ہہار کے انتخابات میںسیاسی بحث کے دوران ’گوبھی کی کاشت‘ کے مسئلے نے اس خوفناک فساد کی یادیں تازہ کر دی ہیں جس نے اس علاقے میں مساوات کو یکسر تبدیل کر دیا۔بہار میں کئی دنوں تک جاری رہنے والے فسادات میں سب سے ہولناک واقعہ لوگان گاؤں میں ہونے والا قتل عام تھا۔
فسادات سے تباہ بھاگلپور کا منظر انتباہ: (اس رپورٹ میں شامل کچھ تفصیلات بعض قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں)
انڈیا کے صوبہ بہار کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے مکمل نتائج کا ابھی اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ لیکن اس بات کے واضح اشارے مل رہے تھے کہ بی جے پی کی قیادت میں بننے والا این ڈی اے اتحاد الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر رہا ہے۔
اسی روز دوپہر میں ریاست آسام میں بی جے پی کے ایک وزیر اشوک سنگھل نے اپنے ایکس کے اکاؤنٹ پر گوبھی کے کھیت کی تصویر شئیر کی اور لکھا کہ ’بہار نے گوبی فارمنگ منظور کر لی۔‘
سبزی کی اس کاشت اور بہار کے انتخابی نتائج کے درمیان جو تعلق بنایا گیا کہ اس نے کئی افراد کے لیے 35 سال قبل ہونے والے بھاگلپور کے پرتشدد فسادات کی یاد تازہ کر دی۔
اشوک سنگھل کی پوسٹ پر تنقید کرتے ہوئے آسام پردیش کانگریس پارٹی کے صدر گورو گوگوئی نے سوشل میڈیاسائٹ ایکس پر لکھا کہ ’بہار کے انتخابی نتائج کے بعد آسام میں ایک موجودہ وزیر کی طرف سے ’گوبھی فارمنگ‘ کی تصویر کا بطورِ سیاسی اشارے کے استعمال چونکا دینے کی حد تک کمتر بات ہے اور یہ ’فحش اور شرمناک ہے‘
انھوںنے یہ بھی لکھا کہ ’کسی سانحے کو اس طرح سے پیش کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ کچھ لوگ عوامی سطح پر کس حد تک گرنے کو تیار ہیں۔‘
اس سیاسی بحث کے دوران ’گوبھی کی کاشت‘ کے مسئلے نے ایک خوفناک فساد کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ کئی دنوں تک جاری رہنے والے ان فسادات میں سب سے ہولناک واقعہ لوگان گاؤں میں ہونے والا قتل عام تھا۔
اس گاؤں کے مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور پھر لاشوں کو چھپانے کے لیے ان پر گوبھی اور بند گوبھی کاشت کی گئی۔ فسادات کے تقریباً ایک ماہ بعد وہاں سے 116 لاشیں ملیں۔
اس سے قبل بھی ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دینے والے کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم مسلمان مخالف جذبات پھیلانے کے لیے گوبھی کی کاشت پر بات کرتے رہے ہیں۔
بی بی سی ہندی نے 12 مئی 2005 کو فسادات پر مبنی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ انفسادات میں 1,981 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ہلاکتوں کی یہ تعداد ان پرتشدد فسادات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے بعد سامنے آئیں تھی۔
اس وقت وشو ہندو پریشد نے رام مندر کی تعمیر کے لیے ’شری رام‘ سے کندہ اینٹ جسے ’رام شیلا‘ کہا جاتا ہے، کو ملک بھر سے ایودھیا لے جانے کے لیے جلوس نکالنے کا مطالبہ کیا۔
جھڑپ اس وقت شروع ہوئی جب ہندو تنظیم کا رام شیلا جلوس بھاگلپور کے مسلم اکثریتی علاقے سے گزرا۔ اب یہ علاقہ کئی قصبوں اور دیہات میں پھیل چکا ہے۔
فسادات سے تباہ شدہ بھاگلپورکی ایکپرانی تصویرلوگان کے دیہات میں قتلِ عام
یہ 27 اکتوبر 1989 کی تاریخ تھی۔ تین دن پہلے ہی سےہندو مسلم فسادات بھاگلپور شہر اور دیہی علاقوں میں پھیل چکے تھے۔
شہر سے 20 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے گاؤں لوگان میں 35 مسلمان گھرانے تھے۔ رات گئے بلوائیوں نے محلے کو گھیرے میں لے لیا۔
اس رات گاؤں کے 55 مردوں اور 61 خواتین کو گلے میں پھندا ڈال کر مار دیا گیا اور ان کی لاشیں تالاب میں پھینک دی گئیں۔
تقریباً 18 سال بعد بھاگلپور کی عدالت نے پرتشدد حملہ آوروں کو سزائیں سنائیں۔ اس فہرست میں مقامی جگدیش پور پولیس سٹیشن کے ایک اہلکار رام چندر سنگھ کا نام بھی شامل ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق وہ پرتشدد حملہ آوروں کی قیادت کر رہے تھے۔
جتیندر نارائن دربھنگہ، للت نارائن متیلا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے کئی سال تک بہار کے فسادات کا مطالعہ کیا۔ بھاگلپور فسادات کے بارے میں انھوں نے اپنے تحقیقی مقالے میں لوگان میں ہونے والے قتل عام کی تفصیلات بیان کیں ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ ’اس کو محلے کو پہلے ہی تاک لیا گیا تھا۔ مسلح حملہ آوروں نے گاؤں کے بے گناہ مکینوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور انھیں حراست میں لے لیا۔ انھوں نے پہلے لوٹ مار کی اور گھروں کو مسمار کر دیا۔ حملہ آور لاشیں قریبی تالاب میں پھینک کر فرار ہو گئے۔‘
لیکن مظالم کا سلسلہ نہیں تھما۔
ماضی میں بی بی سی سے وابستہ صحافی اور بہار کے نامہ نگار مانیکانت ٹھاکر نے بھاگلپور فسادات کے دوران پٹنہ سے ’جندیش‘ نامی اخبار شائع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگان قتل عام پر اُس وقت کافی شور مچا، اس لیے نہیں کہ اس میں کئی افراد ہلاک ہوئے تھے بلکہ اس لیے کہ یہ بہت ہولناک تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میں خود جائے وقوعہ پر نہیں گیا تھا لیکن وہاں موجود ہمارے رپورٹرز نے جو اطلاعات اور تصاویر بھیجیں تھیں وہ چونکا دینے والی تھیں۔ اس قتل عام کے شواہد کو مٹانے کے لیے لاشوں کو تالاب میں پھینک دیا گیا اور بعد میں انھیں اٹھا کر زمین میں دفنا دیا گیا اور اُن کے اوپر گوبھی کے بیج بو دیے گئے۔‘
لاشوں کو کھیت میں دفنا کر سبزی لگا دی گئی
جیتندر نارائن اپنے تحقیقی مقالے میں لکھاکہ 29 تاریخ کی رات دیر گئےمقامی پولیس سٹیشن کی نگرانی میں تالاب سے لاشیں نکالی گئیں اور قریبی ہی ایک کھیت میں دفن کر دی گئیں۔
محقق جتیندر نارائن نے لکھا کہ اگلے دن 30 اکتوبر کو کسانوں کو لایا گیااور زمین میں گوبھی اور سرسوں کے بیج بو دیے گئے۔ چند ہفتوں بعد جب تحقیقات شروع ہوئیں تو لاشوں کے ڈھیر کے اوپر موسمِ سرما کینئی سبزیاں اُگ آئیں تھیں۔
اس واقعے کے تقریباً 19 سال بعد 2008 میں انڈیا کے روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ نے لوگانواقعے پر ایک تفصیلی رپورٹ شائعی۔ انھوں نے اپنی رپورٹ میں سانحے میں زندہ بچ جانے والی مقامی خاتون سکینہ بی بی سے بات کی۔
سکینہ بی بی نے ’ہندوستان ٹائمز‘ کو بتایا کہ ’ہمارے ہندو پڑوسی ایسا کچھ کر سکتے تھے یہ ہمارے لیے ناقابل یقین تھا۔لوگان کے اردگرد اُگائی جانے والی سبزیوں سے اب بھی لاشوں کی طرح بدبو آتی ہے۔‘
29 اکتوبر کو لوگان گاؤں کے ایک چوکیدار کے بیان کی بنیاد پر پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر درج کروائی گئی اور خیال یہی کہ یہایف آئی آر ہی ممکنہ طور پر لاشیں چھپانے کی وجہ بنی۔
تاہم ان فسادات کے 18 سال کے بعد بھاگلپور کی ایک عدالت نے 14 لوگوں کو مجرم قرار دیا، ان افراد میں گاؤں کے چوکیدار اور پولیس سٹیشن او سی بھی شامل تھے۔
18 جون 2007 کو شائع ہونے والے عدالتی فیصلے پر ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں نامہ نگار ابھیجیت بسواس نے تفصیل سے لکھا کہ قتل عام کے 25 دن بعد لاشیں کیسے ملی تھیں۔
انھوں نے لکھا کہ ’21 نومبر 1989 کو اس وقت کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے قریبی گاؤں بابرہ کے علاقے کا دورہ کیا۔ انھوں نے 22 نومبر کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو رپورٹ پیش کی۔ اس کے بعد انڈین سول سروس کے آفسر سنتوش میتھیو کو واقعہ کی تحقیقات کرنے کی ہدایت دی گئیں۔‘
اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’تحقیقاتی افسر نے یکم دسمبر 1989 کو رپورٹ جمع کرائی۔ مزید کارروائی کرنے کے لیے اس تحقیقاتی رپورٹ کو اُس وقت کےڈپٹی انسپکٹر جنرل اجیت دتہ کو بھیجا گیا۔ جس کے بعد تین دسمبر 1989 کو گاؤں کے رہائشی عذرف علی کے بیان کی بنیاد پر ایک نئی ایف آئی آر درج کی گئی۔‘
ان فسادات میں زندہ بچ جانے والی ملکہ بیگم نے بی بی سی کو ہولناک رات کی تفصیلات سے آگاہ کیا’تالاب میں لاشوں کے ساتھ وقت گزرا‘
لوگان کے قریب ایک اور گاؤں چاندہیری میں بھی کم از کم 60 مسلمان مارے گئے۔ مرنے والوں میں ضعیف افراد، خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
ملکہ بیگم اُس وقت14 سال کی تھیں۔ وہ ان حملوں میں زندہ تو بچ گئیں لیکن حملہ آوروں نے تلوار سے اُن کے دونوں پیر کاٹ دیے تھے۔
2017 میں بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے خوفناک رات کی تفصیلات بیان کیں۔
یہ 27 اکتوبر جمعے کا دن تھا۔ محقق جتیندر نارائن کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ گاؤں میں ایک نئی مسجد کے معاملے پر مسلمانوں اور مقامی ہندوؤں کے درمیان پہلے ہی تنازع چل رہا تھا۔
ملکہ بیگم نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد جانے سے روکا گیا اور اسی پر مسلمان اور ہندوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی۔ دونوں نے پہلے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا اور پھر پٹاخے پھینکے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’اسی بھاگ دوڑ میں دو افراد تلواروں کے وار سے ہلاک ہو گئے۔ ہم سب نے ’منت چاچا‘ کے گھر میں پناہ لے لی، اسی دوران جو خالی مکان ہم چھوڑ کر آئے تھے ان میں توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگا دی گی گئی۔بھاگم دوڑ اور جوابی فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ رات نو یا دس بجے کے قریب پولیس آئی تاہم میں نے جو کچھ ہوا تھا اس پر پولیس والوں کو آگاہ کیا لیکن انھوں نے کچھ نہ کیا اور دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔‘
ان کے ’منت چاچا‘ کے گھر پناہ لینے کا واقعہ بھی محقق جتیندر نارائن کی تحریروں میں شامل ہے۔
ملکہ بیگم نے بتایا کہ اس کے بعد کئی راتوں تک’فوجی‘ وہاں آتے تھے اور پہلے تو ان کا خیال تھا کہ فوجی وردیوں میں ملبوس افراد بھی لوٹ مار کے لیے آئے ہیں لیکن پھر ان لوگوں نے یقین دلایا کہ وہ گاؤں کے لوگوں کو بچانے آئے ہیں۔
مختلف میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ بھاگلپور فسادات کے فوراً بعد اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے علاقے کا دورہ کیا اور فوج کو تعینات کرنے کا حکم دیا۔ فسادات پر قابو پانے کے لیے فوج کے ساتھ سینٹرل ریزرو پولیس فورس اور بی ایس ایف کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ پھر ’فوجی‘ بھی گاؤں سے چلے گئے۔
ملکہ بیگم نے بتایا کہ ’پھر تین چار بجے کے قریب، کچھ اور لوگ آئے۔ انھوں نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ ہمیں کسی محفوظ جگہ پر لے جائیں گے۔ہمیں گھر سے باہر نکالا اور آگے پیچھے مرد تھے اور درمیان میں عورتیں اور بچے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ گھر سے دس قدم باہر نکلتے ہی انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا اور اسلحہ سڑک کے کنارے چھپایا گیا تھا۔
ملکہ بیگم کے مطابق ’وہ کسی کو سامنے سے کاٹ رہے تھے تو کسی کو پیچھے سے۔ ہم اُن میں گھیرے ہوئے تھےاور بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں تھی کیونکہ ایک طرف گھر تھے، دوسری طرف تالاب تھا۔ انھوں نے بچوں کو ان کی ماؤں کی گودوں سے چھین کر مار ڈالا۔ میں نے کسی طرح پانی میں چھلانگ لگا دی اور پھر تلوار میری دائیں ٹانگ پر لگی۔‘
ملکہ بیگم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے والدین کو مرتے دیکھا۔
انھوں نے کہا کہ حملہ آور ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ پولیس آ رہی ہے اور وہ تالاب میں پھینکی گئی لاشوں کو ڈھانپ دیں، باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔
ملکہ بیگم نے بی بی سی کو اس خوفناک رات کے بارے میں بتایا کہ ’جب فوجی جا رہے تھے تو میں کسی طرح چلائی اور کہا کہگاڑی روکو۔ پھر وہ میری مدد کو لوٹے اور مجھے باہر نکلنے کو کہا۔ میری ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں، اس لیے میں باہر نہیں نکل سکتی تھی۔فوجی نے اپنی بندوق آگے کی اور میں نے اسے پکڑا اور باہر نکلی۔‘
1989 میں ہہار کے علاقے بھاگلپور میں ہونے والے فسادات میں سینکڑوں لوگ مارے گئے تھےرام شیلا کے جلوس اور فسادات کا آغاز
ایودھیا میں رام مندر کی تحریک ابھی شروع ہوئی تھی۔ اسی سال پالم پور کانفرنس میں بی جے پی نے رام مندر کی تعمیر کے مطالبے کی باضابطہ حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
دوسری طرف، وشو ہندو پریشد نے تحریک کو ملک کے مختلف حصوں میں پھیلانے کے لیے ’شری رام‘ کی کندہ اینٹوں کے ساتھہر گاؤں سے لوگوں کو ایودھیا آنے کی اپیل کی تھی۔ ان اینٹوں کو ’رام شیلا‘ کہا جاتا تھا۔
وشو ہندو پریشد نے انھیں ایودھیا میں جمعکرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا اور اس کے لیے 9 نومبر 1989 کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔
24 اکتوبر کو شہر سے ملحق بھاگلپور کے ناتھ نگر علاقے سے رام شیلا لے جانے والا جلوس نکلا تھا۔
محقق جتیندر نارائن لکھتے ہیں کہ ’تقریباً ایک ہزار لوگوں کے جلوس میں زیادہ تر خواتین تھیں۔ جلوس میں مسلم مخالف نعرے لگائے جا رہے تھے اور جلوس کی حفاظت پولیس کر رہی تھی۔ جیسے جیسے جلوس آگے بڑھتا گیا، پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔‘
’گذشتہ دن، ضلعی مجسٹریٹ اور پولیس سپریڈینینٹ سے ملاقات میں مسلم رہنماؤں نے وعدہ کیا تھا کہ جلوس کو پرامن طریقے سے گزرنے دیا جائے گا لیکنشرط صرف یہ تھی کہ جلوس سے کوئی نعرے بازی نہیں ہو گی۔‘
ضلعی مجسٹریٹ کا حوالہ دیتے ہوئے جتیندر نارائن نے لکھا کہ ’جب انھیں پتہ چلا کہ مسلمانوں نے جلوس کو روک دیا ہے تو وہ موقعے پر پہنچے لیکن جن مسلمان رہنماؤں سے گذشتہ روز اُن کی بات چیت ہوئی تھی وہ واقعہ والے دن کہیں نظر نہیں آئے۔‘
کچھ مزید وقت لینے کے لیے انھوں نے جلوس کے شرکا کو رفتار آہستہ کرنے اور متبادل روٹ اختیار کرنے کا مشورہ دیے جسے انھوں نے مسترد کر دیا۔
اس کے بعد مسئلے کو حل کرنے کا بس یہی ایک راستہ تھا کہ پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں جلوس کو نکالا جائے۔ اس لیے ضلع مجسٹریٹ اور پولیس افسر بھی وہاں موجود تھے۔
جتیندر نارائن نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حوالے سے لکھا کہ ’جیسے ہی جلوس ایک مسلمان سکول تک پہنچا، اچانک جلوس پر بم گرنے لگے۔ ہم سب بہت خوفزدہ ہو گئے۔‘
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ قریب ہی موجود نالے میں گر گئے اور پولیس افسر نے جیپ میں پناہ لی۔ پھر بھاگم دوڑ شروع ہو گئی۔ شرکا جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے اور پولیس نے فائرنگ شروع کر دی۔

سجاد علی اس واقعے کے عینی شاہد ہیں اور بعد میں وہ کانگریس کے ضلعی صدر بھی بنے۔
فسادات کا احوال بین کرتے ہوئے انھوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ’اس وقت بھگوت جھا آزاد کانگریس کے رکن پارلیمنٹ تھے، انھوں نے ہی مسلمانوں کو پیسے دیے تھے کہ وہ جلوس روکنے کی تیاری کریں۔ انھوں نے سوچا تھا کہ اگر کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو وہ روپے پیسے سے معاملات کو سنھبال لیں گے اور اس طرح انھیں مسلمانوں کے ووٹ مل سکیں گے لیکن حالات قابو میں نہیں رہے اور جلوس میں شامل بعض شرکا نے مسلمانوں کو مارنا شروع کر دیا۔ یہ قتلِ عام تین دن تک جاری رہا۔‘
جتیندر نارائن نے لکھا کہ پاربتی، لہاریٹولہ اور اردو بازار میں فسادات پھوٹ پڑے۔
اگلے دن یعنی 25 اکتوبر کو یہ واقعہ اور بھی ہولناک ہو گیا۔ بھاگلپور یونیورسٹی میں امتحانات کا آخری دن تھا۔
محقق جتیندر نارائن لکھتے ہیں کہ ’جب کچھ طالب علم، جن میں زیادہ تر ہندو تھے، تیار پور کے علاقے میں ایک لاج سے باہر نکل رہے تھے کہ ان میں سے ایک کو مسلم شرپسندوں نے اغوا کر لیا تھا اور غالباً اسے مار دیا گیا تھا۔ دوسرے پر چاقو کے وار کیے گئے تھے۔ ہسپتال لے جانے کے دوران طالب علم نے بتایا کہ انھیں لاج کے باہر گھیرا گیا تھا۔‘
’یہ تو واضح نہیں کہ اس واقعے میں کتنے طالب علم مارے گئے تھے لیکن جب یہ خبر ان طلبا کے گاؤں پہنچی تو یہ ہندو مسلم فسادات کو ہوا دینے کے لیے کافی تھی۔‘
بھاگلپور فسادات کے بہار کی نسلی مساوات پر اثرات
کانگریس لیڈر سجاد علی نے الزام عائد کیا کہ اس وقت کے کانگریس کے رکنِ پارلیمنٹ بھاگوت جھا آزاد نے بھاگلپور فسادات سے انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
دوسری طرف فسادات کے اہم ملزموں میں کامیشور یادو کا نام سامنے آیا۔
بی بی سی کے سابق ساتھی مانیکانت ٹھاکر نے بتایا کہ ’کامیشور یادو اور لالو پرساد یادو کا ایک تعلق ایک ہی ذات سے تھا اور فسادات میں اُن کانام بار بار آیا تھا لیکن لالو پرساد کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد انھیں سزادینے کے بجائےسونی پور کے مشہور میلے میں اُن کا استقبال کیا گیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ لالو پرساد یادو کی حکومت کے دوران بھاگلپور مقدمے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس واقعے کے بعد بہار کے مسلمانوں نےکانگریس کی حمایت چھوڑ دی اور بہار میں کانگریس کی کبھی بھی واپسی نہیں ہوئی۔ یہی سانحہ بہار میں کانگریس کی زبوں حالی کا سبب بنا۔
مانیکانت ٹھاکر کے مطابق ’ان فسادات نے بہار کی نسلی مساوات کو یکسر تبدیل کر دیا۔ نتیش کمار جب وزیراعلیٰ بنے تو انھوں نے دوبارہ کیس کی سماعت شروع کی۔ فسادات میں ملوث افراد کو سزا سنائی گئی لیکن بی جی پی کے خوف کے سبب مسلمانوں کی حمایت لالو پرساد یادو کے ساتھی ہی تھی۔ لالو کے پاس اپنی بھی کافی حمایت تھی۔ وہ مسلمانوں کو مارنے والے کامیشور یادو جیسے لوگوں کے لیے مسیحا بن گئے۔‘
وزیر اعلی کے طور پر، نتیش کمار نے نومبر 2005 میں بھاگلپور فسادات کی تحقیقات کے لیے جسٹس این این سنگھ کمیشن تشکیل دیا تھا۔ کمیشن نے 2015 میں اپنی 1000 صفحات پر مبنی رپورٹ پیش کی تھی۔ رپورٹ اسی سال بہار اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں فسادات کی ذمہ داری اُس وقت کیکانگریس حکومت، مقامی انتظامیہ اور پولیس پر عائد کی گئی۔
کامیشور یادو جنوری 2024 میں انتقال کر گئے۔ان کی مرنے کے تقریباً دو سال بعد آسام میں بی جے پی کے وزیر اشوک سنگھل نے ایک بار پھر بھاگلپور فسادات کا معاملہ اٹھایا۔
انھوں نے یاد کروایا ہے کہ بھاگلپور میں مسلمانوں کو کس طرح مارا گیا تھا۔ یہ وہ ہولناک یادیں ہیں جن کے ساتھ ملکہ بیگم آج بھی زندگی گزار رہی ہیں۔