پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی 23 دسمبر کو براہ راست نشر ہو گی، قومی ایئر لائن خریدنے میں کن کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا؟

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے حوالے سے وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ شفافیت اور میرٹ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس عمل کی بولی 23 دسمبر 2025 کو ملک بھر میں ٹی وی پر براہ راست نشر کی جائے گی۔
PIA
Getty Images

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے حوالے سے وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ شفافیت اور میرٹ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس عمل کے لیے بولی 23 دسمبر 2025 کو ملک بھر میں ٹی وی پر براہ راست نشر کی جائے گی۔

وزیرِ اعظم ہاؤس میں منعقدہ اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری میں حصہ لینے والی تمام کاروباری شخصیات اور کمپنیوں کے نمائندوں کے علاوہ وفاقی وزرا محمد اسحاق ڈار، احد خان چیمہ، محمد اورنگزیب، عطا اللہ تارڑ، اعظم نذیر تارڑ، سردار اویس خان لغاری، وزیرِ مملکت بلال اظہر کیانی، مشیرِ وزیرِ اعظم محمد علی، معاونِ خصوصی ہارون اختر اور دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے۔

وزیرِ اعظم نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کا کھویا ہوا تشخص بحال کرنے اور قومی ایئر لائن کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے نجکاری کا عمل شفاف اور سہل انداز میں جاری ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’جلد پی آئی اے ایک بار پھر ’گریٹ پیپل ٹو فِلائی وِد‘ کی اپنی روایت پر پورا اترنے لگے گی۔‘

وزیرِ اعظم نے بتایا کہ پی آئی اے کی دنیا بھر میں پروازوں کی بحالی سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو بڑی سہولت میسر آئے گی جبکہ سیاحت کی ترقی کے لیے بھی قومی ایئر لائن کو جدید خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت پرامید ہے کہ بولی کے بعد جو بھی خریدار قومی ایئر لائن کی ذمہ داری سنبھالے گا وہ اس کے تشخص کی بحالی اور ترقی پر بھرپور توجہ دے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے دوبارہ کوشش کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں نجکاری کمیشن کو پانچ پارٹیوں کی جانب سے دستاویز موصول ہوئی تھیں جن میں سے اب چار اس عمل کا حصہ ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس موجودہ حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری کی پہلی کوشش اس وقت ناکام ہوئی تھی جب قومی ائیر لائن کی خریداری کے لیے صرف ایک کمپنی کی جانب سے صرف دس ارب روپے کی بولی لگائی گئی تھی جبکہ حکومت نے اس کی فروخت کی کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔

گذشتہ برس کی ناکامی کے بعد اس سال پی آئی اے کی نجکاری کی دوسری کوشش کا آغٓاز کیا گیا اور اسی دوران حکومت نے نجکاری کمیشن کا قلمدان علیم خان سے واپس لے لیا اور محمد علی کو وزیر اعظم کا مشیر برائے نجکاری مقرر کر دیا گیا۔

گذشتہ تقریباً ایک برس میں پاکستانی حکومت نے ائیر لائن کی نجکاری کو پرکشش بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں اس سلسلے میں بی بی سی نے نجی اور حکومتی اداروں سے بات کی تھی۔

pia
Getty Images

پی آئی اے خریدنے میں کن کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا؟

حکومت کی جانب سے پی آئی اے نجکاری کی دوسری کوشش کے سلسلے میں آٹھ کمپنیوں نے قومی ایئرلائن کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی تھی تاہمنجکاری کمیشن کو ڈیڈ لائن ختم ہونے تک پانچ کمپنیوں کی جانب سے ہی سٹیٹمنٹ آف کوالیفکیشن موصول ہوئے تھے اور اب چار اس عمل میں شامل ہیں۔

ان کمپنیوں میں لکی سیمنٹ، حب پاور، کوہاٹ سیمنٹ اور میٹرو وینچرز پر مشتمل کنسورشیم شامل ہیں۔

عارف حبیب، فاطمہ فرٹیلائزر، سٹی سکول اور لیک سٹی ہولڈنگز پر مشتمل گروپ نے بھی قومی ایئرلائن خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔

اسی طرحایئر بلیو اور فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے بھی باضابطہ طور پر اپنی اپنی سٹیٹمنٹ آف کوالیفکیشن جمع کروائی۔

اس کے علاوہ آگمنٹ سیکیورٹیز، سیرین ایئر، بحریہ فاؤنڈیشن، میگا ہولڈنگ اور ایکویٹاس نے بھی پی آئی اے کی خریداری میں مشترکہ طور پر دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن اب 23 دسمبر کو ہونے والی نجکاری میں یہ گروپ شامل نہیں۔

PIA
Getty Images

پی آئی اے نجکاری کی دوسری کوشش پہلی کوشش سے کیسے مختلف؟

گذشتہ برس موجودہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی پہلی کوشش کے بعد نئے حکومتی اقدامات پر بات کرتے ہوئے نجکاری کمیشن کے ترجمان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یورپ کے لیے قومی ائیر لائن کی روٹس کی بحالی کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے لیے فلائٹس کی متوقع بحالی ایسی پیشرفت ہے جو نجکاری کی دوسری کوشش کو زیادہ پُرکشش بناتی ہے۔

ترجمان ڈاکٹر احسن اسحاق کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری آئی ہے جس نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کیا اور اب حالات پی آئی اے کے لیے سازگار ہیں۔

نجکاری کمیشن کے سابق سربراہ محمد زبیر بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گذشتہ برس کی نسبت اب ملک کے حالات بہتر ہوئے ہیں جس کے سبب معاشی صورتحال میں بھی بہتری نظر آ رہی ہے۔

انھوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ یورپی اور برطانوی روٹس کی بحالی نے بھی پی آئی اے کو بہتر بنایا ’کیونکہ یہ روٹس کافی پرکشش ہیں اور ساٹھ کی دہائی سے پی آئی اے کے پاس ہیں۔‘

تاہم ایوی ایشن امور کے ماہر افسر ملک اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ سنہ 2020 میں پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ میں جانے پر پابندی سے پہلے ائیر لائن خسارے میں تھی ۔

’ویسے بھی ان روٹس پر پی آئی اے کا مقابلہ مشرق وسطیٰ کی ائیرلائنز سے ہے جو زیادہ بہتر سروس فراہم کرتی ہیں۔ یہ صرف ایک تاثر ہے ورنہ یہ پہلو پی آئی اے کی نجکاری کو زیادہ پرکشش نہیںبناتا۔‘

تاہم افسر ملک یہ ضرور کہتے ہیں کہ پی آئی اے کو پُرکشش بنانے کے لیے حکومت پی آئی اے کے ٹیکس معاملات کو حل کر کے اسے قانونی کور دے رہی ہے جو گذشتہ سال نہیں کیا گیا تھا۔

’اسی طرح گذشتہ برس کے مقابلے میں اب حکومت نئے ائیر کرافٹس کی لیزنگ اور خریداری کے لیے سیلز ٹیکس پر چھوٹ بھی رہی ہے۔‘

افسر ملک نے بتایا کہ موجودہ مرحلے میں حکومت پی آئی اے کی پوری اونرشپ دینے جا رہی ہے جبکہ گذشتہ برس اس کا چالیس فیصد اپنے پاس رکھ رہی تھی۔

pia
Getty Images

پی آئی اے نجکاری کی موجودہ کوشش کامیاب ہو گی؟

حکومت کی جانب سے گذشتہ سال کی جانے والی کوشش کے بعد قومی ائیرلائن کی نجکاری کی موجودہ کوشش کی کامیابی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نجکاری کمیشن کے ترجمان ڈاکٹر احسن اسحاق نے کہا کہ امید ہے کہ اس بار حکومت کو بہت اچھی پیشکش موصول ہو گی۔

محمد زبیر بھی اس بار پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں پر امید ہیں جس کی وجہ وہ ملک میں معاشی صورت حال میں آنے والے استحکام کو سمجھتے ہیں جس سےسرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا تاہم انھوں نے کہا کہ ’اس وقت حکومت کا مسئلہ پی آئی اے کا خسارہ ہے جسے ختم کرنا ہے نہ کہ زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنا۔‘

انھوں نے کہا کہ حکومت 650 ارب روپے کا پی آئی اے کا قرضہ تو اپنے ذمے لے چکی ہے اب اسے خسارہ سے بچنے کے لیے قیمت پر زیادہ فوکس نہیں کرنا چاہیے۔

محمد زبیر نے مزید کہا کہ پی آئی اے کو پرائیوٹ سیکٹر میں جانا چاہیے بجائے اس کے اسے حکومت کے ایک ادارے کے تحت چلنے والی کسی کمپنی کے حوالے کیا جائے۔

واضح رہے کہ فوجی فرٹیلائزر فوج کے تحت چلنے والے ادارے فوجی فاونڈیشن کی ملکیت ہے۔

محمد زبیر کہتے ہیں کہ ’اگر فوجی فرٹیلائزر پی آئی اے خریدتی ہے اور اس کے بعد بھی اس کا خسارہ برقرار رہتا ہے تو لازمی طور پر یہ ریاست کا ہی خسارہ ہو گا۔‘

دوسری جانب ایوی ایشن امور کے ماہر افسر ملک کو پی آئی اے کی نجکاری میں ابھی رکاوٹیں نظر آ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو حکومت کو پی آئی اے کی فروخت کی کم از کم قیمت نہیں رکھنی چاہیے تھی کیونکہ جتنی قیمت گذشتہ برس رکھی گئی اس میں چند نئی ائیر لائنز چلائی جا سکتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کسی ائیرلائن کی کامیابی کے لیے ملک کے داخلی حالات، معاشی صورتحال، لوگوں کی خرچ کرنے کی قوت اور سیاحت کے شعبے کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پے آئی اے کی نجکاری میں ایک اور رکاوٹ اس کی جانب سے کیا جانے والا دعویٰ ہے کہ اس نے دو دہائیوں کے بعد اس برس آپریٹنگ منافع کمایا۔

’اس رپورٹ کی شفافیت پر بہت سارے سوالات ہیں کیونکہ اسے ابھی تک پی آئی اے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیا گیا اور خریدار نجکاری کے مرحلے کے دوران ان سوالوں کے جواب ضرور ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US