کیا مچھلی کے سپرم سے تیار انجیکشن خوبصورت جلد کے لیے ’نیا معجزہ‘ ہیں؟

29 سالہ ایبے کو ٹراؤٹ مچھلی کا سپرم مکمل خالص حالت میں نہیں دیا جا رہا بلکہ ان کے چہرے کے نچلے حصے میں ٹراؤٹ یا سالمن کے سپرم سے نکالے گئے ڈی این اے کے ٹکڑے انجیکٹ کیے جا رہے ہیں جنھیں ’پولی نیوکلیوٹائیڈز‘ کا نام دیا گیا۔
 چہرے کی خوبصورتی کے لیے انجیکشن
BBC

میں نے ایک صحافی کے طور پر کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ میں کسی سے پوچھوں گا کہ ٹراؤٹ کا سپرم چہرے میں انجیکٹ کروانے پر انھیں کیسا محسوس ہوتا ہے۔

لیکن بہرحال وہ مرحلہ آن پہنچا جب میں اس سوال کا جوابایبے نامی خاتون سے پوچھنے لگا ہوں۔

ایبے وارنز مانچسٹر کے ایک حسن نکھارنے والے (ایستھیٹک) کلینک میں کالے رنگ کی ایک بڑی کرسی پر لیٹی ہوئی ہیں اور جب ایک چھوٹا سا کینولا نرمی سے ان کے گال میں چبھویا جاتا ہے تو وہ درد سے کراہتے ہوئے آواز نکالتی ہیں۔

میں واضح کر دوں کہ 29 سالہ ایبی کو ٹراؤٹ سپرم مکمل خالص حالت میں نہیں دیا جا رہا۔ ان کے چہرے کے نچلے حصے میںٹراؤٹ یا سالمن کے سپرم سے نکالے گئے ڈی این اے کے چھوٹے ٹکڑے، جنھیں ’پولی نیوکلیوٹائیڈز‘ کا نام دیا گیا ہے، انجیکٹ کیے جا رہے ہیں۔

مگر ایسا کیوں ہے؟ اس سوال سے پہلے یہاں دلچسپ بات جان لیں کہ ہمارا ڈی این اے مچھلی کے ڈی این اے سے کافی ملتا جلتا ہے۔

لہٰذا امید یہی ہے کہ ایبے کا جسم نہ صرف ان مچھلیوں کے ڈی این اے سے ٹھیک رہے گا بلکہ ان کی جلد کے خلیے بھی متحرک ہوں گے جو مزید کولیجن اور ایلاسٹن پیدا کریں گے۔

یاد رہے کہ کولیجن اور ایلاسٹن دونوں وہ پروٹینز ہیں جو ہماری جلد کی ساخت اور مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم سمجھے جاتے ہیں۔

ایبے کے لیے اس سارے عمل سے گزرنے کا مقصد اپنی جلد کو تازہ کرنا، اسے صحت مند رکھنا اور ان مہاسوں اور ان نشانات کا علاج کرنا ہے جن کے ساتھ وہ کئی سال سے رہ رہی ہیں۔

ایبے اپنے چہرے کی جلد کو جوان بنانے کے لیے انجیکشن لگوا رہی ہیں
BBC
ایبے اپنے چہرے کی جلد کو جوان بنانے کے لیے انجیکشن لگوا رہی ہیں

پولی نیوکلیوٹائیڈز کے علاج کو جلد کی حفاظت کے ’نئے معجزے‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور یہ طریقہ علاج برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں انتہائی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ کئی مشہور شخصیات نے اپنے ’سالمن سپرم فیشلز‘ کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔

اس سال کے شروع میں برطانوی پاپ سنگر چارلی ایکس سی ایکس نے اپنے 90 لاکھ سے زائد انسٹاگرام فالوورز کو بتایا کہ انھیں لگتا ہے کہ ’فلرز کا استعمال اب کافی حد تک ختم ہو گیا‘ اور ساتھ ہی انھوں نے وضاحت کی کہ خود انھوں نے بھی پولی نیوکلیوٹائیڈز (کے طریقہ علاج) کو اپنا لیا، جو کچھ حد تک ڈیپ وٹامنز کی طرح ہیں۔‘

تو کیا پولی نیوکلیوٹائیڈز جلد کی حفاظت کے طریقہ کار کو بدل رہے ہیں؟

سوزین مینز فیلڈ ’ڈرما فوکس‘ نامی ایستھیٹک کمپنی میں کام کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ’ہم بینجمن بٹن جیسے لمحات سے گزر رہے ہیں۔‘

ان کا اشارہ 2008 کی فلم کی طرف تھا جس میں ہالی ووڈ سٹار بریڈ پٹ نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا، جو وقت میں پیچھے کی جانب بڑھتا ہے اور یوں جب وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں ہوتا ہے تو اس وقت ان کی جلد بچے کی طرح ہوتی ہے۔

اگرچہ ایسا جادوئی اثر بہت کم ممکن ہے اور شاید تھوڑا پریشان کن بھی ہو تاہم مینزفیلڈ کہتی ہیں کہ پولی نیوکلیوٹائیڈز ری جنریٹو سکن کیئر( جلد کا مسائل سے پاک ہونا) کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

ایک نسبتا کم پیمانے پر کی جانے والی تحقیقی اور کلینیکل ٹرائلز سے پتہ چلتا ہے کہ پولی نیوکلیوٹائیڈز کا انجیکشن جلد کو جوان کر سکتا ہے، نہ صرف اسے صحت مند بنا سکتا ہے بلکہ باریک لکیروں، جھریوں اور زخموں کے نشانات کو بھی کم کر سکتا ہے۔

چھ سے نو ماہ بعد بوسٹر کی ضرورت

سوزین کے مطابق ’ہم جمالیات کی صنعت میں وہی سب کچھ استعمال کر کے جلد کو بہتر بنا رہے ہیں جو ہمارا جسم پہلے ہی کرتا رہا ہے۔ اسی لیے یہ اتنے خاص ہیں۔‘

تاہم اس سب کی قیمت بھی کافی زیادہ ہے۔

پولی نیوکلیوٹائیڈ انجیکشنز کا ایک سیشن 200 سے500 پاؤنڈز تک ہو سکتا ہے اور تجویز کیا جاتا ہے کہ آپ اس کے تین انجیکشنز مختلف دورانیے میں کروائیں۔

اس کے بعد کلینکس عام طور پر مشورہ دیتے ہیں کہ آپ کو ہر چھ سے نو ماہ بعد اس کا بوسٹر لگوانا چاہیے تاکہ آپ کی جلد کی صحت برقرار رہے۔

کلینک واپس آ کر ایبے کا علاج تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ کلینک سکن ایچ ڈی کی مالک ہیلینا ڈنک نے انھیں یقین دلایا ہے کہ اب ’صرف ایک جگہ باقی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ پولی نیوکلیوٹائیڈز کی مقبولیت گزشتہ 18 ماہ میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

’میرے آدھے کلائنٹس اس کے بعد واقعی بہت بڑا فرق محسوس کرتے ہیں۔ ان کی جلد زیادہ تروتازہ ، صحت مند اور لچکدار محسوس ہوتی ہے جبکہ باقی آدھے اتنی بڑی تبدیلی نہیں دیکھتے لیکن ان کی جلد زیادہ تروتازہ محسوس ہوتی ہے۔‘

ایبے کلینک میں تین کورسز کے علاج میں اپنی آنکھوں کے نیچے والے حصے پر یہ ٹریٹمنٹ کروا چکی ہیں جس کے نتائج سے بہت خوش ہیں۔

انھیں پولی نیوکلیوٹائیڈز کے بہت سے چھوٹے چھوٹے انجیکشن دیے گئے اور یہ سب ’کافی تکلیف دہ عمل‘ تھا تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس سے انھیں اپنی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے کم کرنے میں مدد ملی۔

سرخی، سوجن اور نیلاہٹ جیسے ضمنی اثرات

اگرچہ مختلف مطالعات میں اسے محفوظ اور مؤثر علاج سمجھا گیا تاہم اب بھی نسبتاً نئے ہونے کے باعث کچھ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ مقبولیت اس کے سائنسی اثرات سے کہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیے جانے کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔

آسٹریلیا کے کنسلٹنٹ ڈرماٹولوجسٹ ڈاکٹر جان پیگلیارو کہتے ہیں کہ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ نیوکلیوٹائیڈز ہمارے جسم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے ڈی این اے کے بنیادی اجزا سے مماثلت رکھتے ہیں تاہم وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ’سالمن ڈی این اے کو چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر چہرے میں پیوست کرنا ہمارے اپنے نیوکلیوٹائیڈز جتنا مؤثر ہوگا؟

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس اچھا اور کافی ڈیٹا نہیں۔ ایک طبی ماہر کے طور پر میں چاہوں گا کہ اپنی پریکٹس میں استعمال کرنے سے پہلے کم از کم چند سال مزید بڑے اور معتبر مطالعات دیکھوں جو اس کی حفاظت اور مؤثر ہونے کو ثابت کرتے ہوں۔ ہم ابھی وہاں نہیں پہنچے۔‘

شارلٹ بکلی پولی نیوکلیوٹائیڈز کی دنیا میں اپنے تجربے کو ’سالمون گیٹ‘ قرار دیتی ہیں۔

نیو یارک کی 31 سالہ خاتون نے پچھلے سال اپنی شادی کو خوبصورت اور یادگار بنانے کے حصے کے طور پر ایونٹ سے کچھ عرصے قبل یہ علاج کروایا تھا لیکن شارلٹ کو جلد کا انفیکشن، سوجن اور آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ہو گئے جو علاج سے پہلے نہیں تھے۔

’جیسا میں چاہتی تھی مجھے اس کے بالکل برعکس نتیجہ ملا۔ میں نے اس ڈاکٹر پر بھروسہ کیا تھا لیکن اس نے مجھے زخمی کر دیا۔‘

شارلٹ کا خیال ہے کہ انھیں آنکھوں کے نیچے بہت گہرائی میں انجیکشن دیا گیا تھا جس سے منفی ردعمل ہوا۔

یہ اس کے ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں جیسے سرخی، سوجن اور نیلاہٹ لیکن یہ عموماً عارضی ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق کچھ صورتوں میں لوگ اس سے الرجی کا شکار ہو سکتے ہیں یا اگر پولی نیوکلیوٹائیڈز کو صحیح طریقے سے انجیکٹ نہ کیا جائے تو جلد کی رنگت اور انفیکشن جیسے طویل مدتی خطرات بھی ہو سکتے ہیں۔

پولی نیوکلیوٹائیڈز کو پورے برطانیہ میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ میڈیکل ڈیوائسز کے طور پر میڈیسن ہیلتھ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (MHRA) کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں لیکن انھیں ادویات کی طرح ریگولیٹ نہیں کیا جاتا۔

انھیں امریکہ میں برطانیہ کے مساوی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے منظوری نہیں دی۔

شارلٹ کہتی ہیں کہ ’میں بس سوچتی رہتی ہوں کہ میں نے یہ سب کیوں کیا۔ جب میرے چہرے پر کچھ غلط ہوتا ہے تو میری پوری توجہ اس جانب ہو جاتی ہے۔‘

شارلٹ نے اس صورتحال کو درست کرنے کے لیے بے شمار علاج کروایا تاہم 10 ماہ گزرنے کے بعد بھی ان کی آنکھوں کے نیچے کچھ زخم باقی ہیں۔

’میں کبھی بھی اپنے چہرے میں سالمون ڈی این اے انجیکٹ نہیں کراؤں گی، کبھی بھی نہیں۔‘

کاسمیٹک انڈسٹری کی ریگولیشن کے لیے مہم چلانے اور برطانیہ میں حکومت سے منظور شدہ کلینکس کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے ’سیو فیس‘ کے ڈائریکٹرایشٹن کولنز کہتے ہیں کہ پولی نیوکلیوٹائیڈز کو عام طور پر ایک محفوظ علاج سمجھا جاتا ہے جب انھیں طبی تربیت یافتہ ماہر کے ذریعے دیا جائے اور پولی نیوکلیوٹائیڈز کا برانڈ ایک معتبر کمپنی سے لیا جاتا ہے۔

’لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسی مصنوعات مارکیٹ میں آ رہی ہیں جن کی صحیح جانچ نہیں ہوئی اور یہی باعث تشویش ہے۔‘

برٹش کالج آف ایستھیٹک میڈیسن کی صدر ڈاکٹر صوفی شاٹر بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں۔

’ضابطہ کاری کی کمی کی وجہ سے کوئی بھی ایسی مصنوعات استعمال کر سکتا ہے جن کی اچھی طرح جانچ نہیں ہوئی۔ یہ واقعی مسئلہ ہے۔‘

تو کیا پولی نیوکلیوٹائیڈز مؤثر ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر صوفی شاٹر کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس یہ میرے شیلف پر، میرے ٹول باکس میں ہیں۔ میں یقینی طور پر یہ کلائنٹس کو پیش کرتا ہوں جو قدرتی شکل چاہتے ہیں اور ممکنہ طور پر طویل مدتی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔‘

’پولی نیوکلیوٹائیڈز بطور علاج کوئی جادوئی حل نہیں۔ بہت سے دوسرے علاج بھی موجود ہیں جو اسی طرح کر سکتے ہیں اور ان کے پیچھے مزید ڈیٹا موجود ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ کوئی ایک ایسا علاج نہیں جو سب کے لیے کام کرے۔ ’ہم سب مختلف چیزوں پر مختلف ردعمل دیتے ہیں اور یہ ہمیشہ پیشگوئی کے قابل نہیں ہوتا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US