پاکستان میں اتوار کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف کے مشترکہ اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر مشاورت ہوئی مگر اس دوران آئینی استثنیٰ کا معاملہ مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر توجہ حاصل کرتا رہا۔

پاکستان میں اتوار کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف کے مشترکہ اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر مشاورت ہوئی مگر اس دوران آئینی استثنیٰ کا معاملہ مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر توجہ حاصل کرتا رہا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی جماعت کو 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں وزیراعظم کو دی جانے والی استثنیٰ کی تجویز واپس لینے کی ہدایت دی ہے۔
ایکس پر ایک پیغام میں ان کا کہنا ہے کہ ’چند سینیٹرز نے وزیراعظم کے استثنیٰ کے حوالے سے ترمیمی شق سینیٹ میں پیش کی جو کابینہ سے منظور شدہ مسودے میں شامل نہیں تھی۔ معزز سینیٹرز کے خلوص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، میں نے انھیں یہ ترمیم فی الفور واپس لینے کی ہدایت کی ہے۔‘
27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں مسلح افواج سے متعلق آرٹیکل 243 میں بھی تبدیلی کی تجویز کی گئی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس اور ایڈمرل فلیٹ کو آرٹیکل 248 میں صدر کی طرح استثنیٰ حاصل ہو گی۔
کس کس کو آئینی استثنیٰ دینے کی تجویز تھی؟
اگرچہ آئینی ترمیم کے مسودے میں درج کئی تجاویز زیرِ بحث ہیں مگر تاحال اس کی منظوری نہیں دی گئی ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق اس مسودے میں ایک موقع پر صدر اور وزیر اعظم کے لیے تاحیات استثنیٰ کی تجویز دی گئی تھی۔ تاہم ان خبروں کی تصدیق نہیں ہو سکی اور نہ ہی کمیٹی کی طرف سے کوئی منظوری سامنے آئی ہے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی میں جب صدر اور وزیراعظم کو استثنی دینے کی بات ہوئی تو چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے لیے بھی استثنی کی تجویز سامنے آئی تھی۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ لینے سے یکسر انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں عوام کا منتخب کردہ نمائندہ پہلے ہوں۔ عہدے دار بعد میں ہوں۔ کوئی استثنیٰ نہیں چاہیے۔‘
’مجھے نہ تو بطور سپیکر استثنیٰ چاہیے نہ ہی بعد میں کسی صورت استثنیٰ لوں گا۔‘
فیلڈ مارشل کو استثنیٰ دینے کی ضرورت کیوں پڑی، اس بارے میں جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے کہا تھا کہ ’قومیں اپنے قومی ہیروز کو سیلیبریٹ کرتی ہیں تو ہمیں کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ چاہے ان کی استثنیٰ ہو، ان کی مراعات ہوں یا رینک اور ٹائٹل ہوں۔ ان سب کو تسلیم کرنا چاہیے۔‘
شو ’نیا پاکستان‘ کے دوران پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات ندیم افضل چن سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ کیا صدر اور وزیر اعظم کو تاحیات استثنیٰ دینے کی تجویز ہے؟
اس پر انھوں نے کہا تھا کہ ’ساری سروسز کا سربراہ تو صدر ہی ہوتا ہے۔ اگر ماتحت کو استثنیٰ دے رہے ہیں تو سربراہ کو کیوں نہیں دیں گے؟‘
انھوں نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ویسے سیاسی لوگوں کو استثنیٰ کم ہی ملتا ہے۔‘
جبکہ بیرسٹر عقیل کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ کمیٹی کے سامنے ہے اور اسے منظور نہیں کیا گیا لہذا وہ اس پر تبصرہ نہیں کریں گے۔
سوشل میڈیا پر بحث
آئینی استثنیٰ کے معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی ان پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔
جیسے صحافی عمر چیمہ نے ایکس پر لکھا کہ آسان لفظوں میں استثنیٰ سے مراد ہے کہ کسی شخص کو چھوا نہیں جا سکتا۔ ’ہمارے ہاں ہمیشہ سے ایسے لوگ رہے ہیں لیکن اب ہم آئین میں یہ اصول لکھ کر اس کا باقاعدہ اعلان کر رہے ہیں۔‘
صحافی عامر ضیا نے تبصرہ کیا کہ ’صدر پاکستان یا کسی بھی حکومتی اہلکار کے لیے تاحیات استثنی پاکستان کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ ایماندار اور آئین و قانون پر عمل کرنے والی قیادت کبھی احتسابی عمل سے خوفزدہ نہیں ہوتی۔ جمہوریت اور احتساب کا عمل لازم و ملزوم ہیں۔‘
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے لکھا کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ رُوس کے سوا دنیا کی کسی ری پبلک کے آئین میں صدر یا کسی اور کو زندگی بھر کے لیے استثنی حاصل نہیں ہے۔ مواخذہ البتہ بیشتر دساتیر میں موجود ہے۔ مقدمات اور عدالتوں سے زندگی بھر کا استثنی صرف بادشاہتوں میں بادشاہوں کو حاصل ہوتا ہے۔‘
انھوں نے یہ طنز بھی کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی طرح ’دوسرے بھی اپنے اپنے عہدوں کے لیے تاحیات استثنی لینے سے انکار کر دیں تو کتنا اچھا ہو۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 248 صدر کو اپنے عہدے کی مدت کے دوران کسی بھی فوجداری کارروائی سے استثنیٰ دیتا ہےاستثنیٰ کیا ہے اور پاکستان میں کس کو حاصل ہے؟
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 248 صدر کو اپنے عہدے کی مدت کے دوران کسی بھی فوجداری کارروائی سے استثنیٰ دیتا ہے۔
اس میں درج ہے کہ کسی بھی عدالت میں صدر اور گورنر کے خلاف ان کے عہدے کی مدت کے دوران کسی بھی قسم کی کوئی فوجداری کارروائی نہ شروع ہو سکتی ہے اور نہ ہی جاری رہ سکتی ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی عدالت عہدے کی مدت کے دوران صدر اور گورنر کو گرفتار کرنے یا قید کرنے کی سزا نہیں دے سکتی۔
پاکستان میں آئینی اور پارلیمانی اُمور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اس حوالے سے بی بی سی کے نامہ نگار عمیر سلیمی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ استثنیٰ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص پر کوئی فوجداری مقدمہ نہیں چل سکے گا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اب تک یہ معاملہ عہدے کی مدت تک محدود رہا ہے۔ ’پاکستان کے آئین میں صدر کو استثنیٰ حاصل ہے، یعنی جب تک وہ صدر ہیں تب تک ان پر فوجداری مقدمات نہیں چل سکتے۔ وہ گرفتار بھی نہیں ہو سکتے۔‘
مگر وہ کہتے ہیں کہ اب تاحیات استثنیٰ سے متعلق قیاس آرائیاں سننے میں آئی ہیں جو کہ ’کسی بھی مہذب ملک میں قابل قبول نہیں ہونی چاہییں۔‘
’جب تک مدت ہے تب تک بات سمجھ آتی ہے، لیکن جب وہ ریٹائر ہوجائیں اور پھر ان کے خلاف کوئی فوجداری مقدمہ بنتا ہے تو کیسے انھیں استثنیٰ دیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔‘
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پاکستان میں صدور کو صرف عہدۂ صدارت کے دوران استثنیٰ حاصل رہا ہے۔
مئی 2024 کے دوران اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ٹھٹھہ واٹر سپلائی اور پارک لین کیسز میں صدر زرداری کو استثنیٰ دیا تھا۔ اس سے قبل جون 2012 میں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا تھا۔ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ اس کیس میں گیلانی کا موقف رہا تھا کہ صدر کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے۔
بی بی سی کے عمیر سلیمی سے بات کرتے ہوئے سینیٹر کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ استثنیٰ لینا کمزوری کی نشانی ہے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’آپ کو کس چیز کے لیے استثنیٰ چاہیے؟ کیا آپ کو کوئی احساسِ جرم ہے؟‘
وہ کہتے ہیں کہ صدارتی استثنیٰ کی وجہ یہ ہے کہ ایک صدر کو کورٹ کچہری طلب کرنا مناسب نہیں ہے۔