زعفران کی کاشت انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے پامپور گاوٴں میں ہوتی ہے۔ یہ قصبہ ڈھلانوں والی زمین کے لیے مشہور ہے مگر اس سال یہ گاؤں مایوسی میں ڈوبا ہے۔
کشمیر کے کچھ کاشتکاروں نے زعفران کو ’گزرا ہوا کل‘ سمجھ کر نئی فصلوں کی طرف رُخ کر لیا ہےدُنیا کا سب سے بیش قیمتی مسالہ کہلانے والے زعفران کو ’کشمیری گولڈ‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ سونے اور زعفران کی قیمتیں تقریباً برابر ہوتی ہیں۔
روایتی طور پر زعفران کی کاشت انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے پامپور گاوٴں میں ہوتی ہے۔ یہ قصبہ ڈھلانوں والی زمین کے لیے مشہور ہے مگر اس سال یہ علاقہ مایوسی میں ڈوبا ہوا ہے۔
مسلسل کئی برسوں سے زعفران کی پیداوار میں کمی آ رہی تھی، مگر مقامی کاشتکاروں کے مطابق رواں سال پہلی بار 95 فیصد سے زائد فصل مکمل طور پر ناکام ہو گئی جس کی وجہ سے انھیں ’اربوں روپے کا نقصان‘ اُٹھانا پڑا ہے۔
جہاں زعفران کے بیشتر کاشتکار اس صورتحال کے باعث ذہنی تناوٴ اور مایوسی کا شکار ہیں، وہیں اس تاریک منظر میں امید کی چند کرنیں بھی نظر آ رہی ہیں۔
کچھ کاشتکاروں نے زعفران کو ’گزرا ہوا کل‘ سمجھ کر نئی فصلوں کی طرف رُخ کر لیا ہے۔
مقامی کاشتکاروں کے مطابق رواں سال پہلی بار 95 فیصد سے زائد زعفران کی فصل ناکام ہوئیپامپور کے معروف زمیندار حاجی بشیر احمد میر نے رواں برس مارچ ہی میں اپنے زعفران کے کھیتوں میں لیوینڈر کی کاشت شروع کر دی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کئی سال سے ہم سوچ رہے تھے کہ اب کیا کیا جائے۔ پھر لیوینڈر کا خیال آیا اور ہم نے تجربہ شروع کر دیا۔‘
اپنے لیوینڈر کے کھیتوں میں گھومتے ہوئے حاجی بشیر کہتے ہیں کہ زعفران کے مقابلے میں لیوینڈر سے تقریباً دگنا منافع متوقع ہے۔
حاجی بشیر احمد: ’کئی سال سے سوچ رہے تھے کہ اب کیا کیا جائے۔ پھر لیوینڈر کا خیال آیا اور ہم نے تجربہ شروع کر دیا‘حاجی بیشر کی بیٹی فردوسہ میر کہتی ہیں کہ انھیں زعفران کی فصل کی ناکامی سے گہری چوٹ پہنچی ہے۔
فردوسہ کہتی ہیں کہ ’زعفران ہماری پہچان تھا، ہماری کئی نسلیں زعفران کی کاشت کرتی رہی ہیں۔ لیکن بنجر زمینوں میں بیٹھ کر اُداس رہنے کی بجائے ہم نے نئے امکانات کی تلاش شروع کی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ لیوینڈر زعفران سے زیادہ منافع بخش فصل ہے اور ’اس کی وجہ یہ ہے کہ سال میں دو بار لیوینڈر کی فصل آتی ہے۔‘
فردوسہ کہتی ہیں کہ وجوہات جو بھی ہوں، ’ہمیں اب زعفران کے ساتھ جذباتی وابستگی کو خیرباد کہنا ہو گا۔ ہم زمینیں خالی نہیں رکھ سکتے، شکر ہے میرے والد نے ایک کامیاب تجربہ کیا۔‘
حکام نے زعفران کی کاشت میں کمی کے لیے موسمیاتی تبدیلی اور بارشوں کی کمی کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ تاہم کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ دہائی قبل ہی انڈین حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کے خدشے کو دیکھتے ہوئے ایک منصوبہ بنایا تھا لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا جس کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوئی۔
حاجی بشیر کہتے ہیں کہ ’چار سو کروڑ روپے کا ’زعفران مشن‘ بڑے زور و شور شروع کیا گیا تھا، یہاں عمارتیں تعمیر کی گئیں، سینچائی (فصل کو پانی دینا) کے جدید ترین نظام کے لیے پائپ بچھائے گئے۔۔۔ یہ سب ہونے کے باوجود سینچائی نہیں ہوئی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کلائمیٹ چینج بنیادی وجہ ہے لیکن حکام کو بھی ذمہ داری لینی ہو گی۔‘
حاجی بشیر بتاتے ہیں کہ محکمہ زراعت زعفران کے کاشتکاروں کو نئے تجربات کے لیے عملی تعاون فراہم رہا ہے تاکہ ان کا روزگار متاثر نہ ہو۔
ماضی میں زعفران کاشت کرنے والے شوکت احمد نے اپنے کھیتوں میں اب اٹلی سے منگائے گئے سیب کے ہائبرِڈ پودوں کی نرسری لگائی ہےصرف لیوینڈر ہی نہیں، پامپور کے کاشتکار یورپ سے ہائی ڈینسٹی سیب کے پودے بھی درآمد کر رہے ہیں۔
پامپور کے کاشتکار شوکت احمد نے اپنے کھیتوں میں اٹلی سے منگائے گئے ہائبرِڈ پودے منگوا کر سیب کی نرسری لگا دی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے یہ پودے مارچ میں لگائے تھے اور شکر ہے کہ اس سال یہ نمونے کی فصل دے رہے ہیں۔ اگلے سال سے یہ باقاعدہ فصل دیں گے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ان سیبوں کی قیمت عام سیبوں سے زیادہ ہے، اس لیے ہمیں زعفران کے مقابلے زیادہ منافع ہو گا۔‘

واضح رہے کشمیر میں زعفران مقامی ثقافت کا بھی اہم حصہ ہے۔ زعفرانی قہوہ یہاں کی خاص ضیافت ہے جبکہ سردیوں میں زعفرانی ہریسہ پورے ہندوستان میں مشہور ہے۔
کشمیر میں ہر سال انڈیا کے کونے کونے سے لاکھوں سیاح سیر کے لیے آتے ہیں۔ کوئی اور چیز وہ خریدیں نہ خریدیں لیکن زعفران خریدنا اُن کی پہلی ترجیح ہوتا ہے۔
تاہم گذشتہ بہت عرصے سے زعفران کی فصل میں گراوٹ کی وجہ سے اس کے دام بھی بڑھ چکے ہیں اور اب بہت کم مقدار میں کشمیری زعفران برآمد ہوتا ہے۔
دنیا میں ایران واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ زعفران اُگتا ہے۔ 700 سال قبل ایرانی اور وسط ایشیائی اسلامی مبلغین نے کشمیر میں زعفران کی کاشت کو متعارف کرایا تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ متعدل موسم اور بہتر آب و ہوا کی وجہ سے کشمیری زعفران عالمی سطح پر ایرانی زعفران کا مقابلہ کرتا رہا ہے اور اونچے داموں بِکتا رہا ہے تاہم اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔