پولیس نے مقامی میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ تاحال اس لاکٹ کو برآمد نہیں کر سکے ہیں۔ یہ انڈہ نما فبرگے لاکٹ تھا جس کی قیمت 19 ہزار 300 ڈالر (تقریباً 54 لاکھ پاکستانی روپے) ہے۔

کچھ انڈوں کو نگلا جا سکتا ہے اور کچھ کو نہیں، نیوزی لینڈ میں ایک شخص کو ایسے ہی انڈے کو نگلنے کے سبب حوالات کی ہوا کھانا پڑی۔
یہ ایک ایسا انڈا تھے جس پر ہیرے جڑے ہوئے تھے اور اسے نگلنے والے شخص پر چوری کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔
یہ ایک انڈا نما لاکٹ تھا جو روسی جیولری ہاؤس فیبرگے نے بنایا تھا۔ اس کی مالیت 54 لاکھ پاکستانی روپے سے زیادہ ہے۔
نیوزی لینڈ میں پولیس نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ یہ انڈا تاحال ’برآمد‘ نہیں کیا جا سکا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ فیبرگے انڈا اتنا قیمتی کیوں ہے؟
چوری ہونے والے انڈے کی خاصیت کیا تھی؟
جیولرز کی ویب سائٹ کے مطابق مبینہ طور پر چوری ہونے والے فیبرگے انڈے میں 60 سفید ہیرے اور 15 الماس کے قیمتی پتھر لگے ہوئے ہیں۔
اس لاکٹ کو ’آکٹوپسی ایگ‘ کہا جاتا ہے جسے جیمز بانڈ کی ایک فلم سے متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔ اس نام سے جیمز بانڈ سیریز کی ایک فلم سنہ 1983 میں ریلیز ہوئی تھی، جس کی کہانی فبرگے ایگ لاکٹ کی چوری پر مبنی تھی۔
سونے اور دیگر نایاب پتھروں سے بنائے گئے یہ انڈے اکثر اپنی سادہ بناوٹ کے باوجود بھی بہت مہنگے ہوتے ہیں۔
ایسا ہی ایک ونٹر ایگ 2 دسمبر کو لندن میں تین کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا فروخت ہوا تھا۔ اس میں 4500 ہیرے لگے ہوئے تھے۔
اس سے قبل سب سے مہنگا فیبرگے انڈا سنہ 2007 میں ایک نیلامی کے دوران 89 ملین ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔

یہ انڈے آئے کہاں سے؟
سنہ 1885 میں روسی بادشاہ الیگزینڈر سوم نے اپنی اہلیہ ماریہ فیودورونا کو ایک سفید انڈا ایسٹر کے تحفے میں دیا تھا۔ اس کے اندر ایک سونے کی مرغی تھی اور اس مرغی کے اندر بھی دو چیزیں تھیں: ایک چھوٹا تاج اور ایک روبی کا بنا ہوا انڈا۔
اسے ’فرسٹ ہین‘ کا نام دیا گیا تھا اور یہ ان 50 ایسٹر انڈوں میں سے ایک تھا جسے روسی شاہی خاندان کے لیے بنایا گیا تھا۔ ان انڈوں کو رومانوز بھی کہا جاتا ہے اور انھیں پیٹر کارل فیبرگے نے سنہ 1885 اور 1917 کے درمیان سینٹ پیٹرزبرگ میں بنایا تھا۔
جب سنہ 1917 میں بالشویک اقتدار میں آئے تو نکولس دوم اور الیگزنڈر کو پانچ بچوں کے ہمراہ بیدردی سے قتل کر دیا گیا تھا اور اسی طرح انڈے تحفے میں دینے کی خاندانی روایت اپنے اختتام کو پہنچی۔
بالشویک کے سربراہ ولادیمیر لینن نے سنہ 1918 میں ہاؤس آف فیبرگے کو قومیا لیا اور پیٹر فیبرگے کو جلا وطن ہونا پڑا، جہاں وہ دو برس بعد سوئٹزرلینڈ میں وفات پا گئے۔
اسی وقت ان سہنرے انڈوں کی پیداوار ہمیشہ کے لیے رُک گئی اور ان کو بنانے والی کمپنی بھی اپنا وجود کھو بیٹھی۔
لینن کے احکامات پر فیبرگے کے بنائے گئے انڈے بھی خزانے میں شامل کر دیے گئے اور انھیں کریملن میں محفوظ کر دیا گیا۔
بعد میں سوویت حکومت نے ریاستی انڈسٹریل آئزیشن اور زراعت کے پروگرام شروع کرنے کے لیے ان انڈوں کو فروخت کرنا شروع کر دیا۔
سٹالن کے احکامات پر اس وقت بیرونِ وقت ایسے 14 انڈے فروخت ہوئے تھے۔
لاپتا انڈے
آج دہائیوں قبل بنائے گئے 50 فیبرگے انڈوں میں 43 عجائب گھروں اور کچھ لوگوں کی ذاتی کلیکشن میں موجود ہیں، جبکہ سات لاپتا ہیں۔
سنہ 2015 میں امریکہ سے گمنام شخص نے ہاؤس آف فیبرگے سے رابطہ کیا اور بتایا کہ اسے تیسرا شاہی ایسٹر انڈا مل گیا۔
یہ شخص دراصل کباڑ کا کام کرتا تھا اور اس نے یہ انڈا اس کی اصل قیمت سے بے خبر ہو کر خریدا تھا۔ ان کا ارادہ اسے پگھلانے کا تھا۔
سنہ 2007 میں ہاؤس آف فیبرگے کو دوبارہ قائم کیا گیا اور اسے کے بانی کے خاندان سے جوڑ دیا گیا۔ اس کی بانی کی پڑپوتیوں تاتیانا اور سارہ نے اسے دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کیا۔

سنہ 2015 میں فیبرگے نے ایک مرتبہ پھر انڈے بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور اپنے پہلے انڈے کو ’پرل ایگ‘ کا نام دیا۔
اس انڈے کو سعودی الفردین خاندان کے لیے بنایا گیا تھا، اس پر 139 سفید موتی اور 3305 ہیرےلگے ہوئے تھے۔
سنہ 2021 میں فیبرگے نے گیم آف تھرونز کی تھیم پر بھی ایک انڈا بنایا تھا۔ اس انڈے کے کھلنے پر اندر ایک تاج نظر آتا تھا۔
جہاں تک نیوزی لینڈ میں نگلے گئے آکٹوپسی ایگ کا تعلق ہے، تو خدا ہی جانے کہ وہ کب برآمد ہو گا۔