شہریوں کو ’پنجاب سیف سٹی‘ کا حصہ بننے کی پیشکش لیکن کیا اس سے حکام کو آپ کے فون تک رسائی مل سکتی ہے؟

سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق اگر کسی شہری کو اپنے اردگرد کوئی بھی جرم ہوتا نظر آتا ہے تو وہ اپنے موبائل فون کو سیف سٹی کے سمارٹ مانیٹرنگ سسٹم سے منسلک کر سکیں گے جس کے بعد سیف سٹی اتھارٹی کیمرے کی لائیو فوٹیج کو مانیٹر اور ریکارڈ کر سکے گی تاہم ماہرین کو اس پر کچھ خدشات ہیں۔

پنجاب حکومت نے حال ہی میں سیف سٹی پروجیکٹ میں ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کے تحت اب شہری بھی اپنے موبائل فون کے کیمرے کو سیف سٹی کے سمارٹ مانیٹرنگ نظام کا حصہ بنا سکتے ہیں۔

سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق، اگر کسی شہری کو اپنے اردگرد کوئی بھی جرم ہوتا نظر آتا ہے تو وہ اپنے موبائل فون کو سیف سٹی کے سمارٹ مانیٹرنگ سسٹم سے منسلک کر سکیں گے جس کے بعد سیف سٹی اتھارٹی کیمرے کی لائیو فوٹیج کو مانیٹر اور ریکارڈ کر سکے گی۔

سیف سٹی کے ساتھ لائیو فوٹیج کیسے شیئر کی جا سکتی ہے؟

سیف سٹی حکام کی جانب سے ایک معلوماتی ویڈیو بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جاری کی گئی ہے۔ اس ویڈیو کے مطابق، شہری دو طریقوں سے اپنے موبائل فون کو لائیو منسلک کر سکتے ہیں۔

پہلے طریقہ کار کے مطابق، جب کوئی شخص 15 پر کال کر کے لائیو فیڈ شیئر کرنے کا کہے گا تو اس کا کیس رجسٹر کر کے سیف سٹی کا افسر 8070 کے نمبر سے ایک لنک بھیجے گا۔

اس لنک پر کلک کرتے ہی شہری کے موبائل فون کا کیمرہ اور لائیو فیڈ سیف سٹی کے ساتھ منسلک ہو جائے گی۔

دوسرے طریقہ کار کے تحت، اتھارٹی کے پبلک سیفٹی ایپلیکشن میں ایک ’کنیکٹ ٹو پی ایس سی‘ فیچر متعارف کروایا گیا ہے جس کے ذریعے شہری اپنی لائیو فیڈ کو سیف سٹی کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔

سیف سٹی اتھارٹی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر احسن یونس کا کہنا تھا کہ لائیو ویڈیو پبلک سیفٹی کا ایک ٹول ہے جس کے ذریعے شہری ڈکیتی، فائرنگ، ہراسانی جیسے جرائم یا دیگر ہنگامی صورتحال کے دوران لائیو ویڈیو شیئرنگ کے لیے سیف سٹی کو رضاکارانہ طور پر مطلع کر سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس فیچر سے نہ صرف سیف سٹی کو واقعے کی نوعیت کا اندازہ لگانے اور مطلوبہ نفری کی تعداد کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ حکام انھیں بہتر طریقے سے احکامات بھی جاری کر پاتے ہیں۔‘

احسن یونس کہتے ہیں یہ فیچر تبھی فعال ہوتا ہے جب کوئی شہری پبلک سیفٹی ایپ کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کرتا ہے یا 15 پر کال کر کے اس کی درخواست کرتا ہے۔

کیا سیف سٹی آپ کے کیمرے تک کسی بھی وقت رسائی حاصل کر سکتا ہے؟

کسی بھی ایپلیکیشن کو ڈاؤن لوڈ یا استعمال کرتے وقت کئی لوگ اس بات کا خیال ضرور رکھتے ہیں کہ مذکورہ ایپ ان کے موبائل کے کن فیچرز تک رسائی مانگ رہی ہے۔

اپنی سائبر سکیورٹی کا خیال رکھنے والے اکثر افراد کیمرے، مائیکروفون یا اپنی لوکیشن جیسی حساس معلومات تک بیشتر ایپس کی رسائی کو صرف اس وقت تک کے لیے محدود کر دیتے ہیں جب وہ ایپ استعمال ہو رہی ہو۔

لیکن اکثریت ان باتوں کا دھیان نہیں رکھتے۔

سائبر سکیورٹی کنسلٹنٹ مرزا برہان بیگ کا کہنا ہے کہ جب بھی آپ کسی ایپلیکیشن کو اپنے موبائل کے کسی فیچر تک رسائی دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایپلیکیشن کسی بھی وقت اس مذکورہ فیچر تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔

برہان کہتے ہیں کہ ایسے میں جب کسی ایپ کو کیمرے تک رسائی کی اجازت دے دیتے ہیں تو وہ ایپ کسی بھی وقت آپ کا فرنٹ یا بیک کیمرہ کھول سکتی ہے۔

تاہم سیف سٹی کے ایم ڈی دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی شہری کی واضح اجازت کے بغیر ان کا کیمرہ آن نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا کہنا ہے کہ سیف سٹی کسی بھی ڈیوائس تک ریموٹلی رسائی حاصل نہیں کر سکتا اور رسائی صرف اس دورانیے کے محدود ہوتی ہے جب تک لائیو فیڈ چل رہی ہے، اس کے بعد موبائل تک سیف سٹی کی رسائی خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔

ایم ڈی سیف سٹی کے مطابق، سیف سٹی کا نظام گیلری، فائلز یا فون میں موجود کانٹیکٹس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔

احسن یونس کہتے ہیں کہ سیف سٹی کی جانب سے میسج صرف حکومت پنجاب کے سرکاری نمبر 8070 سے بھیجا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کو مزید محفوظ بنانے کے لیے اسے سیف سٹی کے اپنے نمبر 9115 پر منتقل کیا جا رہا ہے۔

سیف سٹی حکام کی جانب سے جاری معلوماتی ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ سیف سٹی کی جانب سے ویڈیو لنک والا ایس ایم ایس اس ہی وقت بھیجا جاتا ہے جب کوئی 15 پر کال کر کے شکایت رجسٹر کروائے اور لائیو ویڈیو شیئر کرنے کے لیے لنک کی درخواست کرے۔

برہان بیگ ایس ایم ایس کے ذریعے ویڈیو شیئرنگ کے لیے لنک بھیجے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جعلسازوں کے لیے جعلی یا ملتے جلتے نمبرز سے میسجز بھیجنا بالکل بھی مشکل کام نہیں۔‘

وہ حال ہی میں کراچی میں نافذ کیے گئے ای چالان نظام کے بعد لوگوں کی جانب سے جعلسازی کی شکایتوں کا حوالہ دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ای چالان کے نفاذ کے بعد کئی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں جعلی نمبروں سے چالان کے متعلق میسجز وصول ہوئے۔ ’جب لوگوں نے ان میسجز میں دیے گئے لنکس پر کلک کیا تو ان کا ڈیٹا کمپرومائز ہو گیا۔ ایسا ہی کچھ یہاں بھی ہو سکتا ہے۔‘

احسن یونس کہتے ہیں کہ سیف سٹی کبھی بھی رقم، ذاتی ڈیٹا یا کوئی چیز ڈاؤن لوڈ کرنے کا نہیں کہتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میسج میں صرف لائیو ویڈیو شیئرنگ کے لیے ایک لنک بھیجتا ہے جو اگر نہ کھولا جائے تو پانچ منٹ میں ایکسپائر ہو جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ یہ فیچر صرف اس وقت فعال ہوتا ہے جب شہری نے پہلے 15 پر کال کی ہو۔ ’اگر کوئی کال نہ کی گئی ہو تو کبھی کوئی پیغام نہیں بھیجا جاتا۔‘

برہان بیگ کہتے ہیں کہ حکام کو اس متعلق آگاہی بھی پھیلانے کی ضرورت ہے کہ ’یہ ایس ایم ایس کس نمبر سے اور کس صورت میں موصول ہو گا ورنہ جعلساز لوگوں کو نشانہ بناتے رہیں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US