام پمز ہسپتال کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اس چیز کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ یہ باتیں اُن کے اہلخانہ کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ اس معاملے میں اندازہ لگانا بہتر نہیں ہے اور اس سے گریز کرنا چاہیے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ نگار طلعت حسین نے کہا کہ ’اس موت کے بعد سوشل میڈیا پر پیدا ہونے والے طوفانِ بدتمیزی کے اثرات تو ظاہر ہے منفی ہیں، لیکن جب بظاہر مستند صحافی کسی کی ذاتی زندگی کو اپنی شہرت کے لیے استعمال کریں تو یہ افسوسناک کام ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس میں بہت افواہ سازی کا عنصر بھی ہے۔ تحقیقات کے بغیر خوامخواہ بتا دیا کہ اس کی کس افسر سے بات ہوئی ہے اور یہی موت کی وجہ ہے۔ اب کون جانے کہ بات ہوئی ہے یا نہیں ہوئی، یا وہ ذہنی دباو کا شکار تھے۔‘

طلعت حسین کا مزید کہنا ہے کہ ’پھر جو پروفیشنل ہیں انھوں نے بھی یہی کام شروع کر دیا۔ جو ڈاکٹر صاحب ہیں انھوں نے بھی پوسٹ کیا کہ وہ میرے پاس آئے تھے۔ حالانکہ ایک مریض اور معالج کے درمیان رازداری کا ایک معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت آپ ان چیزوں کو زیر بحث نہیں لا سکتے۔‘

’ڈاکٹر نے بھی اپنے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی، صحافیوں نے بھی اپنے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔ ان کے دوستوں نے بھی ان کے پرانے ٹوئٹس کو لے کر تجزیے کرنا شروع کر دیے۔ ہر کسی نے بدقسمتی سے اس افسر کی ذاتی زندگی کو اور ان کے پروفیشنل اور ذاتی معاملات کو زیرِ بحث لا کر خبر بنائی ہے کہ ہمیں پتا ہے کہ اُن کے ساتھ کیا ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس پس منٌظر میں ’خاندان کی تکلیف کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن اس تمام معاملے میں مجھے تمام پیشہ ورانہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں نظر آئیں۔‘

ماہر نفسیات نوشین کاظمی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مریض اور ڈاکٹر کے درمیان اعتماد ہی سب سے پہلی اور بنیادی چیز ہے۔ ’اگر اعتماد ہوتا ہے، تب ہی مریض آپ سے بات کرتا ہے اور اسی اعتماد کے سبب ہی مریض اپنے معالج کی بات مانتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی ڈاکٹر کسی بھی وجہ سے اس رازداری کی شرط کو توڑتا ہے تو شاید وہ غلط پروفیشن میں ہے۔

انھوں نے کہا سوشل میڈیا پر تو اپنے کسی مریض کی ذہنی صحت کو ڈسکس کرنا تو اور بات ہے، مگر طب کے شعبے میں بھی اگر کسی مریض کو بطور کیس سٹڈی ڈسکس کرنا مقصود ہو تو شناخت چھپائی جاتی ہے۔ ’میڈیکل پریکٹس میں یہاخلاقیات کا حصہ ہے کہ مریض کی بات اور کسی سے نہ کی جائے کجا سوشل میڈیا پر تفصیلات فراہم کی جائیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US