وہ تابکار شعاعیں جن کے باعث ایئر بس کو اپنے چھ ہزار جہازوں میں ہنگامی طور پر سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنا پڑا

ایئر بس کو جہازوں کی پرواز بند کرنے کا اعلان ایک ایسے موقع پر کرنا پڑا جب امریکہ میں تھینکس گِونگ کا تہوار ایئرلائنز کے لیے مصروف ترین دور ہوتا ہے۔
ایئر بس
Getty Images

فضائی تابکاری کے سبب جہاز بنانے والی یورپی کمپنی ایئر بس کو اپنے چھ ہزار جہازوں میں ہنگامی طور پر کمپیوٹر سافٹ ویئرز اپ ڈیٹ کرنے پڑے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایسے مسائل کا سامنا بار بار کرنا پڑے گا کیونکہ ہماری زندگیوں کا انحصار کپمیوٹر چپ پر ہے۔

جیٹ بلیو کے مسافر بردار جہاز کے پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ کیا اور کہا کہ ’ہمیں میڈیکل کے سازو سامان کی ضرورت ہے۔‘ وہ ایئر بس کا جہاز A320 اڑا رہے تھے۔

ہوا کچھ یوں کہ 30 اکتوبر کو میکسیکو سے نیو جرسی جانی والی فلائٹ نے اچانک تیزی سے اپنی بلندی کم کی۔ پائلٹ نے کہا کہ ’تین افراد کے سر پر چھوٹ آئی‘ اور اسی دوران جہاز کو فلوریڈا میں اتارا گیا جہاں 15 مسافروں کو فوری ہسپتال لے جایا گیا۔

ایک ماہ کے بعد یہ واقعہ چھ ہزار جہازوں کو گراؤنڈ کرنے کی وجہ بنا، یہ ایوی ایشن انڈسٹری میں پہلی مرتبہ ہوا جب اتنی بڑی تعداد میں جہازوں کو گراؤنڈ کیا گیا۔ ایئر بس کو جہازوں کی پرواز بند کرنے کا اعلان ایک ایسے موقع پر کرنا پڑا جب امریکہ میں تھینکس گِونگ کا تہوار ایئرلائنز کے لیے مصروف ترین دور ہوتا ہے۔ ایسے میں مختلف ایئرلائنز کو بڑی تعداد میں فلائٹس منسوخ کرنا پڑیں۔

لیکن یہ سب کیوں کرنا پڑا؟

ایئر بس کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ فضا میں موجود چھوٹے چھوٹے ذرات تھے۔

ایئر بس کی جانب سے کی گئی ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ اونچائی میں اچانک کمی کا تعلق ہوائی جہاز کے کمپیوٹر میں خرابی سے تھا۔ یہ کمپیوٹر سسٹم ہوائی جہاز کے پروں اور دم پر نصب پرزوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ دورانِ پرواز اس خرابی کی وجہ زمین پر آنے والی تابکار شعاعیں ہیں۔

یورپی ایوی ایشن کمپنی اور امریکہ کی فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی نے اس سلسلے میں ایک ہدایت نامہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ اس طرح کی تابکاری سے کمپوٹر سسٹم میں خرابی سے اونچائی ’خود بخود بغیر کسی ہدایت کے‘تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے اور یہبعض اوقات ہوائی جہاز میں پریشر کو برداشت کرنے والی صلاحیت سے تجاوز کر سکتی ہے۔

ہدایات میں کہا گیا کہ ایئر بس کے مختلف ماڈلز A 320, A 310, A 321 میں سافٹ ویئرز کو فوری طور پر اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

ان تمام طیاروں کے سافٹ ویئر کو اپ ڈیٹس کرنے کی ضرورت تھی اور تقریباً 900 جہازوں میںکمپیوٹر ہارڈویئر لگانا ضروری تھی تاکہ اُن کے الیکٹرانکس کو خلائی تابکاری کے اثرات سے محفوظ بنایا جائے۔

کاکپٹ
Getty Images

ایئر بس کے مطابق جو میکسکو سے نیو جرسی جانے والی فلائٹ میں ہوا، اُسے شاید اس نوعیت کا پہلا واقعہ کہا جا سکتا ہے۔

لیکن بی بی سی نے پہلے بھی اس بارے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جب خلا کے تیز رفتار ایٹمی ذرات جیسے پروٹون، زمین پر موجود ایٹموں سے ٹکراتے ہیں تو یہ کمپیوٹر میں خرابیوں کا سبب بنتے ہیں۔

چھوٹے چھوٹے ذرات کا یہ ٹکراؤ زمین پر بوچھاڑ کی طرح گرتا ہے بالکل ایسے جیسے میز پر زور سے ماربلز پھینکے جائیں لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ یہ نیوٹران کمپیوٹر سسٹم سے ٹکرائیں اور کمپیموٹر کی میموری میں محفوظ ڈیٹا کو نقصان پہنچے۔

برطانیہ میں سپیس فزکس کے پروفیسر میتھیو اوینز نے کہا کہ ’اس سے متاثرہ ہونے والے الیکٹرانک آلات پھر توقعات کے پرعکس کام کرتے ہیں اور سیٹلائٹس اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ خلا میں استعمال ہونی والی مشینوں میں تبدیلی کافی تواتر کے ساتھ سامنے آئی۔‘

یہ نیوٹرون فلیکس یا نیوٹرون کی تابکاری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جتنا آپ زمین سے اوپر جائیں گے اتنا ہی کمپیوٹر کے حساس حصوں پر اس کے اثرات ہونے کا امکان بڑھتا جائے گا۔ زمین پر موجود کمپیوٹر آلات کے مقابلے میں جہازوں میں یہ مسئلہ زیادہ آ سکتا ہے۔

ہوائی جہازفلائی بائی وائر سسٹمز کے تحت کمپیوٹرز پر زیادہ انحصارکرتے ہیں کیونکہ جہازکو ہوا میں کنٹرول کرنے کے لیے مکینکیل سسٹم کے بجائے الیکٹرانکس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ باہر کے ماحول میں تھوری سی تبدیلی سے بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

جٹ بلیو کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ سنہ 2008 میںکنٹاس ائیر لائن سے مماثلت رکھنا ہے جب دس منٹ کے دوران پرواز نے دو بار اچانک سینکڑوں فٹ کی بلندی کم کی تھی۔ اس فلائٹ میں سوار درجنوں مسافر زخمی ہوئے تھے۔

آسٹریلین ٹرانسپورٹ سیفٹی بیورو نے ایک تحقیقاتی رپورٹکے بعد مکمل طور پر یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا تھا کہ خلا میں ہونے والی تبدیلی ہی اس واقعے کی وجہ بنی لیکن دیگر عوامل کے ساتھ اسے مکمل طور پر رد نہیں کیا گیا۔

فلائٹ کی تاخیر
Getty Images

ایئربس نے بی بی سی کو بتایا کہ 30 اکتوبر 2025 کی جیٹ بلیو فلائٹ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا تعین کرنے کے لیے انھوں نے متعدد منظرناموں کا تجزیہ کیا۔

کمپنی نے فضا میں تبدیلی یا پلٹ جانے والے اس رجحان کے علاوہ مختلف امکانات کو مسترد کر دیا۔

پروفیسر اوینز کا کہنا ہے کہ اس واقعے کو حتمیٰ طور پر اس سے منسوب کرنا مشکل ہے کیونکہ نیوٹرون اپنی تابکاری یا موجودگی کا کوئی نشان نہیں چھوڑتے ہیں۔

ایئربس کے ترجمان نے زور دیا ہے کہ جیٹ بلیو کی فلائٹ اور 2008 کے کنٹاس واقعے کے درمیان ’کوئی مماثلت نہیں۔‘ کنٹاس کی فلائٹ میں الیکٹرانکس کی خرابی اُس پرزے میں ہوئی تھی جو فلائٹ ڈیٹا کو ٹریک کرتا ہے جبکہ جیٹ بلیو کی A 320پرواز کے کمپیوٹر سسٹم کی خرابی نے جہاز کے الیکٹرانک سسٹم میں مسئلہ پیدا کیا جو جہاز کے پروں اور دم پر موجود متحرک حصوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

ایئربس کے ابتدائی بیان نے خلائی موسمیات پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے لیے کئی سوالات چھوڑ دیے ہیں۔

کمپنی نے کہا تھا کہ 30 اکتوبر کو ’شدید شمسی تابکاری‘ نے ممکنہ طور پر فلائٹ کنٹرول ڈیٹا کو متاثر کیا لیکن سورج سے ہمارے سیارے زمین پر آنے والے ذرات کے لحاظ سے یہ بہت قابل ذکر دن نہیں تھا۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف سرے میں خلائی انجینئرنگ کے پروفیسر کیتھ رائیڈن کہتے ہیں کہ اس دن شمسی تابکاری کے حوالے سے کوئی خاص بات نہیں ہوئی تھی۔ ’یہ میرے نقطہ نظر سے بھی ایک معمہ ہی ہے۔‘

ان کی طرح پروفیسر میتھیو بھی اسی معاملے میں مخمصے کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت اور مقام کو دیکھتے ہوئے انھیں فوری طور پر یہ شمسی تابکاری کا واقعہ نہیں لگا۔

ذیلی ایٹمی ذرات جن کی وجہ سے کمپیوٹر کے نظام میں خرابی ہوئی وہ سورج سے نکلنے والے بڑے شمسی شعلوں میں پیدا ہوتے ہیں تاہم اس طرح کے ذرات ہمارے نظام شمسی سے کئی نوری سال کے فاصلے بلکہ ہماری کہکشاں سے بھی باہر موجود ذرائع سے آ سکتے ہیں۔

یہ تابکاری شعاعیں بڑے بڑے ستاروں کے دھماکوں سے پیدا ہوتی ہیں جنھیں سپرنووا اور بلیک ہولز کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ایئربس نے تاہم واضح نہیں کیا کہ انھوں نے اپنے بیان میں، خاص طور پر بی بی سی کے سوالات کے جوابات میں، شدید شمسی تابکاری کا حوالہ کیوں دیا۔

تاہم، جیٹ بلیو واقعے کے کئی ہفتوں بعد 11 نومبر کو شمسی تابکاری کے ایک واقعے کا مشاہدہ کیا گیا۔

برطانیہ کے موسمی غباروں پر نصب سینسرز نے 40 ہزار فٹ (12 کلومیٹر) کی اونچائی پر تقریباً تابکاری ریکارڈ کی جو گذشتہ دو دہائیوں میں زمین سے ٹکرانے والی سب سے شدید تابکاری شعاعیں تھیں۔

برطانیہ کے کچھ طیارے جو تیز رفتاری سے حرکت کرنے والے نیوٹرون کی نگرانی کے لیے تیار کیے گئے خصوصی آلات سے لیس ہیں، نے اس واقعے کو رپورٹ کیا۔

رائڈن کہتے ہیں کہ مختصر دورانیے کے لیے تابکاری کی سطح 10 کے فیکٹر سے بڑھ گئی تھی۔

اگرچہ یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ سورج پر حال ہی میں بہت زیادہ سرگرمی ہوئی تاہم یہ جیٹ بلیو کی پرواز کو پیش آنے والے اس واقعے کے تقریباً دو ہفتے بعد ہوا تھا جس کی وجہ سے ایئربس کو اپنے طیارے واپس بلانے پڑے تھے۔

solar flare Getty
Getty Images

کمپنی نے جو سافٹ ویئر میں اپ ڈیٹ کیے ہیں بظاہر وہ آسانی سے انسٹال کیے جا سکتے ہیں اور متعدد ایئرلائنز نے ان کی انسٹالیشن کا عمل چند ہی گھنٹوں میں مکمل کر لیا تھا۔

ایئربس کے مطابق یہ سافٹ ویئر نقص کا شکار پیرامیٹر کو دوبارہ ریفریش کر دیتا ہے تاکہ اس کے سبب فلائٹ کنٹرول پر کوئی فرق نہ پڑے۔

یہ ایک طریقہ ہے جس سے جہاز کے کمپیوٹر ڈیٹا کو پاک رکھا جاتا ہے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ کسی بھی غلطی سے جہاز پر کوئی فرق نہ پڑے۔

یکم دسمبر کو ایئربس کا کہنا تھا کہ اس کے جہازوں کی اکژیت میں سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو چکے ہیں اور صرف 100 سے کچھ کم جہاز بچے ہیں جن میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

ایئرلائنز کا کہنا ہے کہ ان کے آپریشنز مجموعی طور پر معمول کی طرف آ رہے ہیں لیکن کچھ نہ کچھ تعطل آنے والے دنوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

تاہم ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کچھ مزید اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔

رائیڈن اور ان کے ساتھی جہازوں کے الیکٹرانک سسٹم کو خلائی تابکاری سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایوی ایشن انڈسٹری میں معیار کو برقرار رکھنا ہوگا جسے ’ضروری نہیں سمجھا‘ جاتا۔

اسی دوران سائنسدان خلائی موسم کی نگرانی کر رہے ہیں اور جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نیوٹرون کی زیادتی کیسے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر اثرانداز ہوتی ہے۔

جیسے جیسے کمپیوٹر کی چپس چھوٹی ہوتی جا رہی ہیں ویسے ویسے ان پر تابکاری کے اثر انداز ہونے کا خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

جیٹ بلیو کے واقعے کے بعد انڈسٹری میں بہت سارے دماغ ان خطرات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں جو فضائی تابکاری اور مائیکروچپ پر انحصار کے سبب سامنے آ رہے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US