ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ خواتین نے اپنی توانائی کا بڑا حصہ اپنے خلیوں کی مضبوطی کے بجائے زچگی پر لگا دیا جس کی وجہ سے اُن میں بیماریوں کے خطرات بڑھ گئے۔ لیکن قحط سے پہلے یا بعد میں بچے پیدا کرنے والی خواتین میں زندگی کی طوالت پر کوئی اثر نہیں دیکھا گیا۔
بعض تاریخی ریکارڈز اور تحقیقاتی مقالے ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ خواتین نے ہر بچے کی پیدائش پر اپنی زندگی کے چھ ماہ کھو دیےتاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ ہر بچے کو جنمدینے پر کچھ خواتین کی عمر چھ ماہ کمہو جاتی ہے۔ خاص طور پر سخت اور مشکل حالات میں زندگی گزارنے والی خواتین میں یہ شرح زیادہ ہے۔
انسانی ارتقا پر ریسرچ کرنے والے محققین نے سنہ 1866 سے 1868 کے دوران گریٹ فن لینڈ میں آنے والے قحط کے دوران چار ہزار 684 خواتین کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی۔
نیدرلینڈز کی یونیورسٹی آف گروننگن سے تعلق رکھنے والے اس مطالعے کے سرکردہ محقق ڈاکٹر یوان ینگ بتاتے ہیں کہ یہ ’حالیہ یورپی تاریخ کے سب سے ہولناک قحط‘ میں سے ایک تھا۔
ڈاکٹر ینگ اور اُن کی ٹیم کے ارکان پروفیسر ہننا ڈگڈیل، پروفیسر ویرپی لوما اور ڈاکٹر ایرک پوسٹماکو معلوم ہوا کہ قحط کے دوران ہر بچے کی پیدائش پر وہاں خواتین کی متوقع عمر میں چھ ماہ کی کمی آئی۔
ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ خواتین نے اپنی توانائی کا بڑا حصہ اپنے خلیوں کی مضبوطی کے بجائے زچگی پر لگا دیا جس کی وجہ سے اُن میں بیماریوں کے خطرات بڑھ گئے۔ لیکن قحط سے پہلے یا بعد میں بچے پیدا کرنے والی خواتین میں زندگی کی طوالت پر کوئی اثر نہیں دیکھا گیا۔
ڈاکٹر ینگ کہتے ہیں کہ ’ہمیہ توازن صرف ان خواتین میں دیکھتے ہیں جو اپنی تولیدی عمر میں تھیں جب قحط آیا۔‘
اُن کے بقول یہ ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کے بچے پیدا کرنے کے برسوں میں ماحول ایک اہم عنصر تھا۔
بچوں کی پیدائش کے طویل مدتی صحت پر اثرات سخت ماحول میں مزید زیادہ ہو جاتے ہیںکیا بچے پیدا کرنے کا اثر عمر پر پڑتا ہے؟
ایک وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ بچوں کی پیدائش کے طویل مدتی صحت پر اثرات سخت ماحول میں مزید زیادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ بات طویل عرصے سے معلوم ہے کہ مائیں دل اور میٹابولک بیماریوں کے زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں، جزوی طور پر وزن بڑھنے اور جسمانی دباؤ کی وجہ سے۔
ڈاکٹر ینگ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ بھی ممکن ہے کہ بچوں کی پرورش، دودھ پلانے اور حمل کے دوران وسائل کی کمی ماؤں میں بیماریوں کے خطرے کو بڑھا دے۔‘
اُن کے بقول حمل اور دودھ پلانا بہت زیادہ توانائی لیتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ قحط کے دوران ماں کے پاس جسمانی افعال کو برقرار رکھنے کے لیے اور بھی کم توانائی ہوتی ہے، جو بعد میں بیماریوں سے بچاتی ہے۔
اولاد اور عمر کا ’توازن‘
ڈاکٹر ینگ کی تحقیق کے مطابق یہ نتائج ان خواتین میں زیادہ نمایاں تھے جن کے زیادہ بچے تھے، لیکن تمام خواتین یکساں متاثر نہیں ہوئیں۔
اُن کے بقول یہ ایسی صورت میں ہو سکتا ہے، جب خواتین بہت زیادہ بچے پیدا کر رہی ہوں یا یہ قحط کے دوران ہوا ہو۔
2023 میں، سوڈان میں خواتین نے اوسطاً 4.32 بچے پیدا کیے — اگلے سال ملک کے کچھ حصوں میں قحط کی حالت کا اعلان کیا گیاکیا جدید دور کی خواتین بھی اسی طرح متاثر ہوتی ہیں؟
لیکن کیا 200 سال پہلے کی خواتین سے حاصل شدہ نتائج 21ویں صدی کی ماؤں پر لاگو ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹر ینگ کہتے ہیں: ’یہ ضروری ہے کہ ہم اسے اس تاریخی دور کے تناظر میں دیکھیں جہاں جدید صحت کی سہولیات اتنی مضبوط نہیں تھیں۔ اس دور میں خواتین اوسطاً چار یا پانچ بچے پیدا کر رہی تھیں، جو آج کے دور سے کہیں زیادہ ہیں۔‘
19 ویں صدی کے بعد سے دنیا بھر میں خاندانوں میں بچوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔
سنہ 2023 میں اوسطاً ایک عورت نے صرف دو سے کچھ زیادہ بچے پیدا کیے۔ یہ تبدیلی تعلیم، کام کی جگہ اور مانع حمل تک بڑھتی رسائی اور بچوں کی اموات کی شرح میں کمی کی وجہ سے آئی۔
لیکن کچھ ممالک بشمول نائجر، چاڈ، صومالیہ اور جنوبی سوڈان میں خواتین اب بھی عام طور پر کم از کم چار بچے پیدا کرتی ہیں۔
گذشتہ برس سوڈان اور غزہ کے کچھحصوں میں اقوامِ متحدہنے قحط کا اعلان کیا تھا۔
گذشتہ برس سوڈان اور غزہ کے کچھ حصوں میں قحط کا اعلان اقوام متحدہ کے تعاون سے چلنے والے ادارے، انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن، نے کیا۔
ڈاکٹر ینگ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، لیکن یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ نتائج آج بھی دنیا کے کچھ حصوں میں لاگو ہو سکتے ہیں۔