افغانستان میں کم عمری کی شادی سے یورپ کی بہترین باڈی بلڈر بننے کا سفر: ’لوگوں کو صرف میری بِکنی نظر آتی ہے، اس کے پیچھے برسوں کی مصیبتیں ہیں‘

صرف 18 ماہ قبل رویا کریمی نے اپنا نرسنگ کرئیر چھوڑنے اور باڈی بلڈنگ کو بطور پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
رویا کریمی
BBC
رویا کریمی کہتی ہیں کہ باڈی بلڈنگ نے انھیں اُن ذہنی اور سماجی حدووں سے آزاد ہونے میں مدد دی جو ان پر مسلط کی گئی تھیں

سٹیج پر کھڑی خاتون نے کرسٹل سے بنی بِکنی پہن رکھی ہے۔ اُن کی چمکدار جلد میں اُن کے مضبوظ مسلز (پٹھے) واضح ہیں جو جِم میں گھنٹوں وزن اٹھانے کی ورزش کا نتیجہ ہیں۔

رویا بہترین میک اپ اور سنہرے رنگت کے بالوں کے ساتھ سٹیج پر آئیں۔

یہ تصور کرنا مشکل لگتا ہے کہ یہ خاتون محض 15 برس قبل افغانستان کی ایسی ماں تھیں جن کی کم عمری میں شادی کر دی گئی تھی۔

اب رویا کریمی کی عمر 30 برس ہے اور اُن کا شمار یورپ کی بہترین باڈی بلڈرز میں ہوتا ہے۔ وہ رواں ہفتے ہونے والی ورلڈ باڈی بلڈنگ چیمپیئن شپ میں بھی حصہ بھی لے رہی ہیں۔

رویا کا یہ سفر زیادہ پرانا نہیں بلکہ صرف دو برس قبل ہی انھوں نے پیشہ ورانہ باڈی بلڈنگ شروع کی ہے اور جب جب وہ اپنی والدہ اور بیٹے کے ساتھ ایک نئی زندگی کی تلاش میں افغانستان سے فرار ہو رہی تھیں تو یہ سب ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

افغانستان سے نکلنے کے بعد انھوں نے ناروے میں پناہ لی، اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا،اپنی تعلیم جاری رکھی اور نرس بن گئیں۔ اسی دوران اُن کی اپنے موجودہ شوہر سے ملاقات ہوئی جو خود بھی ایک باڈی بلڈر ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ باڈی بلڈنگ نے انھیں ذہنی اور سماجی حدووں سے آزاد ہونے میں مدد دی، جو اُن پر گذشتہ کئی برسوں سے مسلط کی گئی تھی۔

رویا کریمی نے بی بی سی افغان سروس کو بتایا کہ ’میں جب بھی جم جاتی ہوں تو یاد کرتی ہوں کہ ایک ایسا بھی وقت تھا جب افغانستان میں مجھے ورزش کرنے کی اجازت تک نہیں تھی۔‘

رویا
BBC
رویا اب 30 برس کی ہیں اور اُن کا شمار یورپ کی بہترین باڈی بلڈرز میں ہوتا ہے

رویا کی زندگی کی کہانی روایات کے خلاف لڑنے، اپنی شناخت بنانے اور اپنے آبائی ملک کی خواتین کو متاثر کرنے کی کوشش ہے، جنھیں افغانستان میں بڑے پیمانے پر پابندیوں کا سامنا ہے۔

جب رویا کریمی افغانستان میں رہتی تھیں تو یہ پابندیاں تب بھی موجود تھیں لیکن سنہ 2021 میں طالبان کی واپسی کے بعد صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔

اب افغانستان میں 12 برس سے بڑی عمر کی لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں، خواتین بغیر مرد کے لمبا سفر نہیں کر سکتی ہیں اور عوامی مقامات پر اونچی آواز میں بات بھی نہیں کر سکتی ہیں۔

رویا کہتی ہیں کہ ’میں خوش قسمت تھی کہ وہاں سے نکل آئی، لیکن وہاں بہت سی خواتین تعلیم جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ یہ بہت اُداس اور دل دکھانے والی بات ہے۔‘

مختلف مستقبل کی تلاش

رویا، باڈی بلڈنگ
BBC
رویا کا یہ سفر زیادہ پرانا نہیں بلکہ صرف دو برس قبل ہی انھوں نے پیشہ ورانہ طور پر باڈی بلڈنگ شروع کی

لیکن طالبان کی واپسی سے بہت برس قبل ہی رویا کریمی فیصلہ کر چکی تھیں کہ انھیں ’وہ زندگی نہیں چاہیے۔‘

سنہ 2011 میں اپنے شوہر کو چھوڑ کر افغانستان سے فرار ہونے کا اُن کا فیصلہ روایتی افغان معاشرے میں ایک عورت کے لیے بہت سے خطرات کو مول لینے کے مترادف ہے۔

رویا اس وقت کو یاد کرنا اور اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی ہیں۔

ناروے میں رویا کو مکمل طور پر ایک مختلف ماحول ملا۔ انھیں ایک نئے اور لبرل کلچر کو اپنانا پڑا، اپنے خاندان کی کفالت کے لیے نوکری ڈھونڈنا پڑی اور نارویجیئن زبان سیکھنا پڑی۔

شروع شروع کے دنوں میں انھیں یہ سب بہت مشکل لگا لیکن پھر ان کی محنت رنگ لے آئی۔

رویا نے نرسنگ کی تعلیم حاصل کی اور دارالحکومت اوسلو کے ایک ہسپتال میں کام کرنے لگیں۔

باڈی بلڈنگ سے متعارف ہونے کے بعد ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ جم جانا صرف جسمانی ورزش کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کے ذریعے انھوں نے اپنا اعمتاد بحال کیا اور خود کو پہچانا۔

جم میں ہی ان کی اپنے موجودہ شوہر سے ملاقات ہوئی، جو افغان شہری ہیں۔

ان کے شوہر کمال جلال الدین عرصہ دراز سے باڈی بلڈنگ کر رہے ہیں اور رویا کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں۔

رویا کہتی ہیں کہ ’کمال کو ملنے سے پہلے میں سپورٹس کر رہی تھی لیکن پیشہ ورانہ سطح پر نہیں۔ کمال کی حمایت نے مجھے ایک مسابقتی اور ممنوعہ راستے کا انتخاب کرنے کی ہمت دی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی مرد عورت کے ساتھ کھڑا ہو تو حیرت انگیز چیزیں ہو سکتی ہیں۔‘

جان سے مارنے کی دھمکیاں

کمال جلال الدین عرصہ دراز سے باڈی بلڈنگ کر رہے ہیں اور رویا کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں
BBC
کمال جلال الدین عرصہ دراز سے باڈی بلڈنگ کر رہے ہیں اور رویا کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں

صرف 18 ماہ قبل رویا نے اپنا نرسنگ کریئر چھوڑنے اور باڈی بلڈنگ کو بطور پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ خطرناک فیصلہ تھا حالانکہ اُن کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملازمت تبدیل کرنا نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ فیصلہ افغانستان میں پابندیوں کے بعد آزادی کو اپنانے کے بارے میں تھا۔

رویا کہتی ہیں کہ ’سب سے بڑا چیلنج ان حدوں کو توڑنا تھا جو دوسروں نے ہمارے لیے مقرر کی تھیں، وہ غیر تحریری اصول جو ہم پر روایت، ثقافت، مذہب یا کسی بھی چیز کے نام پر مسلط کیے گئے تھے، لیکن جب آپ خود کو دوبارہ ترتیب کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کو اپنے آپ کو اس فریم ورک سے آزاد کرانا ہو گا۔‘

لیکن اس فیصلے کے بعد انھیں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

سٹیج پر بکنی پہننا، کُھلے بال اور بہت زیادہ میک اُن سماجی اصولوں اور پابندیوں سے میلوں دور کی بات ہے، جو خواتین کو ایک خاص طرز کا لباس پہننے اور انداز اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔

یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ رویا کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور تشدد کے ساتھ ساتھ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملیں۔

رویا نے ان تبصروں پر دھیان نہیں دیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’لوگوں کو صرف میری ظاہری شکل و صورت اور بکنی نظر آتی ہے لیکن اس کے پیچھے برسوں کی مصیبتیں، کوشش اور صبر ہے۔ یہ کامیابی اتنی آسانی سے نہیں ملی۔‘

رویا سوشل میڈیا کا استعمال کر کے افغانستان میں خواتین سے بات کرتی ہیں اور انھیں جسمانی صحت کی اہمیت، خود اعتمادی اور ذاتی شناخت کے بارے میں بتاتی ہیں۔

اب رویا ورلڈ باڈی بلڈنگ چیمپیئن شپ میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہیں جو آج (جمعرات) سے سپین کے شہر بارسلونا میں شروع ہو رہی ہے۔

گذشتہ برس اپریل میں رویا نے ’سٹاپریٹ اوپن باڈی بلڈنگ‘ کے مقابلے میں سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

اس کامیابی کے بعد مشہور ’ناروے کلاسک 2025‘ میں بھی انھوں نے کامیابی حاصل کی، اس مقابلے میں سکینڈینیویا بھر سے کھلاڑی شرکت کرتے ہیں۔

رویا کہتی ہیں کہ ’مجھے بہت خوشی اور فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ سفر انتہائی مشکل رہا لیکن آہستہ آہستہ مجھے گولڈ میڈل ملتے گئے۔‘

ان کا بیٹا اور شوہر ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کمال کہتے ہیں کہ ’رویا کو سٹیج پر دیکھنا اس خواب کی تکمیل تھا جو ہم دنوں نے ساتھ دیکھا تھا۔‘

لیکن رویا کے لیے خاص طور پر یہ مقابلہ صرف اپنے اور خاندان کے لیے نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں ذہنی طور پر خود کو بہت طاقتور محسوس کرتی ہوں اور اپنا سب کچھ دینے کے لیے پوری طرح تیار ہوں۔ مجھے امید ہے کہ افغان لڑکیوں اور خواتین کے نام یہ ریکارڈ بنا کر میں تاریخ رقم کروں گی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US