حکومت  اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے تین سال پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر سخت پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس اقدام کا مقصد اس سہولت کے غلط استعمال، ہنڈی و حوالہ کے غیرقانونی لین دین اور تجارتی درآمدات کے بہانے گاڑیوں کی اسمگلنگ پر قابو پانا ہے۔
یہ فیصلہ وزیرِ تجارت جام کمال خان کی زیرِ صدارت ہونے والے بین الوزارتی اجلاس میں کیا گیا جس میں اعلیٰ سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اور پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز  کے نمائندے شریک ہوئے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کی ہدایت پر وزارتِ تجارت نے امپورٹ پالیسی آرڈر 2022 میں ترمیم کی تیاری شروع کردی ہے۔ مجوزہ پالیسی کے مطابق ذاتی سامان، رہائش کی منتقلی اور گفٹ اسکیم کے تحت گاڑیاں صرف ان اوورسیز پاکستانیوں کو درآمد کرنے کی اجازت ہوگی جو واقعی بیرونِ ملک مقیم ہوں۔
نئی تجاویز کے تحت، درآمد شدہ گاڑی کو کم از کم چھ ماہ قبل متعلقہ ملک میں اوورسیز پاکستانی کے نام پر رجسٹرڈ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس شرط کا مقصد جعلی شناختوں اور تجارتی مقاصد کے لیے غیر قانونی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔
اجلاس میں آٹو سیکٹر کے نمائندوں نے موقف اپنایا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی آمد سے مقامی آٹو پارٹس انڈسٹری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز کے نمائندوں نے کہا کہ یہ رجحان مقامی صنعت کی پیداوار، روزگار اور سرمایہ کاری پر منفی اثر ڈال رہا ہے، اس لیے حکومت کو استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
وزارتِ صنعت نے رپورٹ پیش کی کہ کچھ درآمد کنندگان غیر ملکی شناختوں کا غلط استعمال کرکے تجارتی بنیادوں پر کاروں کی درآمد کر رہے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مستقبل میں ایسے کیسز پر سخت کارروائی کی جائے گی اور کسٹمز و ایف بی آر کے ذریعے مؤثر مانیٹرنگ نظام قائم کیا جائے گا۔
وزارتِ تجارت اب نئی سفارشات کو حتمی شکل دے رہی ہے جو مشاورت مکمل ہونے کے بعد اقتصادی رابطہ کمیٹی کو منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق حکومت کا مؤقف ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو سہولت برقرار رہے گی مگر صرف حقیقی مستحق افراد ہی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے تاکہ غیر قانونی درآمدات، ہنڈی ٹرانزیکشنز اور تجارتی مفادات کا سلسلہ روکا جا سکے۔