افغان طالبان ٹویوٹا کی گاڑیاں کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟

افغان طالبان نے نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے جاپان کی مشہور کار ساز کمپنی ٹویوٹا موٹرز سے رابطہ کیا ہے۔ ملک میں ٹویوٹا کی مقامی ڈیلرشپ ’حبیب گلزار موٹرز‘ کے پاس ہے۔
1975 میں بگرام ایئر بیس پر طالبان عسکریت پسند ٹویوٹا ہائیلکس گاڑی میں سوار ہیں
Getty Images
1975 میں بگرام ایئر بیس پر طالبان عسکریت پسند ٹویوٹا ہائیلکس گاڑی میں سوار ہیں

افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے آثار صدارتی محل یا وزارتوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ نئی حکومت کے آنے کے بعد سڑکوں پر مختف ماڈلز اور برانڈز بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

افغانستان میں ہمیشہ سے ہی اقتدار کی تبدیلی کا اثر فوجیوں کے زیرِ استعمال گاڑیوں پر پڑا ہے۔

ماضی میں افغانستان میں سوویت افواج اور امریکی افواج کی موجودگی اور اقتدار کی تبدیلی کے دوران ملک کی فوج نے گاڑیوں کے مختلف ماڈل استعمال کیے۔

اب افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت امریکی ساختہ رینجر گاڑیوں سے جان چھڑوا کر دوسرے ماڈلز کی گاڑیاں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

افغان طالبان نے نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے جاپان کی مشہور کار ساز کمپنی ٹویوٹا موٹرز سے رابطہ کیا ہے۔ ملک میں ٹویوٹا کی مقامی ڈیلرشپ ’حبیب گلزار موٹرز‘ کے پاس ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ طالبان حکومت نے گاڑیوں کے بارے میں اُن سے رابطہ کیا تھا لیکن اس سلسلے میں اُن کی درخواست کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

کمپنی کے ڈائریکٹر احمد شاکر عدیل نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان طالبان نے ٹویوٹا سے تقریباً دو ماہ قبل 27 ستمبر 2025 کو رابطہ کیا گیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان میں ٹویوٹا کی نمائندہ کمپنی ’بین الاقوامی اداروں، کچھ غیر سرکاری تنظیموں اور سفارتخانوں کو کاریں فروخت کرنے کی مجاز ہے۔‘

بی بی سی نے اُن سے پوچھا کہ کمپنی کی جانب سے طالبان کی درخواست پر انھوں نے کیا جواب دیا تو انھوں نے کہا کہ ’ہم نے انھیں منع کر دیا ہے۔‘

طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ نے امریکی کمپنی فورڈ کی تیار کردہ رینجر گاڑیوں کو تبدیل کر کے دوسری گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ اس کے بجائے کون سی گاڑیاں خریدیں گے۔

یہ سمجھا جا رہا تھا کہ جاپانی کمپنی ٹویوٹا کی گاڑیاں افغان طالبان کی آپشنز میں سے ایک ہیں۔

اس سے قبل عبوری حکومت کی وزراتِ داخلہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ گاڑیوں کے دوسرے ماڈل کے انتخاب کوابھی حتمی شکل نہیں دی گئی۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’دوسری گاڑیوں کی خریداری کے لیے کوئی بجٹ منظور نہیں کیا گیا ہے لیکن پولیس کا نیا یونیفارم ٹویوٹا کی ہائیلکس ماڈل کی گاڑی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔‘

سابقہ دور میں افغانستان کی پولیس امریکی کمپنی فورڈ کی تیار کردہ رینجر گاڑیاں استعمال کرتی تھی
Getty Images
سابقہ دور میں افغانستان کی پولیس امریکی کمپنی فورڈ کی تیار کردہ رینجر گاڑیاں استعمال کرتی تھی

افغانستان میں امریکی گاڑیوں کا دور ختم

افغانستان میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکہ اور مغربی افواج کی حمایت یافتہ حکومتیں بڑے پیمانے پر امریکی ساختہ رینجر گاڑیاں استعمال کرتی رہی ہیں۔

اے ایم ایس نامی امریکی کمپنی کے پاس افغانستان میں گاڑیوں کی مرمت و دیکھ بھال کا ٹھیکہ تھا۔ اس کمپنی کے سابق ملازم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان کے مخصوص حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے رینجر گاڑیاں بنائی گئی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ گاڑیوں کے زیادہ تر پارٹس تھائی لینڈ میں بنے اور پھر انھیں افغانستان لایا گیا۔

افغانستان میں فوج کی گاڑیوں کی مرمت اور دیکھ بھال کرنے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ انھوں نے 2017 سے 2021 کے دوران فوج اور پولیس کی ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ گاڑیوں کی مرمت کی۔

انھوں نے بتایا کہ اُن کی کمپنی کا امریکی حکومت کے ساتھ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کا معاہدہ تھا۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت سے قبل امریکی حکومت افغان فوج کی مالی مدد کرتی تھی۔

اے ایم ایس کمپنی کے سابق ملازم کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مقامی افراد ان گاڑیوں کی مرمت اور دیکھ بھال کر لیتے تھے لیکن اب اکثر لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ افغان طالبان اس لیے امریکی ساختہ گاڑیوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں ان کے پارٹس خریدنے میں دشواری کا سامنا ہے اور رینجر گاڑی کے پرزے بہت مہنگے ہیں۔ طالبان حکومت پر عالمی اقتصادی پابندیاں ہیں اور اس لیے وہ امریکی کمپنی فورڈ سے کوئی معاہدہ بھی نہیں کر سکتے۔

ٹویوٹا کپمنی کی جانب سے منفی جواب کے بعد یہ واضح نہیں ہے کہ افغان طالبان کی دوسری آپشن کیا ہو گی لیکن وہ مارکیٹ میں موجود گاڑیاں بھی خرید سکتے ہیں۔

افغانستان میں بڑی تعداد میں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد ہوتی ہیں جن میں زیادہ تر ٹویوٹا کی گاڑیاں ہیں اور زیادہ تر استعمال شدہ گاڑیاں دبئی اور ایران کے راستے سے منگوائی جاتی ہیں۔

خلیجی اور یورپی ممالک کے لیے ٹویوٹا کی ہائیلکس اور لینڈ کروزر کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

قندھار میں کار ڈیلرشپ پر ٹویوٹا کاروں کی قطار
BBC
قندھار میں کار ڈیلرشپ پر ٹویوٹا کاروں کی قطار

ملا عمر اور موٹر سائیکل: ’ہونڈا کا بہترین اشتہار‘

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اپنی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ میں ایک دلچسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’دسمبر 2001 کے پہلے ہفتے میں، ملا محمد عمر نے شکست محسوس کرتے ہوئے ہونڈا موٹر سائیکل پر چھلانگ لگائی اور فرار ہو گئے۔ جب جاپان کے وزیر اعظم نے مجھ سے پوچھا کہ ملا عمر کہاں ہیں تو میں نے انھیں کہا کہ وہ ہونڈا موٹر سائیکل پر سوار ہو کر بھاگ گئے۔

’میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ ہونڈا کے لیے بہترین اشتہار ہو گا کہ اگر ملا عمر ہونڈا پر سوار ہوں اور اُن کی داڑھی ہوا میں لہرا رہی ہو۔‘

افغان طالبان کے بانی ملا عمر موٹر سائیکل پر فرار ہوئے تھے یا گاڑی پر، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن دونوں صورتوں میں ان کی سواری جاپانی کمپنی کی ہی تھی۔

یاد رہے کہ اکتوبر 2012 میں طالبان نے کہا تھا کہ زابل صوبے میں ملبے کے ڈھیر سے ایک ٹویوٹا کمپنی کی گاڑی بھی برآمد ہوئی ہے۔

طالبان کا کہنا تھا کہ یہ وہی گاڑی ہے جس پر 2002 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ملا عمر قندھار سے نکلے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔

جاپانی ساختہ گاڑیوں اور طالبان عسکریت پسندوں کا تعلق تحریک کے ابتدائی دنوں میں شروع ہوا تھا اور مستقبل میں بھی اس کے جاری رہنے امکان ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی حکومت میں فوج روسی ساختہ گاڑیاں استعمال کرتی تھی
Getty Images
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی حکومت میں فوج روسی ساختہ گاڑیاں استعمال کرتی تھی

افغانستان میں فوجی ساز و سامان اور بیرونی امداد

گذشتہ نصف صدی سے افغانستان میں فوج کے زیر استعمال ساز و سامان کا براہ راست تعلق افغانستان میں سیاسی حالات اور بیرونی مداخلت سے رہا ہے۔

1978 سے 1992 تک جب کابل میں سوویت نواز حکومتیں اقتدار میں رہیں تو فوجی ساز و سامان جیسے روسی ٹرک کاماز سویت یونین اور افغانستان کے فوجی تعلقات کی واضح عکاس تھا۔

تاہم اس عرصے کے دوران جاپانی ساختہ گاڑیاں سوویت حمایت یافتہ حکومتوں کے خلاف اگلے مورچوں پر استعمال ہوئیں۔

یہی وہ وقت تھا جب افغان جنگ میں ٹویوٹا کی موجودگی کا آغاز ہوا۔ طالبان کے عروج اوراقتدار کے دوران ٹویوٹا سب سے زیادہ استعمال ہونے والی گاڑیوں میں سے ایک تھی۔

11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد جب امریکی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا اور وہاں ایک جمہوری نظام بنایا تو اس وقت افغانستان میں مغربی ممالک خصوصاً امریکہ موجودگی کا اندازہ وہاں موجود امریکی گاڑیوں سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔

اس عرصے کے دوران افغان فوج نے مختلف اقسام کی گاڑیاں استعمال کیں۔ گذشتہ دو دہائیوں میں امریکی کمپنی فورڈ کی تیار کردہ رینجر گاڑی افغان وزارت داخلہ میں استعمال ہونے والی سب سے اہم گاڑی تھی۔

جہاں اسلامی جمہوریہ افغانستان میں افواج امریکی ساختہ گاڑیاں چلاتے تھے وہیں اب افغان طالبان ہنڈا موٹر سائیکل اور ٹویوٹا کپمنی کی بنائی ہوئی فیلڈر گاڑی میں سفر کرتے ہیں۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کی پروپیگنڈا ویڈیو سے لی گئی تصویر
IS/ FILE
نام نہاد دولت اسلامیہ کی پروپیگنڈا ویڈیو سے لی گئی تصویر

افغان طالبان جاپانی گاڑیاں ہی کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟

نائن الیون حملوں کے دو ماہ بعد امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ ٹی وی فوٹیج میں طالبان کو لینڈ کروزر چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد جاپانی کمپنی ٹویوٹا نے ایک بیان جاری کیا کہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران افغانستان نے صرف ایک لینڈ کروزر قانونی طور پر برآمد کی ہے۔

کپمنی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’افغانستان میں موجود ٹویوٹا کی مصنوعات پڑوسی ممالک سے غیر سرکاری چینلز کے ذریعے منگوائی گئی ہیں۔‘ یعنی ان گاڑیوں کو سمگل کیا گیا تھا۔

اس معاملے پر ٹویوٹا کے عدم اطمینان کی وجہ اپنی مصنوعات کی طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے ساتھ وابستگی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ اب جب افغان طالبان اقتدار میں ہیں لیکن کمپنی نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے یا انھیں گاڑیاں بیچنے سے انکار کر دیا ہے۔

ٹویوٹا کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں اُن کا کوئی نمائندہ نہیں اور کمپنی وہاں گاڑیاں برآمد نہیں کرتی ہے۔‘

نیویارک ٹویوٹا کے ترجمان ویڈ ہوئٹ نے کہا کہ ’یہ ہماری مصنوعات کے لیے سب سے ناخوشگوار اشتہار ہے لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان بھی دوسرے کار خریداروں کی طرح قابلِ اعتماد اور پائیداری دو خصوصیات کی تلاش کرتے ہیں۔‘

اگر آپ نے دنیا بھر میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی پروپیگنڈا تصاویر اور ویڈیوز دیکھی ہیں تو آپ نے انھیں ٹویوٹا ہائیلکس ماڈلز کی گاڑی چلاتے ہوئے ضرور دیکھا ہو گا۔

اکتوبر 2014 میں جب شام اورعراق میں نام نہاد دولت اسلامیہ اپنے عروج پر تھی تو وہ اپنی کئی پروپیگنڈا ویڈیوز میں لینڈ کروزر اور ہائیلکس استعمال کرتے تھے۔

اس حوالے سے ٹویوٹا کمپنی نے انٹرنیٹ پر ایک خصوصی سوال و جواب کا صفحہ بنایا جس کا نام تھا ’جنگی علاقوں میں ٹویوٹا گاڑیوں کے استعمال پر رپورٹس۔‘

اس صفحے پر ٹویوٹا نے واضح کیا کہ ’ہم جس بھی ملک میں کام کرتے ہیں وہاں کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔کپمنی کی معلومات اور رضامندی کے بغیر فوجی استعمال کے لیے گاڑیوں کی فروخت ممنوع ہے۔‘

ٹویوٹا نے کہا تھا کہ ’مسلح گروہوں کے استعمال میں نظر آنے والی کمپنی کی گاڑیاں، ان ممالک میں غیر سرکاری یا سیکنڈ ہینڈ چینلز کے ذریعے سمگل کی گئی ہوتی ہیں۔‘

ٹویوٹا نے اصرار کیا ہے کہ وہ شام میں کاریں فروخت نہیں کرتے اور وہ لیبیا اور عراق میں اپنی مصنوعات صرف ان صارفین کو فروخت کرتے ہیں جن کی شناخت معلوم ہو۔

ٹویوٹا کے لیے یہ اتنا بڑا مسئلہ بنا کہ کچھ ممالک میں ٹویوٹا نے اپنے صارفین پر یہ شرائط عائد کیں کہ وہ گاڑیاں خریدنے کے بعد ایک سال تک کسی اور کو دوبارہ فروخت نہیں کر سکتے ہیں۔

ٹویوٹا کی جنگ

طاقتور انجن، پہاڑی، ریگستانی علاقوں، کچے پکے راستوں پر چلنے کی صلاحیت، کم ایندھن کا استعمال، سپیئر پارٹس کی دستیابی اور مختلف ہتھیاروں کو نصب کرنے کے لیے موجود جگہ۔۔۔

یہ سب وہ خصوصیات ہیں جنھوں نے اس کمپنی کی تیار کردہ گاڑیوں کو عسکریت پسندوں میں مقبول بنایا ہے۔

1977 میں چاڈ اور لیبیا کے درمیان جنگ چھڑ گئی تھی۔ یہ جنگ ’ٹویوٹا وار‘ کے نام سے مشہور ہوئی تھی۔

اس جنگ کو ٹویوٹا وار اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ کیونکہ تنازع میں ٹویوٹا پک اپ ٹرک (خاص طور پر ہائیلکس اور لینڈ کروزر) بڑے پیمانے پر استعمال ہوئے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US