جان شاہ صافی: دولت اسلامیہ کو مدد فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے افغان خفیہ ایجنسی کے سابق افسر کون ہیں؟

امریکہ میں گزشتہ تقریباً ایک ہفتے کے دوران اب تک تین افغان شہریوں کو پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا جا چُکا ہے۔

امریکہ میں گذشتہ تقریباً ایک ہفتے کے دوران کم از کم تین افغان شہریوں کو پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا جا چُکا ہے۔

امریکہ میں ان گرفتار ہونے والے تین افغان شہریوں میں رحمان اللہ، جان شاہ صافی اور محمد داؤد الوکزئی شامل ہیں۔

منگل کے روز امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے جان شاہ صافی نامی ایک افغان شہری کو گرفتار کیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنھوں نے عراق اور شام کی دولتِ اسلامیہ کی ایک شاخ خراسان کی مدد کی اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے والد کو بھی ہتھیار فراہم کیے جو افغانستان میں ایک مسلح گروہ کے کمانڈر ہیں۔

ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹین نُوم کے مطابق جان شاہ صافی کو بدھ کے روز ریاست ورجینیا کے علاقے وینزبورو میں امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ ایجنسی کی ہوم لینڈ سکیورٹی انویسٹی گیشنز ڈویژن کے اہلکاروں نے گرفتار کیا۔

ایجنسی کا کہنا ہے کہ صافی امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے ’دہشت گرد‘ ہیں، جو 8 ستمبر 2021 کو بائیڈن انتظامیہ کے ’آپریشن ویلکم فرینڈز‘ پروگرام کے تحت امریکہ پہنچے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے عارضی تحفظ کے لیے درخواست دی تھی، مگر یہ درخواست اس وقت منسوخ ہو گئی جب سیکریٹری کرسٹین نُوم نے افغان شہریوں کے لیے عارضی تحفظ کا پروگرام ختم کر دیا۔

ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹین نُوم نے کہا کہ ’آج ہمارے بہادر افسران نے جان شاہ صافی کو گرفتار کیا، جو ایک ایسا دہشت گرد ہے جس نے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کو مدد فراہم کی۔ یہ ’دہشت گرد‘ ہمارے دارالحکومت سے چند میل کے فاصلے پر گرفتار ہوا، جہاں چند روز قبل ایک اور افغان ’دہشت گرد‘ نے ہمارے بہادر نیشنل گارڈز کے اہلکاروں سارہ بیکستروم اور اینڈریو وولف کو گولی ماری تھی۔‘

سیکریٹری کرسٹین نُوم کے مطابق ’بائیڈن انتظامیہ نے امریکی تاریخ کے بدترین قومی سلامتی کے بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا۔ بائیڈن نے تقریباً ایک لاکھ 90 ہزار ایسے افغان شہریوں کو مُلک میں آنے کی اجازت دی کہ جن کے پاس قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے مکمل دستاویزات نہیں تھے۔ان افغان شہریوں کی شناخت اس وقت سامنے آئی کہ جب وہ امریکی سرزمین پر پہنچ چکے تھے۔‘

انھوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری سے اس بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات پر کام کر رہے ہیں تاکہ مُلک سے اس مسئلے کو ختم کیا جا سکے۔‘

جان شاہ صافی سے متعلق خبریں سامنے آنے کے بعد سابق افغان کمانڈرز اور دیگر حلقوں کی جانب سے اس معاملے پر تنقید بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ماضی میں افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ میں بطور ڈائریکٹر تعینات رہنے والے رحمت اللہ نبیل نے سوشل میڈیا سائیٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’یہ صورتحال واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسیاں سیاسی مقابلے سے بہت زیادہ متاثر ہو گئی ہیں اور انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت پر فوکس کو کھو دیا ہے۔ ایسے ماحول میں صافی جیسے لوگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے سب سے سرگرم اور مؤثر افسران میں شمار ہوتے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف کام، انتہا پسندوں کے نیٹ ورکس کی نشاندہی اور انٹیلیجنس ذرائع کو سنبھالنے میں ان کی خدمات اُن کی پہچان کا باعث بنیں۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’صافی کا اثر و رسوخ جزوی طور پر اُن کے والد حاجی جنداد خان صافی کی میراث سے آیا، جو سابق سوویت یونین کے خلاف جہاد کے دوران ایک کمانڈر تھے جو طالبان اور داعش کے سخت مخالف تھے۔ طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں، جنداد خان نے احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر لڑائی کی، جس نے ان کے خاندان کو مقامی برادریوں میں دیرپا احترام، اعتماد اور رسائی دلائی۔‘

رحمت اللہ نبیل کے مطابق ’اسی پس منظر کو استعمال کرتے ہوئے، جان شاہ صافی طالبان کے کچھ حلقوں، داعش کے عناصر، اور دیگر مقامی گروہوں کے اندر اہم اور قابلِ اعتماد انٹیلیجنس ذرائع قائم اور منظم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ان کے انٹیلیجنس افسر ہونے کے فرائض کا ایک معمولی اور لازمی حصہ تھا۔ خطرات کی نشاندہی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنے میں ان کی کوششیں انتہائی مؤثر سمجھی جاتی تھیں۔‘

’جہاں تک مجھے علم ہے، 2021 میں ننگرہار کے طالبان کے ہاتھوں گرنے کے بعد، انھوں نے کنڑ واپس جا کر طالبان کے خلاف مقامی مزاحمت شروع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، بالکل اسی طرح جیسے ان کے والد نے ماضی میں کیا تھا۔ تاہم امریکی افواج نے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ان پر زور دیا کہ وہ افغانستان چھوڑ دیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہاں ایک اہم سوال جنم لیتا ہے کہ کیوں امریکی سیاسی رقابتیں بعض اوقات اُن لوگوں پر الزامات لگانے کا باعث بنتی ہیں جو حقیقت میں دہشت گردی کے خلاف لڑے، جبکہ کچھ واقعی خطرناک گروہوں کے ساتھ حیران کن نرمی برتی جاتی ہے؟ یہ تضادات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں ایسے معاملات کو سیاسی اور انٹیلیجنس پیچیدگیوں کو سمجھتے ہوئے احتیاط سے پرکھنا چاہیے۔‘

ماضی میں افغانستان کی جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ میں بطور کمانڈر تعینات رہنے والے سمیع سادات نے بھی سوشل میڈیا سائیٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’جان شاہ صافی دہشت گرد نہیں ہیں، وہ افغانستان کے سب سے مؤثر انٹیلیجنس افسر تھے جنھوں نے کنڑ صوبے میں خدمات سرانجام دیں اور القاعدہ اور داعش خراسان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کی قیادت کی۔ اُن کے والد فریڈم فائٹر تھے جنھوں نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی۔ انھیں (صافی کو) دہشت گرد کہنا غلط ہے اور یہ جنگ میں ساتھ رہنے والی اتحادیوں کے ساتھ غداری ہے۔‘

’ایک انٹیلیجنس افسر کے طور پر سب ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ معلومات اکٹھی کی جا سکیں، لیکن (امریکی محکمہ) ہوم لینڈ سکیورٹی اتنا بے وقوف ہے کہ یہ سب نہیں جانتا۔ میں بریگیڈیئر جنرل صافی کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کو انھیں فوراً انہیں رہا کرنا چاہیے اور معافی مانگنی چاہیے۔‘

صحافی بلال سروری نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’جہان شاہ صافی طویل عرصے تک نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس)کے افسر رہے جو اپنے آبائی صوبہ کنڑ میں خدمات انجام دیتے تھے۔ بعد ازاں انھیں ادارے میں اعلیٰ عہدوں پر ترقی دی گئی، پہلے کنڑ میں این ڈی ایس کے ڈپٹی چیف کے طور پر اور بعد میں ننگرہار صوبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر آف آپریشنز(این ڈی ایس)کے طور پر۔‘

’برسوں تک انھوں نے مشرقی افغانستان میں کام کرنے والی امریکی فوجی اور انٹیلیجنس یونٹس کے ساتھ قریبی تعاون اور شراکت داری کی۔ امریکی افسران انھیں اُن کی قابلِ اعتماد شخصیت، عملی مؤثریت، اور کنڑ، ننگرہار کوریڈور میں باغی نیٹ ورکس کے بارے میں اُن کی گہری معلومات کی وجہ سے بخوبی جانتے تھے۔‘

محمد داؤد الوکزئی

دوسری جانب امریکی حکام نے ٹیکساس میں ایک اور افغان شہری کو گرفتار کیا ہے جن پر ’بم بنانے اور خودکشی حملوں کی دھمکیوں‘ کے الزامات لگائے گئے ہیں اور ان پر فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے منگل دو دسمبر کو ایک بیان میں کہا کہ ٹیکساس کے فورٹ ورتھ علاقے کے 30 سالہ افغان شہری محمد داؤد الوکزئی نے 23 نومبر کو ٹک ٹاک، ایکس، اور فیس بک پر پوسٹ دھمکی آمیز پیغامات ویڈیوز کی صورت میں شئیر کیے۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق اس ویڈیو میں الوکزئی ’طالبان‘ کی تعریف کرتے اور امریکی شہریوں کے خلاف ’خودکش حملے‘ کرنے کی دھمکیاں دیتے دیکھائی اور سُنائی دے رہے ہیں۔

ایف بی آئی کے ڈلاس ڈویژن کے ڈائریکٹر جوزف روتھراک نے کہا کہ ’آن لائن ویڈیو میں دھمکی آمیز مواد کی شکایات پر ایف بی آئی کی جوائنٹ ٹیررزم ٹاسک فورس نے اس شخص کو اس سے پہلے گرفتار کر لیا کہ وہ کوئی پُرتشدد کارروائی کرتا۔‘

رحمان اللہ لکنوال

رحمان اللہ
Reuters
رحمان اللہ لکنوال افغانستان میں سی آئی اے کے لیے کام کرتے رہے ہیں

امریکہ میں پروسیکیوٹرز نے گذشتہ بدھ کو واشنٹگٹن ڈی سی میں فائرنگ کر کے ایک نیشنل گارڈ کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کرنے والے افغان حملہ آور کے خلاف باقاعدہ طور پر قتل کے الزامات عائد کر دیے ہیں۔

چارج شیٹ کے مطابق رحمان اللہ نے فائرنگ کرتے ہوئے ’اللہُ اکبر‘ کا نعرہ لگایا اور گارڈ کی فائرنگ سے زخمی ہونے کے باوجود بھی اپنی گن دوبارہ لوڈ کی۔

بی بی سی کے امریکی پارٹنر ادارے سی بی ایس کے مطابق سنہ 2021 میں افغانستان سے امریکہ آنے والے رحمان اللہ لکنوال نے ہسپتال کے بستر سے عدالت میں ورچوئل حاضری کے دوران صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔

رحمان اللہ کے خلاف چارج شیٹ میں فرسٹ ڈگری قتل اور قتل کرنے کی نیت سے حملہ کرنے کے الزامات شامل ہیں۔

اس حملے میں نیشنل گارڈ کی 20 سالہ اہلکار سارہ بیکسٹارم ہلاک ہوگئی تھیں جبکہ 24 سالہ اینڈریو ولف زخمی ہوئے تھے۔

عدالت میں چارج شیٹ کے ساتھ تصاویر اور کیمرے کی فوٹیج بھی جمع کروائی گئی ہے۔

عدالتی دستاویز کے مطابق ایک سپروائزر نے فائرنگ کی آواز سُنی اور دونوں اہلکاروں کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا۔

عدالتی دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ سپروائزر نے 'فوراً اپنی پستول نکالی' اور حملہ آور کا مقابلہ کیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں حملہ آور زخمی ہو کر زمین پر گِر گیا۔

خیال رہے گذشتہ جمعرات کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سروس کے ارکان کے ساتھ تھینکس گیونگ کال کے دوران 20 سالہ سارہ بیکسٹارم کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ انتہائی قابلِ احترام، نوجوان، شاندار شخصیت کی مالک تھیں۔۔ جو اب ہمارے ساتھ نہیں رہیں۔‘

وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر ادارے ’سی بی ایس‘ کو بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ نے سارہ کے اہلخانہ سے ٹیلی فون پر بات بھی کی ہے۔

اس سے قبل امریکہ میں حکام نے وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈز کے دو اہلکاروں کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کرنے والے 29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کی تصویر جاری کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ حملہ آور ماضی میں افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے لیے کام کرتا رہا ہے۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلیف نے امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر ادارے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ مشتبہ شوٹر (رحمان اللہ) کو امریکہ آنے کی اجازت اس لیے دی گئی تھی کیونکہ وہ ماضی میں امریکی حکومت کے لیے کام کرتے رہے تھے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ستمبر 2021 میں شوٹر کو ماضی میں اس کے امریکہ، بشمول سی آئی اے، کے لیے کیے گئے کام کی وجہ سے امریکہ لایا گیا تھا۔

جان ریٹکلیف نے کہا کہ ’افغانستان سے بائیڈن کے تباہ کن انخلا کے تناظر میں، بائیڈن انتظامیہ نے مبینہ شوٹر کو ستمبر2021 میں امریکہ لانے کا یہ جواز پیش کیا کہ اُس نے امریکی حکومت، بشمول سی آئی اے کے ساتھ، قندھار میں ایک پارٹنر فورس کے رُکن کے طور پر کام کیا تھا۔‘

ایف بی آئی حکام نے فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہونے والی نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں کی شناخت 20 سالہ سارہ بیکسٹارم اور 24 سالہ اینڈریو وولف کے طور پر کی تھی۔

اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے ایف بی آئی ڈائریکٹر کیش پٹیل نے کہا کہ وہ حملہ آور کی رہائش گاہ تک بھی پہنچ چکے ہیں جہاں سے ’بہت سے الیکٹرانک آلات‘ بشمول موبائل فونز، لیب ٹاپس اور آئی پیڈز کو قبضے میں لیا گیا اور ان کے تجزیے کا عمل جاری ہے۔

اہلکار
Reuters
نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں کی شناخت 20 سالہ سارہ بیکسٹارم (دائیں) اور 24 سالہ اینڈریو وولف (بائیں) کے طور پر کی گئی

انھوں نے کہا کہ امریکی حکام شواہد کی روشنی میں امریکہ اور دنیا بھر میں تفتیش کی غرض سے ہر مقام تک جائیں گے۔

ایک پریس کانفرنس کے دوران یو ایس اٹارنی جینین پیرو نے بتایا کہ حملہ آور نے کارروائی کے لیے 257 سمتھ اینڈ ویسن ریوالور کا استعمال کیا۔ اس حملے کا محرک کیا تھا؟ حکام کا کہنا ہے کہ یہ قبل از وقت ہو گا اور اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ حملہ آور واشنگٹن میں اپنی اہلیہ اور ’ہمارے خیال میں‘ پانچ بچوں کے ہمراہ رہائش پذیر تھا۔

اس سے قبل امریکہ کے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے مشتبہ حملہ آور کی شناخت 29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کے طور پر کی۔

بی بی سی کے امریکہ میں پارٹنر ادارے 'سی بی ایس نیوز' کے مطابق مشتبہ حملہ آور نیشنل گارڈ کے ایک اہلکاروں کی جوابی کارروائی کے بعد زخمی حالت میں حراست میں لیے گئے اور اس وقت وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق 29 سالہ مشتبہ حملہ آور رحمان اللہ ستمبر 2021 میں افغانستان سے امریکہ آئے تھے۔

محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے ’ایکس‘ پر کہا کہ مشتبہ حملہ آور 8 ستمبر 2021 کو افغان شہریوں کے لیے مختص بائیڈن دور کے پروگرام ’آپریشن الائیز ویلکم‘ کے تحت امریکا لائے گئے تھے۔

تصویر
Reuters
امریکی حکام حملہ آور کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کر رہے ہیں

ہوم لینڈ سکیورٹی کے مطابق اس پروگرام کے تحت ہزاروں ’انویٹیڈ‘ (وہ افراد جنھیں امریکہ لانے سے قبل اُن کا پس منظر اور سکیورٹی کی کلیئرنس نہیں کی گئی تھی) افغان شہریوں کو افغانستان سے امریکہ لایا گیا تھا۔

صدر ٹرمپنے بھی اپنے ایک ویڈیو پیغام میں مشتبہ حملہ آور کو ’ایک غیر ملکی جو افغانستان ، زمین پر جہنم، سے ہمارے ملک میں داخل ہوا‘ قرار دیا۔ ٹرمپ نے اسے ’دہشت گردی کا واقعہ‘ قرار دیا۔

سی بی ایس نیوز کو محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ مشتبہ شخص کو ’انسانی ہمدردی کی بنیادوں‘ پر امریکہ لایا گیا تھا۔ ’آپریشن الائیز ویلکم‘ وہ اہم قانونی طریقہ کار تھا جس کے تحت بائیڈن انتظامیہ نے اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سینکڑوں افغان شہریوں کے ملک سے انخلا کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

ان میں سے زیادہ تر افراد وہ تھے جنھوں نے گذشتہ 20 سال کے دوران افغانستان میں امریکہ اور اس کی افواج کی کسی نہ کسی صورت میں مدد کی تھی اور طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد انھیں ممکنہ خطرات لاحق تھے۔

سی بی ایس نیوز کے مطابق رحمان اللہ نے سنہ 2024 میں امریکہ میں پناہ کے لیے درخواست دائر کی جسے منظور کر لیا گیا اور فی الحال اُن کے گرین کارڈ کی درخواستزیر التوا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کے پروگرام کے تحت امریکہ لائے گئے بہت سے افغان شہریوں کو خصوصی امیگریشن ویزوں کا اجرا کیا تھا کیونکہ یہ وہ افراد تھے جنھوں نے گذشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان میں موجود امریکہ کی افواج کے ساتھ کام کیا گیا تھا۔

تصویر
Getty Images
رحمان اللہ ستمبر 2021 میں افغانستان سے امریکہ آئے تھے

اسی طرح کچھ افغان شہریوں کو عارضی انسانی ہمدردی سٹیٹس (جسے پیرول کہا جاتا ہے) پر امریکہ لایا گیا جبکہ 8000 افراد کو ایک اور پروگرام ’ٹیمپریری پروٹیکٹڈ سٹیٹس‘ پر امریکہ لایا گیا، اس پرواگرام کو موجودہ صدر ٹرمپ نے رواں برس کے آغاز پر ختم کر دیا تھا۔

ڈی سی میٹروپولیٹن پولیس کے افسر جیف گیرول نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’تنہا حملہ آور‘ نے فائرآرم (بندوق) اٹھایا اور ماس ٹرانزٹ سٹیشن پر گشت کرنے والے نیشنل گارڈ کے تین اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔

جمعرات کی صبح ایک پریس کانفرنس میں، ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کیش پٹیل نے لکنوال کے امریکی افواج سے تعلق کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا امریکہ منتقل ہونے سے پہلے ’افغانستان میں شراکت دار فورسز کے ساتھ تعلق تھا۔‘

ایک اہلکار نے سی بی ایس کو بتایا کہ لکنوال نے 2024 میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی اور ان کی درخواست اس سال کے شروع میں منظور کر لی گئی تھی۔

سی بی ایس نیوز کو ذرائع نے بتایا کہ حملہ آور کی بندوق میں گولیوں کے چار راؤنڈ تھے اور ایک خاتون افسر اس کے حملے کا پہلا نشانہ بنیں۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق خاتون اہلکار کو دو گولیاں لگیں اور وہ فی الفور گر گئی اور حملہ آور نے خاتون کی بندوق اٹھائی اور اس سے فائرنگ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

یاد رہے کہ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد امریکہ کے شہریت اور امیگریشن سروسز کے محکمے نے ’سکیورٹی اور جانچ کے پروٹوکولز‘ کے جائزے تک افغان شہریوں کی امیگریشن کی تمام درخواستوں پر کارروائی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ایکس پر جاری ایک بیان میں محکمے کا کہنا ہے کہ اپنے ملک اور امریکی عوام کی حفاظت اُن کا واحد مشن ہے اور اسی مقصد کے تحت یہ فیصلہ لیا گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US