انڈیا اور روس دہائیوں سے قریبی اتحادی ہیں۔ مودی اور پوتن کے درمیان بھی گہرا تعلق ہے۔ ایسے میں ہم نے اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ اس وقت دونوں کو ایک دوسری کی کیوں ضرورت ہے اور اس ملاقات کے دوران کن نکات پر نظر رکھنی چاہیے۔
روس کے صدر پوتن ایسے وقت میں انڈیا کا دورہ کر رہے ہیں، جب دلی کو امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن کا چیلنج درپیش ہےروسی صدر ولادیمیر پوتن انڈیا کے دو روزہ دورے کا آغاز کر رہے ہیں جس کے دوران وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے مشترکہ سالانہ اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اس دورے کے دوران دلی اور ماسکو متعدد معاہدوں کو حتمی شکل دیں گے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہونے جا رہی ہے جب انڈیا پر روس سے تیل کی خریداری بند کرنے کے لیے امریکی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ختم کروانے کے کوشش بھی کر رہی ہے اور گزشتہ روز مذاکرات کا ایک اہم دور ماسکو میں منعقد ہوا۔
انڈیا اور روس دہائیوں سے قریبی اتحادی ہیں۔ مودی اور پوتن کے درمیان بھی گہرا تعلق ہے۔ ایسے میں ہم نے اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ اس وقت دونوں کو ایک دوسری کی کیوں ضرورت ہے اور اس ملاقات کے دوران کن نکات پر نظر رکھنی چاہیے۔
روس اور انڈیا کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے حلیف رہے ہیںسٹیو روزنبرگ: ایک خصوصی دوستی، تجارتی معاہدے اور علاقائی سیاست
انڈیا کے ساتھ تعلقات روس کے لیے اہم کیوں ہیں؟ اس کے لیے اعداد و شمار کو دیکھنا ہو گا۔ تقریبا ڈیڑھ ارب کی آبادی اور سالانہ آٹھفیصد کے حساب سے ترقی کرنے والا انڈیا دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے۔ اور یہی چیز اسے روس کے لیے ایک پرکشش منڈی بناتی ہے خصوصی طور پر روسی تیل کے لیے۔
انڈیا دنیا میں خام تیل درآمد کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی بڑی تعداد روس سے خریدی جاتی ہے۔ لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ یوکرین پر حملے سے قبل انڈیا تیل کی صرف ڈھائی فیصد درآمدات روس سے حاصل کرتا تھا۔ لیکن ماسکو پر پابندیاں لگنے اور یورپی منڈیوں تک رسائی محدود ہونے کے بعد جب روسی تیل سستا ہوا تو انڈیا نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس سودے سے انڈیا خوش تھا لیکن امریکہ نہیں۔
اکتوبر میں ٹرمپ انتظامیہ نے انڈین درآمدات پر 25 فیصد اضافی محصولات نافذ کر دیں جس کا جواز یہ دیا گیا کہ انڈیا روس سے تیل خرید کر یوکرین کے خلاف جنگ میں مالی مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس کے بعد سے انڈیا نے روس سے تیل کی خریداری میں کمی کی ہے لیکن صدر پوتن چاہیں گے کہ انڈیا ان سے تیل خریدتا رہے۔
ماسکو کے لیے دوسری اہم ترجیح یہ ہے کہ انڈیا روس سے اسلحہ خریدے جیسا کہ سوویت یونین دور سے ہوتا رہا ہے۔ پوتن کے دورے سے قبل کچھ ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ انڈیا جدید روسی لڑاکا طیارے اور فضائی دفاعی نظام حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔
لیکن علاقائی سیاست بھی اہم ہے۔ ماسکو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یوکرین جنگ کے بعد اسے تنہا کر دینے کی مغربی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ انڈیا کا دورہ اور مودی سے ملاقات اسے یہ پیغام دینے میں مددگار رہیں گے۔ بلکل اسی طرح جیسے تین ماہ قبل پوتن نے چین کا دورہ کیا۔ اسی دورے میں وہ مودی سے بھی ملے تھے اور تینوں سربراہان کی ہنستے ہوئے تصویر نے یہ واضح پیغام دیا تھا کہ یوکرین جنگ کے باوجود ماسکو کے مضبوط اتحادی ہیں جو ایک نئی دنیا کے تصور کی حمایت کرتے ہیں جس میں طاقت کسی ایک بڑے ملک کے پاس نہیں۔
روس چین سے اپنی دوستی پر فخر کرتا ہے۔ اور انڈیا سے بھی خصوصی اتحاد کو بڑھ چڑھ کر پیش کرتا ہے جبکہ یورپی یونین سے اس کے تعلقات تناو کا شکار ہیں۔
نوایا گزیٹا کے کالم نگار آندرے کولیسنکو کا ماننا ہے کہ ماسکو کو یقین ہے کہ ’مغرب مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔‘ ’ہم تنہا نہیں ہیں کیوں کہ ایشیا اور جنوب سے ہمارے تعلقات قائم ہیں۔ معاشی اعتبار سے یہی مستقبل ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا کے انحصوں میں روس ایک اہم کردار رکھتا ہے سوویت یونین کی طرح۔ سوویت یونین کے بھی امریکہ، مغربی جرمنی اور فرانس سے خصوصی رابطوں کے ذرائع تھے۔‘
’لیکن اب ہم یورپ سے بلکل کٹ چکے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہمارے فلسفی ہمیشہ کہتے تھے کہ روس یورپ کا حصہ ہے۔ لیکن اب ہم اس کا حصہ نہیں رہے۔ یہ ایک بڑی ناکامی اور بڑا نقصان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ روس کی سیاسی اور معاشی اشرافیہ انڈیا اور چین سے کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ یورپ کی جانب بھی لوٹنا چاہے گی۔‘
رواں ہفتے لیکن آپ صرف روس اور انڈیا کی دوستی سمیت ان کے درمیان ہونے والے معاہدوں اور ماسکو اور دلی کے درمیان بڑھتے ہوئے معاشی تعاون کے بارے میں سنیں گے۔
روس چین سے اپنی دوستی پر فخر کرتا ہے۔ اور انڈیا سے بھی خصوصی اتحاد کو بڑھ چڑھ کر پیش کرتا ہےوکاس پانڈے: مودی کی سٹریٹجک خود مختاری کا امتحان
صدر پوتن کا انڈیا کا دورہ مودی اور انڈیا کے عالمی ارادوں کے حوالے سے نہایت اہم وقت پر ہو رہا ہے۔ انڈیا اور روس کے تعلقات سوویت یونین دور سے ہی قائم ہیں جو بدلتے ہوئے وقتوں میں بھی کمزور نہیں ہوئے۔
لیکن پوتن نے شاید کسی بھی اور سابق سربراہ کے مقابلے میں اس تعلق میں سب سے زیادہ وقت اور توانائی لگائی ہے۔ جہاں تک مودی کی بات ہے تو وہ مغربی حکومتوں کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار رہے ہیں کہ وہ یوکرین جنگ پر ماسکو کو تنقید کا نشانہ بنائیں لیکن مودی حکومت اس موقف پر قائم رہی ہے کہ مذاکرات ہی تنازع کا حل ہیں۔
یہ انڈیا کی جانب سے اپنی سٹریٹجک خودمختاری کا اظہار تھا کیوں کہ مودی بیک وقت مغرب اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ اس وقت تک قائم رہا جب تک ٹرمپ کی واپسی نہیں ہوئی۔ ان کی دوسری صدارتی مدت کے دوران امریکہ اور انڈیا کے تعلقات میں تناو بڑھا اور ابھی تک تجارتی محصولات پر اختلافات دور نہیں ہو سکے ہیں۔
اس تناظر میں پوتن کا دورہ مودی کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے کیوں کہ یہ انڈیا کی جیوپولیٹیکل خودمختاری کا امتحان بھی ہے۔ مودی لوگوں کو دکھانا چاہیں گے کہ پوتن کو اب بھی وہ اپنا قریبی اتحادی مانتے ہیں اور وہ اس معاملے پر ٹرمپ کے دباؤ میں نہیں آئے جنھیں وہ ایک زمانے میں اپنا ’سچا دوست‘ قرار دے چکے ہیں۔
تاہم مودی کو یورپی اتحادیوں کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔ رواں ہفتے کے دوران جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے سفیروں نے انڈیا کے ایک بڑے اخبار میں مشترکہ مضمون میں یوکرین پر روسی حملے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مودی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ روس سے تعلقات کی وجہ سے امریکہ سے تجارتی مذاکرات اور یورپ سے اتحاد متاثر نہ ہو۔
گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹیو (جی ٹی آر آئی) نامی تھنک ٹینک کے مطابق انڈیا کے لیے بڑا مسئلہ سٹریٹجک بیلنس ہے اور امریکی دباؤ اور روس پر انحصار کے بیچ اپنی خودمختاری کا تحفظ کرنا۔
مودی کی کوشش ہو گی کہ وہ انڈیا اور روس کے درمیان باہمی تجارت کو بڑھائیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس معاشی تعلق میں بہتری کی گنجائش ہے۔
مارچ 2025 میں باہمی تجارت کا حجم 68 عشاریہ 72 ارب ڈالر تھا۔ 2020 میں یہ حجم صرف آٹھ ارب ڈالر تھا۔ اس اضافے کی بڑی وجہ روسی تیل کی خریداری تھی۔ لیکن اس کی وجہ سے تجارت میں فائدہ روس کو ہو رہا تھا اور مودی اسے بدلنا چاہیں گے۔ اب جبکہ انڈیا کی کمپنیاں امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے روس سے تیل کی خریداری میں کمی لا رہی ہیں، دونوں ممالک کو باہمی تجارت کے لیے دیگر شعبوں کی جانب دیکھنا ہو گا۔
رواں سال مئی میں پاکستان سے تنازع کے درمیان روسی ایس-400 دفاع نظام کی ضرورت واضح ہوئی تھی اور انڈیا کو اپنی چند کمزوریوں کا بھی پتہ چلادفاع کا شعبہ شاید سب سے آسان ہے۔ 2020 سے 2024 کے درمیان انڈیا کی روس سے دفاعی درآمدات میں 36 فیصد کمی ہوئی۔ سٹاکہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق انڈیا کی روس سے دفاعی درآمدات 2010 سے 2015 کے درمیان 72 فیصد پر تھیں اور 2015 سے 2019 کے درمیان 55 فیصد پر رہیں۔
اس کمی کی ایک وجہ انڈیا کی یہ کوشش تھی کہ وہ اپنی دفاعی صنعت کو ترقی دے اور ساتھ ہی ساتھ دفاعی ضروریات کے لیے ایک سے زیادہ ملکوں سے رابطہ کرے۔ لیکن ان اعداد و شمار پر غور کریں تو ایک مختلف کہانی نظر آتی ہے۔ انڈیا کے متعدد دفاعی پلیٹ فارم اب بھی روس پر انحصار کرتے ہیں۔ انڈین ایئر فورس کے 29 سکواڈرن روسی سخوئی لڑاکا طیاروں پر مشتمل ہیں۔
رواں سال مئی میں پاکستان سے تنازع کے درمیان روسی ایس-400 دفاع نظام کی ضرورت واضح ہوئی تھی اور انڈیا کو اپنی چند کمزوریوں کا بھی پتہ چلا جنھیں جلد دور کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
خبروں کے مطابق انڈیا روس سے نیا ایس-500 دفاعی نظام اور ایس یو-57 لڑاکا طیارے خریدنا چاہتا ہے جو ففتھ جنریشن قرار دیے جا رہے ہیں۔ پاکستان چین سے جے-35 سٹیلتھ لڑاکا طیارہ خرید رہا ہے اور یہ بات دلی میں نوٹ کی گئی۔ اب انڈیا بھی اس کے مقابلے میں جلد از جلد ایسی ہی صلاحیت رکھنے والا طیارہ لینا چاہتا ہے۔
تاہم یوکرین جنگ اور پابندیوں کی وجہ سے روس کو اہم پرزوں کی کمی کا سامنا ہے اور ایس-400 کے چند یونٹ اب شاید مذید تاخیر سے انڈیا کو ملیں گے۔ مودی چاہیں گے کہ پوتن سے ملاقات میں اس معاملے پر بھی یقین دہانی حاصل کریں۔
مودی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ روس سے تعلقات کی وجہ سے امریکہ سے تجارتی مذاکرات اور یورپ سے اتحاد متاثر نہ ہومودی کی یہ کوشش بھی ہو گی کہ روسی منڈی میں انڈین مصنوعات کی جگہ بنائیں۔
جی ٹی آر آئی کے مطابق روس پر کئی پابندیوں کےباعث انڈیا کی روسی منڈیوں تک رسائی بہت محدود ہے۔ انڈیا ساڑھے سات کروڑ ڈالرز مالیت کے سمارٹ فونز، تقریباً اتنی ہی مالیت کے جھینگے، ساڑھے چھ کروڑ ڈالرز مالیت کا گوشت اور دو کروڑ ڈالرز سے زائد کی گارمنٹس روس برآمد کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق مودی چاہتے ہیں کہ روس کی مارکیٹ میں انڈیا کی پوزیشن مزید بہتر ہو۔ خاص طور پر جب جنگ ختم ہو جائے اور ماسکو پھر سے عالمی معیشت کا حصہ بن جائے۔
مودی یہ بھی چاہیں گے کہ انڈیا کا تیل اور دفاعی شعبے میں روس پر انحصار کم ہو، وہ ایسے معاہدے کے خواہاں ہوں گے جس میں روس کے ساتھ تعلقات بھی مضبوط ہوں اور مغربی ممالک کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کو بھی وسعت ملے۔
جی ٹی آر آئی کے مطابق پوتن کا دورہ سرد جنگ سفارت کاری میں کوئی پرانی واپسی نہیں ہے۔ بلکہ یہ سپلائی چین اور اقتصادی معاملات پر گفت و شنید ہے۔ ایک معمولی نتیجہ بھی روس کی تیل اور دفاعی صنعت کو دوام دے گا اور علاقائی اقتصادیات کو ایک نئی جہت دے گا۔