فلپائن کی 28 سالہ گھریلو ملازمہ روڈورا الکاراز کی بہادری نے ہانگ کانگ میں لگنے والی مہلک آگ کے بعد سب کو حیران کر دیا ہے۔ شہر کے وانگ فُک کورٹ ٹاور میں دھواں بھر جانے کے دوران وہ صرف ایک دن پہلے پہنچنے والا نوکری پر آئی تھیں، مگر زندگی کے اس پہلے ہی دن انہوں نے اپنی مالکن کے تین ماہ کے بچے اور ایک بزرگ خاتون کو آگ کے درمیان سے نکال کر وہ کام کر دکھایا جسے انسانیت کا سب سے روشن چہرہ کہا جا رہا ہے۔ فائر بریگیڈ نے تینوں کو مشکل وقت میں بحفاظت باہر نکالا، مگر الکاراز کی جرأت نے اس حادثے کی تمام کہانی بدل دی۔
اس واقعے نے ایک بار پھر دکھایا کہ ہانگ کانگ جیسے مصروف اور مہنگے شہر میں غیر ملکی گھریلو ملازم کس قدر مشکل حالات میں رہ کر دوسروں کے گھروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ خود محدود وسائل اور معمولی اجرت میں جینے والی روڈورا جیسے ورکر ہی بزرگوں، بچوں اور بیمار افراد کے سہارے بنتے ہیں۔ فلپائنی سینیٹر ایمی مارکوس نے اسپتال جا کر ان کی خیریت دریافت کی اور کہا کہ یہ عورت صرف ایک ملازم نہیں بلکہ بیرونِ ملک کام کرنے والے لاکھوں فلپائنیوں کی بہادری اور قربانی کی پہچان ہے۔ اسپتال کے بستر پر لیٹی الکاراز کی تصویر، جس میں وہ تھمبس اپ دیتی نظر آتی ہیں، سوشل میڈیا پر سینکڑوں پیغامات کے ساتھ شیئر ہو رہی ہے۔
آگ کے دوران بھیجے گئے ان کے واٹس ایپ وائس میسیجز نے ہر سننے والے کو لرزا کر رکھ دیا۔ ایک پیغام میں وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ سانس نہیں آرہا اور وہ بہت کمزور محسوس کر رہی ہیں۔ ان کی سابق آجر روڈا لن ڈائیو بھی انہی پیغامات کی بنیاد پر انہیں ڈھونڈتی رہیں۔ ڈائیو کے مطابق روڈورا نے فلپائن میں ان کے بچوں کی برسوں پرورش کی، اور کبھی یقین نہ تھا کہ یہ لڑکی کسی بچے کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگا دے گی۔
وانگ فُک کورٹ میں بھڑکنے والی یہ آگ پچھلے پچھتر برسوں میں ہانگ کانگ کی سب سے جان لیوا آتشزدگی ثابت ہوئی، جس میں انڈونیشیا اور فلپائن سے تعلق رکھنے والے کئی گھریلو ملازم جان سے گئے۔ شہر میں تقریباً تین لاکھ اڑسٹھ ہزار غیر ملکی گھریلو ورکر موجود ہیں، جو مقامی لیبر فورس کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ یہ سانحہ ان لوگوں کے بوجھ، خطرات اور ذمہ داریوں کی طرف دوبارہ توجہ دلاتا ہے، جو ہزاروں میل دور اپنے گھروں سے نکل کر دوسروں کی زندگیوں کو سہارا دیتے ہیں۔