ڈیرہ غازی خان میں بے گناہی ثابت کرنے کے لیے گرم لوہا پکڑوانے کی رسم پر جرگہ ممبران کے خلاف مقدمہ: ’آس آف‘ کی فرسودہ رسم کیا ہے؟

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے سرحدی ضلع ڈیرہ غازی خان میں انتظامیہ نے چوری کے الزام میںایک شخص کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے گرم لوہا ہاتھ میں پکڑنے کی سزا دینے والے غیرقانونی جرگے کے تمام اراکین کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
تصویر
Getty Images
اس فرسودہ قبائلی رسم کے تحت ملزم کے ہاتھ میں لوہے کا ٹکڑا انتہائی گرم کر کے پکڑایا جاتا ہے (فائل فوٹو)

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے سرحدی ضلع ڈیرہ غازی خان میں انتظامیہ نے چوری کے الزام میںایک شخص کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے گرم لوہا ہاتھ میں پکڑنے کی سزا دینے والے غیرقانونی جرگے کے تمام اراکین کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

یہ واقعہ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف کے قبائلی علاقے ’پگھلہ‘ میں گذشتہ ماہ پیش آیا تھا۔

مقامی حکام کے مطابق ایک مقامی شخص نے دوسرے پر سولر پلیٹس اور انورٹر چوری کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس پر یہ معاملہ جرگہ کے سامنے پیش ہوا تو جرگے نے متفقہ فیصلہ دیا کہ جس شخص کو الزام کا سامنا ہے وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے گرم لوہا ہاتھ میں پکڑے۔

اس علاقے میں رائج قبائلی روایات کے مطابق اگر الزام کا سامنا کرنے والا شخص بے گناہ ہو گا تو گرم لوہے سے اُس کے ہاتھ نہیں جھلسیں گے اور اگر گناہگار ہوا تو اُس کے ہاتھ جھلس جائیں گے۔

اس ایف آئی آر میں مقامی قبائلی عمائدین کے ساتھ ساتھ ایک ڈاکٹر کو بھی نامزد کیا گیا ہے جو مبینہ طور پر اُس جرگے کے رُکن تھے جس نے یہ فیصلہ صادر کیا۔

پولیٹکل اسٹنٹ امیر تیمور کمال نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص کے ہاتھ جرگے کے حکم جھلسائے گئے ہیں اُس نے ابھی تک پولیٹیکل انتظامیہ یا بارڈر پولیس کے پاس شکایت درج نہیں کروائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انتظامیہ کی معلومات کے مطابق یہ واقعہ پیش آیا ہے جو کہ قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور اسی بنیاد پر مقامی پولیٹیکل انتظامیہ اپنے طور پر اس کارروائی کو آگے بڑھائے گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ جرگے کے حکم پر گرم لوہا پکڑنے کے باعث جس شخص کے ہاتھ جھلسے ہیں اُس کی والدہنے پولیس کو اپنے بیٹے کو ڈرانے دھمکانے اور اغوا کرنے کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی ہے اور اس درخواست کو بھی انتظامیہ کی مدعیت میں درج مقدمے کا حصہ بنایا گیا ہے۔

پولیٹیکل اسسٹنٹ کے مطابق یہ واقعہ پانچ نومبر کو پیش آیا تھا تاہم اس کا مقدمہ تقریبا ایک ماہ بعد دو دسمبر کو درج کیا گیا ہے۔

مقدمہ میں کیا کہا گیا ہے؟

تصویر
Getty Images
یہ واقعہ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف کے قبائلی علاقے ’پگھلہ‘ میں پیش آیا ہے (فائل فوٹو)

یہ مقدمہ مقامی بارڈر پولیس کے ایس ایچ او حماد رضا کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو سوشل میڈیا کے ذریعے اطلاع ملی کہ موسیٰ نامی شخص کی سولر پلیٹس اور انورٹر تین نامعلوم ملزمان رات کو چوری کر کے لے گئے۔ ایف آئی آر کے مطابق اس پر موسیٰ نے کھوجی کتے منگوائے جو کہ شیر گل نامی شخص کے گھر کے آگے جا کر بیٹھ گئے، شیر گُل نامی شخص اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے تاہم اُن کے گھر میں چند خواتین اور شیر گُل کے ایک معذور بھائی موجود تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق جس شخص کی اشیا چوری ہوئی تھیں انھوں نے شبے کا اظہار کیا کہ شیر گُل دیگر دو ملزمان کے ہمراہ اس چوری میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا کہ ’مقامی معززین پنچایت کے لیے بطور ثالث مقرر ہوئے جبکہ ملزم سے الزام کی صفائی طلب کی گئی۔ جس پر شیر گل کو گرم لوہا پکڑوا کر 11 قدم تک چلوایا گیا جس کے باعث شیر گل کے ہاتھوں کی ہتھیلی جل گئی۔ ہتھیلی جلنے کے بعد شیر گل پر دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔‘

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ نومبر میں پیش آنے والے اس واقعے میں جرگے کے متعدد اراکین کو شامل جرم قرار دیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شیر گل کی والدہ حاجران بی بی نے بھی اس واقعے کی تصدیق کی ہے جبکہ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ ’شیر گل کو بعدازاں اغوا کیا گیا، ڈرایا گیا اور کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے پر خاموش رہے، اس سے زبردستی دو لاکھ روپیہ وصول کرنے کے علاوہ 70 ہزار کی زمین بھی وصول کی گئی ہے۔‘

پولیٹیکل اسسٹنٹ امیر تیمور کمال کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے، کسی بھی جرگے کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ جب اس واقعے کی اطلاع پولیٹکل انتظامیہ اور بارڈر فورس تک پہنچی تو ہم متحرک ہوئے اور تمام جرگہ ممبران کی شناخت کی گئی اور اب ان کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔‘

امیر تیمور کمالکا کہنا تھا کہ اس قبائلی علاقے میں طویل عرصے بعد ایسا واقعہ پیش آیا ہے کیونکہ ایسے معاملات پر قانون کی سخت گرفت کی بدولت غیرقانونی جرگوں کے انعقاد میں کمی آئی ہے۔

امیر تیمور کمال کا کہنا تھا کہ انتظامیہ شیر گل کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جاہلانہ اور فرسودہ رسم ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجائیت یا جرگہ میں ایک ڈاکٹر بھی موجود تھے، جو کہ پریکٹس کرتے ہیں اور اب اُن کا نام بھی ملزمان میں شامل ہے۔‘

تصویر
Getty Images
اسی نوعیت کی ایک اور رسم کے تحت ملزم کو بے گناہی ثابت کرنے کے لیے گہرے پانی میں پھینکا جاتا ہے (فائل فوٹو)

’آس آف‘ رسم ہے کیا؟

یہ واقعہ کوہ سلیمان کے قبائلی علاقے میں پیش آیا ہے اور مقامی افراد کے مطابق اس فرسودہ رسم کو ’آس آف‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

مقامی عمائدین کے مطابق یہ صدیوں پرانی رسم ہے جو وسط ایشیا، فارس اور افغان قبائل کسی ملزم کی بے گناہی یا اسے گناہ گار ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

تونسہ شریف کے صحافی عمر فاروقکے مطابق قبائلی علاقوں میں سچ، جھوٹ اور الزام کا فیصلہ آگ، پانی یا گرم دھات سے کیا جاتا ہے، جس میں آگ پر چلانا، پانی میں ڈالنا، یا گرم لوہے کا پھالا ہاتھ پر رکھنا شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حالیہ واقعے کو مثال لے کر سمجھ لیں کہ قبائلی علاقے میں ایک شخص نے دوسرے پر الزام عائد کیا کہ اس نے میری چوری کی ہے اور ممکنہ طور پر کوئی ابتدائی ثبوت بھی پیش کیا ہو گا، جس کے بعد جرگہ یا پنچایت بلائی گئی ہو گی جس نے صدیوں پرانی اس رسم کا سہارا لیا کہ اگر یہ شخص سچا ہے تو گرم لوہا یا پھالا اپنے ہاتھ میں اٹھائے، اگر سچا ہوا تو بچ جائے گا اور جھوٹا ہوا تو سزا مل جائے گی۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’آس آف‘ سے گزرنے والا شخص اگر زخمی ہو جائے تو معاملہ اس پر نہیں رُکتا بلکہ زخمی ہونے والے پر بھاری جرمانے وغیرہ بھی عائد کیے جاتے ہیں۔

عمر فاروق کا کہنا تھا کہ ایسا ہی ایک اور واقعہ تقریباً ایک سال پہلے منظر عام پر آیا تھا جب قبائلی علاقے زین سے تعلق رکھنے والے جمال بزدارنامی شخص کو ’کالا کالی‘ کے الزام پر جرگہ ارکان کی موجودگی میں گہرے پانی کے تالاب میں پھینکا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہا۔ اس واقعے سے متاثرہ شخص جمال بزدار نے اس رسم کے خلاف آواز اٹھائی تھی جس کے بعد باڈر ملٹریپولیس نے فوری کارروائی کر کے جرگہ کے افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔‘

52 سالہ سردار اسلم بزدارقبائلی رہنما اور سابق چیئرمین فاضلہ کچھ ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اب تو یہ رسم بہت زیادہ کم ہو چکی ہے کیونکہ حکومت اور بارڈر پولیس سختی کرتی ہے۔ تاہم اُن کے مطابق ان کے بچپن کے دور میں ایسے معاملات کافی زیادہ تھے۔

ان کا دعوی تھا کہ ’ہم دیکھتے تھے کہ جس پر الزام عائد کیا جائے وہ پانی میں چھلانگ لگاتا، آگ پر چلتا یاگرم لوہا پکڑتا۔ اگر وہ بے گناہ ہوتا تو اس کو کوئی نقصاں نہ ہوتا اور اگر گناہ گار ہوتا تو پھر اس کو نقصان ہوتا تھا۔ میں خود کئی ایسے مواقع کا عینی شاہد ہوں۔‘

سردار اسلم بزدار کہتے ہیں ’جھوٹ اور سچ کا پتا چلانے کے لیے پنچایت یا جرگہ بلایا جاتا ہے، جس میں الزام لگانے والا اور پھر الزام کا سامنا کرنے والا دونوں پیش ہوتے ہیں۔ دونوں اپنی مرضی سے فیصلے کا اختیار جرگہ یا پنچایت کو دیتے ہیں اور پھر جس کو الزام کا سامنا کرنا ہوتا ہے وہ اس بات کا انتخاب کرتا ہے کہ وہ کون سے طریقہ اختیار کرئے گا۔ آگ پر چلے گا، گرم لوہا پکڑے گا یا پانی میں کھودنے کا۔‘

سردار اسلم بزدار نے واضح کیا کہ بی بی سی سے بات کرنے کا اُن کا مقصد اس رسم کی حمایت یا مخالفت نہیں بلکہ اپنے تجربات بیان کر رہے ہیں۔

’یہ انصاف نہیں، ظلم ہے‘

جمال بزدار تمن بزدار کے رہائشی ہیں۔ اُن کو گذشتہ سال ایسے ہی الزام میں پانی میں ڈالنے کا فیصلہ دیا گیا تھا، مگر وہ محفوظ رہے جس کے بعد انھوں نے اس پر آواز بلند کی اور ان کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا اور جرگہ ممبران گرفتار ہوئے تھے۔

جمال بزدار کا کہنا تھا کہ ’یہ فرسودہ اور بے ہودہ رسومات ہیں۔ مجھے تو زبردستی پانی میں ڈالا گیا، وہاں پر میں نے ہمت سے کام لیا، اپنے حواس بحال رکھے اور پھر سب لوگوں کے سامنے صیح سلامت نکل آیا۔ میں پہلے بھی بے گناہ تھا اور میرے خلاف کوئی ٹھوس شہادت نہیں تھی۔ میرے خلاف الزام جھوٹا تھا مگر صرف جھوٹ الزام پر میرے تذلیل کی گئی، میں غیرقانونی فیصلے کے نتیجے میں موت کے منھ سے واپس آیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان رسومات کو مکمل طور پر بند ہونا چاہیے۔ لوگوں کی اس طرح تذلیل نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کسی پر الزام ہے تو قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہیے، شہادت اور گواہی ہونی چاہیے اور الزام ثابت ہونا چاہیے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ کیسی رسم ہے کہ نہ شہادت، نہ گواہی اور کہا جائے کہ چلو اب اگر تم سچے ہو توپانی میں چھلانگ لگاؤ یا لوہا پکڑ لو، اگر بے گناہ ہوئے تو بچ جاؤ گے۔۔۔ یہ انصاف نہیں، ظلم ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US