بدھ کو رائے پور میں وراٹ کوہلی اور رتوراج گائیکواڑ کی سنچریوں کے باوجود جب جنوبی افریقہ نے انڈیا کی جانب سے دیا گیا 359 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف باآسانی عبور کیا تو ایڈن مارکرم کی میچ وننگ سنچری سے زیادہ وراٹ کوہلی کی ایک روزہ کرکٹ میں 53ویں سنچری کا ہی چرچا رہا۔
وراٹ کوہلی نے رائے پور میں جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں اپنی لگاتار دوسری سینچری بنائی ہےعام طور پر ہوتا یہ ہے کہ اگر کوئی کھلاڑی میچ کی پہلی اننگز میں سنچری بنائے اور اُس کی ٹیم پھر بھی میچ ہار جائے تو اس سنچری کو رائیگاں سمجھا جاتا ہے یا اس پر زیادہ بات نہیں ہوتی۔ لیکن اگر معاملہ وراٹ کوہلی کا ہو تو پھر یہاں یہ بات صادق نہیں آتی۔
بدھ کو رائے پور میں وراٹ کوہلی اور رتوراج گائیکواڑ کی سنچریوں کے باوجود جب جنوبی افریقہ نے انڈیا کی جانب سے دیا گیا 359 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف باآسانی عبور کیا تو ایڈن مارکرم کی میچ وننگ سنچری سے زیادہ وراٹ کوہلی کی ایک روزہ کرکٹ میں 53ویں سنچری کا ہی چرچا رہا۔
رائے پور کی بلے بازی کے لیے سازگار وکٹ پر وراٹ کوہلی نے اُسی انداز میں بیٹنگ کی جس طرح اُنھوں نے رانچی میں سنچری جوڑ کر ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔کوہلی نے رانچی ون ڈے میں 135 رنز بنائے تھے۔
رائے پور میں انڈیا کی ٹیم میچ تو نہ جیت سکی، لیکن وراٹ کوہلی کی بیٹنگ فارم اور اُن کی فٹنس پر بات ہو رہی ہے۔
وراٹ کوہلی کے فینز انڈیا کی جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بدترین شکست کا بھی حوالہ دے رہے ہیں کہ اگر وراٹ کوہلی ٹیسٹ ٹیم میں بھی ہوتے تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔ بعض صارفین اس معاملے پر انڈین ٹیم کے کوچ گوتم گھمبیر پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔
پہلے بات کر لیتے ہیں رائے پور میں کھیلے جانے والے میچ میں جس میں ایک بڑا سکور کرنے کے باوجود ٹیم انڈیا اس کا دفاع کرنے میں ناکام رہی۔

کوہلی اور گائیکواڈ کی سینچریاں رائیگاں
ایسا بہت کم ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ون ڈے میچ کی پہلی اننگز میں کسی بھی ٹیم کے دو کھلاڑیوں نے سنچریاں سکور کی ہوں اور پھر بھی وہ ٹیم میچ ہار جائے۔ ایسا ہی کچھ رائے پور میں انڈین ٹیم کے ساتھ ہوا۔
رانچی میں جنوبی افریقہ کو شکست دے کر تین میچوں کی سیریز میں برتری رکھنے والی انڈین ٹیم 358 رنز کا دفاع نہ کر سکی۔
کوہلی اور گائیکواڑ نے 195 رنز کی شراکت داری قائم کی۔ یہ انڈیا کی جنوبی افریقہ کے خلاف سب سے بڑی شراکت داری بھی تھی۔
کوہلی نے 93 گیندوں میں 7 چوکوں اور 2 چھکوں کی مدد سے 102 رنز بنائے۔ گائیکواڈ نے 83 گیندوں پر 12 چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے 105 رنز بنائے۔
جنوبی افریقہ نے 49.2 اوورز میں 6وکٹوں کے نقصان پر ہدف پورا کر لیا۔ ایڈن مارکرمنے 110 رنز بنا کر اپنی ٹیم کو مضبوط پوزیشن میں پہنچا دیا۔ مارکرم کو مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔
’کوہلی کی سنچری کا نشہ ہی الگ ہے‘
رائے پور ون ڈے میں سنچری کے ساتھ، وراٹ کوہلی ایک روزہ میچز میں مجموعی طور پر 53 سینچریاں بنا چکے ہیں۔ اُن کی بیٹنگ اوسط 58.20ہے۔
انڈیا کی شکست کے باوجود، سوشل میڈیا پر کوہلی کی سینچری کے چرچے ہیں۔
سابق انڈین اوپنر وریندر سہواگ ایکس پر لکھتے ہیں کہ وراٹ کوہلی کی ’سنچری کا نشہ ہی الگ ہے۔ ہم لوگ سنچریاں گن رہے ہوتے ہیں اور وہ اسے اپنا معمول کا کام سمجھ کر کر دیتے ہیں۔‘
اعداد و شمار کے ماہر پاکستانی سپورٹس تجزیہ کار مظہر ارشد لکھتے ہیں کہ کوہلی نے اپنی سنچری کے 40 رنز صرف باؤنڈریز سے بنائے۔ اُنھوں نے 60 رنز دوڑ کر بنائے۔ رواں برس چیمپئنز ٹرافی میں بھی اُنھوں نے پاکستان کے خلاف میچ میں صرف سات چوکوں کی مدد سے سینچری بنائی تھی۔ ایک 37 سالہ کھلاڑی کی یہ زبردست فٹنس ہے۔
فرید خان کہتے ہیں کہ سچن ٹنڈولکر نے 452 اننگز میں 49 ون ڈے سینچریاں سکور کی تھیں۔ لیکن کوہلی نے صرف 295 اننگز میں 53 سینچریاں بنا دی ہیں، ’یہ حیران کن ہے۔‘
رانچی ون ڈے میچ میں مین آف دی میچ کا ایوارڈ ملنے پر کوہلی نے کہا تھا کہ ’میں کبھی بھی زیادہ تیاری کا قائل نہیں رہا۔ میری ساری کرکٹ ذہنی رہی ہے۔ میں جسمانی طور پر بہت محنت کرتا ہوں، جب تک میرا فٹنس لیول اوپر ہے اور میں ٹھیک محسوس کر رہا ہوں، یہ اچھی بات ہے۔‘
بعض صارفین کا کہنا ہے کہ کوہلی اور روہت شرما کو ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے پر گوتم گھمبیر نے مجبور کیا۔
انڈین نامی صارف لکھتے ہیں کہ کوہلی نے لگاتار دو سنچریاں لگا کر گھمبیر اور مینجمنٹ کو ایک طرح سے پیغام دیا ہے۔
راجیو لکھتے ہیں کہ ٹیسٹ کرکٹ میں انڈیا کو وراٹ کوہلی کی ’اشد ضرورت ہے۔ اُن کی کہانی ختم ہونے سے ابھی بہت دُور ہے۔‘
بعض کرکٹ صارفین وراٹ کوہلی کو ٹیسٹ کرکٹ سے ڈراپ کرنے کا ذمے دار گوتم گھمبیر کو سمجھتے ہیںوراٹ کوہلی کی خوراک اور ورزش میں تبدیلی کی کہانی
سنہ 2012 میں وراٹ کوہلی کی وہ اننگز تو کوئی پاکستانی نہیں بھول پائے گا جب انھوں نے ایشیا کپ کے ایک میچ میں سعید اجمل اور شاہد آفریدی جیسے بولروں کے خلاف بنگلہ دیش میں 330 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 183 رنز کی ناقابلِ تسخیر اننگز کھیلی تھی۔
اس سے پہلے کوہلی آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچوں میں ایک سنچری بھی سکور کر چکے تھے جب سنجے منجریکر سمیت اکثر ناقدین نے انھیں ٹیسٹ ٹیم سے نکالنے کی بات کی تھی اور شاید وہ میچ بھی کرکٹ کا کوئی مداح نہ بھول پائے جب انڈیا کو کامن ویلتھ بینک سیریز کے فائنل تک پہنچنے کے لیے 40 اووروں میں سری لنکا کے خلاف 321 رنز بنانے تھے اور وراٹ کوہلی کی 86 گیندوں پر 133 رنز کی اننگز کی بدولت انڈیا یہ ہدف 37ویں اوور میں ہی پورا کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
ایسے میں کوہلی جب آئی پی ایل کا سیزن کھیلے تو ہر کوئی ان سے بہترین کارکردگی کی امید کر رہا تھا لیکن اس کے برعکس وہ بری طرح ناکام ہوئے۔
کوہلی نے دی کرکٹ منتھلی نامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ اپنی زندگی میں ایسے مرحلوں سے گزرتے ہیں جب آپ نے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کیا آپ معمولی انسان ہی رہنا چاہتے ہیں، کیا آپ بطور کھلاڑی کبھی کبھی ہی پرفارم کرنا چاہتے ہیں، کیا آپ ایک اوسط کرکٹر ہی بننا چاہتے ہیں؟ یا آپ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک بننے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں، تسلسل کے ساتھ رنز کرنا چاہتے ہیں اور اپنے کریئر کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس آئی پی ایل کے بعد میں نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا اور کہا کہ تم اگر ایک انٹرنیشنل کرکٹر ہو تو تم ایسے نہیں دکھ سکتے۔ تمھیں کچھ کرنا ہو گا۔‘
اس آئی پی ایل کے بعد وراٹ کوہلی نے آٹھ ماہ میں 11 کلو وزن کم کیا۔ ’میرا وزن اس وقت 84 کلو تھا، جو کم ہو کر 73 کلو ہوا۔ مجھ میں مزید پھرتی آنے لگی، مجھے بیٹنگ کے دوران زیادہ وقت ملنے لگا اور اس کے بعد سے میرا کھیل مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔‘