’جادو‘ کے لیے انسانی اعضا استعمال کرنے والے ’عامل‘: ’لوگوں کو جلا کر اُن کی راکھ اور تیل کو طاقت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘

ادارا نے کہا کہ ’ایسے کوئی انسانی حصے نہیں ہیں جن کے ساتھ ہم کام نہیں کرتے ہیں۔ ایک بار جب ہم جسم کے کسی مخصوص حصے کو طلب کرتے ہیں، تو وہ اسے لے آتے ہیں۔ ہم کام بانٹتے ہیں۔‘
تصویر
BBC
اس شخص نے بی بی سی کو یقین دلایا کہ وہ جادو کی غرض سے کسی بھی انسانی عضو کا بندوبست کر سکتا ہے

انتباہ: اس مضمون میں ایسی تفصیلات شامل ہیں جو کچھ قارئین کو پریشان کُن ہو سکتی ہیں۔

چار سال قبل مبینہ طور پر کالے جادو کے لیے قتل کیے جانے والے 11 سالہ بچے ’پاپائیو‘ کی والدہ چار سال گزر جانے کے باوجود، آج بھی انصاف کی منتظر ہیں۔

بی بی سی افریقہ آئی سے گفتگو کرتے ہوئے بچے کی والدہسلے کالاکو کا کہنا ہے کہ ’میں اس وقت شدید تکلیف میں ہوں۔۔ اُنھوں نے میرے بچے کو مار دیا اور اس کے بعد سے خاموشی ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ اُن کا بیٹا مارکیٹ میں مچھلیاں فروخت کرنے گیا تھا مگر اِس کے بعد کبھی واپس نہیں آیا۔ بچے کے اہلخانہ نے دو ہفتے تک اُس کی تلاش کا سلسلہ جاری رکھا اور آخرکار اُس کی مسخ شدہ لاش ایک کنویں سے برآمد ہوئی۔

والدہ نے بتایا کہ ’ہم ہمیشہ اپنے بچوں سے کہتے تھے کہ وہ کام کے دوران محتاط رہیں۔ ویرانے میں نہ جائیں اور کسی اجنبی سے کچھ نہ لیں۔ کیونکہ اس ملک میں ایسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔‘

وسطی سیرالیون میں میرے آبائی علاقے مکینی میں ہونے والے بچے کے اس قتل نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔ کیونکہ ہم اکثر یہ سنتے تھے کہ یہاں کالے جادو کے لیے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے اور اس ضمن میں عمل کرنے والے عاملوں کو ’جوجو‘ کہا جاتا ہے۔

پاپائیو کے کیس میں پولیس نے یہ بھی تصدیق نہیں کی کہ یہ ’جادوئی رسومات‘ سے جڑا قتل تھا۔ جب کسی شخص کو قتل کیا جاتا ہے تو عامل اس کے جسمانی اعضا کو نام نہاد جادوئی رسومات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

وہ اپنے کلائنٹس (سائلین) سے خوشحالی اور طاقت جیسی چیزوں کا وعدہ کرتے ہیں اور لوگ اس غلط عقیدے پر یقین کرتے ہوئے اُنھیں بڑی رقم ادا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے کلائنٹس سے یہ کہتے ہیں کہ انسانی اعضا اُن کی خواہشات پوری کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ اس غریب افریقی ملک، جس کی آبادی لگ بھگ 90 لاکھ ہے، میں صرف ایک پیتھالوجسٹ ہے۔ لہذا مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے درکار شواہد جمع کرنا اکثر ناممکن ہو جاتا ہے۔

تصویر
BBC
پاپائیو کی والدہ چار سال سے اپنے بیٹے کے لیے انصاف کی منتظر ہیں

سیرا لیون میں جادوئی رسومات پر اعتقاد اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ یہاں کے پولیس افسران بھی اس پر یقین کرنے لگے ہیں۔ کیونکہ اُنھیں یہ خدشہ رہتا ہے کہ اگر اُنھوں نے اس نوعیت کے کیسوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو وہ خود کسی مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے کیسز حل نہیں ہو پاتے۔

لیکن میں چاہتا تھا کہ میں انسانی اعضا کی تجارت سے جڑے اس کام کی تہہ تک جاؤں، جو آئے روز ایک نئے المیے کو جنم دے رہی ہے۔

بی بی سی افریقہ آئی کی ٹیم دو ایسے ہی ’جوجو‘ یعنی عاملین تک پہنچنے میں کامیاب رہی جنھوں نے ہمیں پیشکش کی کہ وہ جادوئی رسومات کے لیے انسانی اعضا حاصل کر سکتے ہیں۔

دونوں نے کہا کہ وہ ایک بڑے نیٹ ورک کا حصہ ہیں اور اُن کے پاس مغربی افریقہ میں بہت سے طاقتور کلائنٹس موجود ہیں۔ بی بی سی آزادانہ ذرائع سے اُن کے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکا۔

ہماری ٹیم کے ایک رُکن نے بھیس بدل کر اس گروہ سے رابطہ کیا اور خود کو عثمان کے نام کا سیاست دان ظاہر کیا جو ’انسانی قربانی‘ کے عوض طاقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔

ہم نے شروع میںسیرا لیون کے شمال میں ضلع کامبیا کے دُور دراز علاقوں میں سفر کیا تاکہ ہم اس جوجو (عامل) کی خفیہ رہائش گاہ تک پہنچ سکیں۔ یہ درختوں میں گھری ایک جگہ تھی، جہاں یہ عامل اپنے کلائنٹس سے مل رہے تھے۔

خود کو کانو کہنے والے اس عامل نے اپنے چہرے کو چھپانے کے لیے ایک سُرخ رنگ کا ماسک پہن رکھا تھا اور وہ بڑے بڑے سیاست دانوں سے اپنے مراسم کے دعوے کر رہا تھا۔

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ’میں سینیگال اور نائیجیریا کے بڑے بڑے سیاست دانوں کے ساتھ کام کر چکا ہوں۔۔۔ ہماری پوری ایک ٹیم ہے۔ الیکشن کے دنوں میں یہ جگہ لوگوں سے بھری ہوتی ہے۔‘

سیرا لیون میں الیکشن کے دن خاص طور پر بہت خطرناک ہوتے ہیں اور لوگ ان دنوں میں اپنے بچوں کے اغوا کے خوف سے اُن کا خاص طور پر تحفظ کرتے ہیں۔

ہمارے دوسرےدورے کے دوران کانو مزید پراعتماد ہو گئے اور اُنھوں نے عثمان کو اپنے کاروبار سے جڑے شواہد دکھائے جن میں ایک انسانی کھوپڑی شامل تھی۔

اُس نے کہا کہ ’تم نے یہ دیکھا ہے۔۔۔ یہ کسی کے جسم کا حصہ ہے۔ یہ خاتون کی کھوپڑی ہے۔ مجھے ایک شخص کا انتظار ہے جو آج یا کل یہ کھوپڑی لینے آئے گا۔‘

اُس نے اپنے ڈیرے کے پیچھے ہمیں ایک گڑھا بھی دکھایا، جہاں اُس کے بقول وہ انسانی اعضا لٹکاتے ہیں اور انھیں کاٹتے ہیں اور اس سے رسنے والا خون اس گڑھے میں جمع ہوتا ہے۔

کانو کا مزید کہنا تھا کہ بڑے بڑے سردار یہاں طاقت پانے کے لیے آتے ہیں اور میں اُنھیں وہ پیش کرتا ہوں جس کی وہ خواہش کرتے ہیں۔

ہمارے ساتھی عثمان نے کانو سے کہا کہ مجھے ایک رسم میں استعمال کے لیے ایک خاتون کی ٹانگیں چاہییں تو کانو فوراً ان کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرنے لگا۔

کانو نے کہا کہ خاتون کا ریٹ 70 ملین لیونز یعنی لگ بھگ تین ہزار امریکی ڈالر ہو گا۔

’ہم لوگوں کا علاج کرتے ہیں، اُنھیں مارتے نہیں ہیں‘

ہم اُس کی باتیں سُن کر گھبرا گئے اور کسی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے سے قبل ہی ہم دوبارہ کبھی کانو سے نہیں ملے۔ ہو سکتا ہے کہ کانو فراڈ ہو، لیکن ہم نے مقامی پولیس کو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے شواہد دیے۔

یہ جوجو عاملین بعض اوقات اپنے آپ کو دیسی ادویات سے علاج کرنے والا حکیم بھی ظاہر کرتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق نوے کی دہائی میں سیرا لیون نے بدترین خانہ جنگی کا سامنا کیا تھا اور 10 سال قبل یہاں ایبولا وائرس کی وبا نے بھی کافی تباہی مچائی تھی۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق سنہ 2022 میں سیرا لیون میں صرف ایک ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز تھے جبکہ ان کے مقابلے میں 45 ہزار ایسے حکیم تھے، جو دیسی ادویات سے علاج کرنے کے دعوے دار ہیں۔

مغربی افریقہ میں بہت سے افراد ایسے ہی حکیموں پر انحصار کرتے ہیں، جو پریشان حال لوگوں کے ذہنی صحت کے مسائل حل کرنے کے بھی دعوے کرتے ہیں۔ یہاں تصوف اور روحانیت کا عنصر ثقافتی طور پر ان کے ہنر اور ان کے علاج سے وابستہ ہوتا ہے۔

سیرا لیون میں روایتی حکیموں کی کونسل کے سربراہ شیخو تراولی اعتراف کرتے ہیں کہ کانو جیسے جوجو عاملین اسپیشے کا نام خراب کر رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ساکھ بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ عام آدمی کو اس سارے معاملے کی سمجھ نہیں ہے اور ہم جیسے حکیموں کو بھی کانو جیسے لوگوں کی طرح ہی سمجھتے ہیں۔

تروالی نے بی بی سی افریقہ آئی کو بتایا کہ ’ہم لوگوں کا علاج کرتے ہیں، اُنھیں مارتے نہیں ہیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ طاقت اور پیسے کی لت میں پڑے افراد جادوئی رسومات کے لیے لوگوں کو قتل کرنے کے ذمے دار ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص طاقت ور لیڈر بننے کا خواب دیکھتا ہے تو وہ انسانی اعضا استعمال کرتا ہے۔ وہ انھیں قربانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لوگوں کو جلایا جاتا ہے اور اُن کی راکھ اور تیل کو طاقت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایک محقق ایمینوئل سرپونگ اووسو نے بی بی سی افریقہ آئی کو بتایا کہ ’زیادہ تر افریقی ممالک میں، رسومات کے لیے قتل کو سرکاری طور پر قتل سے الگ یا ذیلی زمرے کے طور پر ریکارڈ نہیں کیا جاتا۔‘

اُن کے بقول ’کچھ کو حادثات، جنگلی جانوروں کے حملوں، خودکشیوں، قدرتی اموات کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے طور پر غلط درجہ بندی یا غلط رپورٹ کیا جاتا ہے۔ تقریباً 90 فیصد مجرم پکڑے نہیں جاتے۔‘

جب ہمیں جسم کے اعضا کا ایک اور مشتبہ سپلائر ملا، جو منشیات کے استعمال اور دیگر جرائم کے لیے بھی بدنام ہے۔

اپنے چہرے کو چھپائے ادارا نامی شخص نے عثمان کو بتایا کہ ’ایسے کوئی انسانی عضو نہیں ہے جس پر ہم کام نہیں کرتے ہیں۔ ایک بار جب ہم جسم کے کسی مخصوص حصے کو طلب کرتے ہیں، تو وہ اسے لے آتے ہیں۔ ہم کام بانٹتے ہیں۔‘

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کے ساتھ 250 کے لگ بھگ لوگ اس کام سے وابستہ ہیں۔

ادارا نے بتایا کہ اُن کے کچھ ساتھی لوگوں کو پکڑنے میں مہارت رکھتے ہیں، پھر اُنھوں نے ایک آڈیو پیغام چلایا جس میں ایک شخص دعوی کرتا ہے کہ وہ ہر رات ’شکار‘ کی تلاش میں باہر جانے کو تیار ہے۔

تصویر
BBC

’ہم نے شکار کی نشان دہی کر لی ہے‘

عثمان نے ادرا سے کہا کہ وہ ابھی آگے نہ بڑھیں۔ لیکن بعد میں انھیں ادرا کی کال موصول ہوئی اور اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی ٹیم نے ایک ’شکار‘ کی نشان دہی کر لی ہے۔

ادرا کی یہ بات سنتے ہی ہم نے پولیس کمشنر ابراہیم سما سے رابطہ کیا۔ اُنھوں نے ادرا کے ڈیرے پر چھاپہ مارنے کا فیصلہ کیا، لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ اُن کے افسران شیخو تراولی کے بغیر یہ کام نہیں کریں گے کیونکہ اُن کی معاونت کے ساتھ ہی اس طرح کے آپریشنز کیے جاتے ہیں۔

چھاپہ مارنے کے لیے جانے والے پولیس افسر نے ہمیں بتایا کہ جب ہمیں انٹیلیجنس ذرائع سے خبر ملتی ہے کہ کسی خطرناک جادو والے ڈاکٹر کے ڈیرے پر چھاپہ مارنا ہے تو ہم دیگر طبی ماہرین کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ کچھ توہم پرست افسران کو لگتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس ایسی طاقت ہے جو انھیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے ہم وہاں صورتحال خراب ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ان لوگوں کے پاس ایسی طاقت ہے جو ہمارے علم سے بھی باہر ہے۔

آخرکار پولیس نے ادرا کو گرفتار کر لیا اور اس کے ڈیرے کی چھت سے ایک چاقو برآمد کیا۔ تراولی نے اس جگہ سے شواہد جمع کیے جن میں انسانی ہڈیاں، بال اور قبرستان کی مٹی کے طرح کے ڈھیر شامل تھے۔

یہ پولیس کے لیے ادرا اور دو دیگر افراد کو گرفتار کرنے کے لیے کافی تھا، جن پر جون میں جادو ٹونے کے ساتھ ساتھقتل میں استعمال ہونے والے روایتی ہتھیار رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ادرا نے الزامات میں قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی اور اس کے بعد سے اُنھیں ضمانت مل گئی، مزید تحقیقات زیر التوا ہیں۔

سیرا لیون
BBC
سیرا لیون انتہائی غریب ملک ہے

جیسا کہ ہم نے کمبیا میں پولیس سے کانو کے بارے میں کبھی نہیں سنا، میں نے خود انھیں فون کرنے کی کوشش کی کہ وہ براہ راست الزامات کا جواب دیں، لیکن اُنھوں نے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا۔

ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب ہائی پروفائل کیسز بھی رُک جاتے ہیں۔ دو سال پہلے، فری ٹاؤن میں یونیورسٹی کا ایک لیکچرر لاپتہ ہو گیا تھا اور بعد میں اس کی لاش کو پولیس کے مطابق واٹر لو میں ایک جڑی بوٹیوں کے ماہر حکیم کے ڈیرے میں دفن کیا گیا تھا۔

یہ مقدمہ اگست 2023 میں ایک مجسٹریٹ نے ٹرائل کے لیے ہائی کورٹ کو بھیجا تھا، لیکن دو ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اب تک اس کی پیروی نہیں کی گئی ہے اور پولیس کے زیر حراست افراد کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔

میرے خاندان کو انصاف کی تلاش میں اسی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ مئی میں، ہماری بی بی سی کی تحقیقات کے دوران، میری 28 سالہ کزن فاطمہ کونتیہ کو میکنی میں قتل کر دیا گیا تھا۔

ایک ہیئر ڈریسر اور دو بچوں کی ماں، اس کی لاش اس کی سالگرہ کے اگلے دن سڑک کے کنارے پھینک دی گئی تھی جہاں ایک رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں دو دیگر لاشیں بھی ملی ہیں۔

اس کے سامنے کے کئی دانت غائب تھے، جس کی وجہ سے کمیونٹی کو یقین ہو گیا کہ یہ ایک جادو ٹوںے کے لیے کیا جانے والا قتل ہے۔

ایک مقامی مسجد میں اُن کے جنازے میں شریک ایک شخص نے کہا کہ’وہ ایک ایسی خاتون تھیں جنھوں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ وہ بہت پرامن اور محنتی تھیں۔‘

ہمیں شاید فاطمہ کے قتل کا اصل مقصد کبھی معلوم نہ ہو سکے۔ خاندان نے اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے فری ٹاؤن لے جانے کے لیے ادائیگی کی۔ لیکن پوسٹ مارٹم غیر نتیجہ خیز تھا اور ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

جیسا کہ پاپائیو کی والدہ کا معاملہ ہے، پولیس کی طرف سے عدم تعاون اور کیسز کو منطقی انجام تک نہ پہنچانے کی وجہ سے غریب برادریوں میں خوف و ہراس بڑھتا جا رہا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US