معدوم ہونے والے گراموفون کی آواز اور آڈیو ٹیپ کیسٹ جو اب شاز ونادر ہی کہیں دیکھنے کو ملتے ہیں، ایک ثقافتی چیزیں پرانی تلواریں اور بلوچستان کی حوالے سے فن پارے، ایک کونے میں پرانے ریڈیو اور دوسری اشیا، استقبالیہ پر اردو کے بڑے شاعر مرزا غالب کا مجسمہ اور اس کے ساتھ کتابوں کا شیلف یہ ہے 40 پرانے ڈان کیفے کا نیا جنم، جو اسی کی طرح لوگوں کو ایک خوشگوار ماحول اور چائے کے ساتھ جگہ فراہم کررہا ہے۔
ادیبوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں کے بیٹھنے کی جگہ جو چالیس سال قبل کوئٹہ کے معروف بازار جناح روڈ پر منان چوک کے کارنر پر ہوا کرتا تھا، جو اس سڑک پر دوسری کمرشل تبدیلیوں کے ساتھ معدومی کا شکار ہوگیا اور یہ صرف تصویروں اور کچھ لوگوں کی یادوں میں محفوظ رہا، لیکن عبدالصبور بلوچ اور ان کے والد نے اس خواب کو دوبارہ عملی جامہ پہنانے کی سوچا اور انہوں نے کوئٹہ کے سبزل روڈ المعروف نئی سی پیک روڈ پراس کو دوبارہ آباد کردیا۔
اس ہوٹل کو چلانے والے نوجوان عبدالصبور نے بتایا کہ وہ اپنی پڑھائی کےساتھ اس ہوٹل کو چلا رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ کیفے ڈان 1940 کے زمانے کا ایک کیفے تھا، جو جناح روڈ کے منان چوک پر قائم تھا، یہ ایک ایسا کیفے تھا، جہاں ادیب، شاعر اور فن کار آکر بیٹھتے تھے اور چائے کے ساتھ یہاں پر دوستوں کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کرتے تھے۔ یہ کیفے بعد میں 1980 کی دہائی میں بند ہوگیا۔
اسی سوچ اور خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک ایسے کیفے ہوٹل کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ یہاں ایک بار پھر ادیب، شاعر اور فن کار آکر بیٹھ سکیں، اس کو ہم عملی جامہ پہنانے میں کامیابی حاصل کی۔
اس ہوٹل میں پرانے زمانے کا گراموفون، پرانے دور کے گانے اور دوسری ثقافتی اشیا بھی رکھی ہیں، اس کے ساتھ یہاں ایک ایسا ماحول ہے کہ لوگ یہاں آکر خوشی محسوس کرتے ہیں اور چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
صبور نے بتایا کہ اس کیفے بنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ جن لوگوں کی یاد میں وہ پرانا کیفے تھا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی کی طرح کی مماثلت دی جائے، جس کے لیے ہم نے یہاں کتابیں رکھی ہیں، ایک پرانے دور کا میوزک سسٹم رکھا ہے، اس دور کے کیفے میں بھی ادیب، شاعر، سیاسی کارکن، فن کار، وکلا اور سرکاری ملازمین آکر بیٹھتے تھے، جو یہاں بھی اسی طرح آرہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نےجن لوگوں کو مدنظر رکھ کر یہ کیفے بنایا تھا، اس شعبے کے تمام لوگ یہاں آرہے ہیں اور ہماری کوشش کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں، جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری یہ کاوش کامیاب ہورہی ہے۔
صبور کے مطابق: انہوں نے اس ہوٹل کی بنیاد دو سال قبل رکھی تھی، جس میں ہم نے جن لوگوں کے آنے کی توقع کی تھی، وہ تمام لوگ اس سے باخبر اور روزانہ کی بنیاد پر یہاں آتے ہیں، اس کی انفرادیت اس وجہ سے ہے کہ جدت لوگوں کو کتابوں اور ثقافت سے دور کررہی ہے، ہم نے یہاں وائی فائی نہیں لگوایا بلکہ کتابیں رکھی ہیں تاکہ لوگ یہاں آکر کتابیں پڑھیں۔
ان کا مزید کہناتھا کہ لوگ اس چیز کو سمجھ رہے ہیں اور وہ آکر یہاں اپنے آئیڈیاز کے سوچنے اور ایک دوسرے کے ساتھ خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں، اس کیفے میں ہر وقت فن کار، طالب علم اور ادیب شاعر بھی موجود ہوتے ہیں، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ یہاں آکر پرانے دور کے ڈان کیفے کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔
ایک صارف رفیع خان کاکڑ نے بتایا کہ جب سے یہ ڈان کیفے بنا ہے، یہاں کا بہت اچھا ماحول ہے اور دور دراز علاقوں سے لوگ آتے ہیں، وہ یہاں سکون محسوس کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اس ہوٹل کی چائے بہت بہترین ہے اور اس کا ذائقہ بھی بہترین ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں کا ماحول بہت اچھا ہے اور یہاں آکر بہت لوگوں کو مثبت سوچ ملتی ہے، یہاں مختلف شعبوں کے لوگ آکر اپنے خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں، ہم خود بھی اکثر دوستوں کے ساتھ آکر یہاں پر وقت گزارتے ہیں، مزہ آتا ہے۔
رفیع نے بتایا کہ جس طرح پرانے زمانے میں ہمارے ہاں بیٹھک کا نظام ہوتا تھا، جہاں اس علاقے کے بوڑھے جوان سب آکر بیٹھ کر اپنے اپنے خیالات اور مسائل بیان کرتے ہیں، یہاں بھی ہم اسی طرح کا ماحول دیکھتے ہیں۔
ایک دوسرے صارف محمود شاہ نے بتایا کہ یہ کیفے دیگر سے اس وجہ سے مختلف ہے کہ یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ شطرنج کھیلتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں، آئیڈیاز کا تبادلہ کرتے ہیں، یہاں پر پرانی ثقافتی چیزیں جیسے پرانے زمانے کی بندوقیں رکھی ہیں، جو اب ناپید ہوچکی ہیں، یہاں آکر آپ سکون محسوس کرتے ہیں، دوستوں کے ساتھ چیزوں پر بات کرسکتے ہیں، کتابیں پڑھ سکتے ہیں، اس کی انفرادیت بھی یہی ہے کہ یہاں آکر آپ زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں۔
کوئٹہ میں بہت چیزیں معدومی کی طرف جارہی ہیں، جیسے کوئٹہ کا ٹھنڈا سڑک اب جو ریڈ زون بن چکا ہے، جناح روڈ جہاں پر اکثر کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھی، اب کمرشل ازم کے باعث جوتوں کی دکانیں ہیں، اس طرح شاہراہوں کی تعمیر اور نئی سڑکوں کی تعمیر سے پرانی نقشے بدل رہے ہیں، اس ماحول میں ڈان کیفے کا جنم ایک مثبت پیش رفت اور چیزوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش ہے۔