’اُس (مبینہ مجرم) کی آنکھیں بند تھیں۔ لیکن جب اُسے مقتول کے خاندان کے پاس آخری بار لایا گیا تو تو اُس کی آنکھوں سے پٹی اُتار دی گئی۔ (مبینہ مجرم) گھٹنوں کے بل مقتول کے اہلخانہ کے سامنے بیٹھ گیا اور معافی کی درخواست کی، لیکن خاندان والوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔‘
مبینہ مجرم کو فوجی ایمبولینس میں سٹیڈیم میں لایا جا رہا ہےانتباہ: اس مضمون میں موجودتفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
’سٹیڈیم لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور بےتحاشہ رش کے باعث افراتفری کی صورتحال تھی۔ اسی دوران ایک شخص کو سٹیڈیم کے بیچ کمبل پر لٹا دیا گیا اور اُس کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ کچھ دیر بعد پہلی گولی چلی اور اُس کے ساتھ ہی تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں۔ میں بہت خوفزدہ تھا، وہ منظر آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے۔‘
یہ افغانستان کے صوبہ خوست میں مبینہ قتل کے ایک مجرم کو سرعام موت کی سزا دینے کا منظر تھا اور اس واقعے کے ایک چشم دید گواہ نے ہمیں اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ عوام کے ہجوم کے بیچ موت کی سزا پر عملدرآمد کا یہ واقعہ دو دسمبر (منگل) کو پیش آیا جس کے بعد طالبان کے دورِ حکومت میں عوامی مقامات پر سزاؤں پر عملدرآمد پر دوبارہ توجہ مرکوز کر دی ہے۔
افغانستان میں طالبان حکام کادعویٰ ہے کہ موت کی سزا کو دیکھنے کے لیے ’80 ہزار سے زائد افراد جمع‘ ہوئے تھے جبکہ اس واقعے کے چشم دید گواہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ مناظر دیکھنے والوں میں مردوں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی موجود تھے۔
ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ پھانسی کی سزا پر عملدرآمد سے پہلے حکام ’مجرم‘ کو فوجی ایمبولینس کے ذریعے جیل سے اس میدان میں لائے جہاں سزا دی جانی تھی۔ سزا پر عملدرآمد سے قبل صوبہ خوست کے گورنر، پولیس چیف اور طالبان حکومت کے کئی اہلکار مقتول کے اہلخانہ کے پاس گئے تاکہ انھیں اس بات پر رضامند کیا جا سکے کہ وہ مبینہ قاتل کو معاف کر دیں۔
سزا پر عملدرآمد کے بعد مبینہ مجرم کی میت سرکاری ایمبولینس میں سٹیڈیم سے منتقل کی جا رہی ہے’اُس (مبینہ مجرم) کی آنکھیں بند تھیں۔ لیکن جب اُسے مقتول کے خاندان کے پاس آخری بار لایا گیا تو تو اُس کی آنکھوں سے پٹی اُتار دی گئی۔ (مبینہ مجرم) گھٹنوں کے بل مقتول کے اہلخانہ کے سامنے بیٹھ گیا اور معافی کی درخواست کی، لیکن خاندان والوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔‘
عینی شاہد کے مطابق ’اس رسمی کارروائی کے بعد اہلکاروں نے میدان میں پلاسٹک بچھایا اور اُس پر کمبل ڈال کر اس شخص کو وہاں لٹا دیا گیا۔ مقتول کے خاندان کا ایک فرد آگے بڑھا جسے پولیس کے ایک اہلکار نے بندوق تھما دی۔‘
’اس کے بعد میں نے چار گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔ لیکن میرے ساتھ کھڑے شخص نے کہا کہ اس نے سات گولیاں چلنے کی آوازیں سُنی ہیں۔ گولیاں اس شخص کے سینے پر ماری گئی تھیں۔‘
عینی شاہد، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، نے بتایا کہ یہ منظر ’خوفناک اور چونکا دینے والا‘ تھا اور اب وہ اس بات پر پشیمان ہیں کہ وہ وہاں یہ سب دیکھنے کے لیے کیوں گئے۔
’یہ سب دیکھنے کے بعد سے میں کچھ کھا پی نہیں سکا ہوں۔ آج بھی میرا ذہن پریشان ہے۔ اگر ایسا دوبارہ ہوا تو میرا خیال ہے کہ مجھ سمیت بہت سے لوگ دوبارہ ایسی تقریب دیکھنے نہیں جائیں گے۔‘
لوگ بڑی تعداد میں یہ سزائے موت دیکھنے کے لیے سٹیڈیم میں داخل ہو رہے ہیں’80 ہزار افراد یہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے‘
طالبان حکومت کے مطابق 80ہزار افراد خوست سپورٹس سٹیڈیم میں جمع ہوئے تاکہ پھانسی کا یہ منظر دیکھ سکیں۔
افغانستان کی سپریم کورٹ کے مطابق سرعام موت کی سزا پانے والے شخص کا نام منگل خان تھا جو کہ صوبہ پکتیا کے رہائشی تھے اور انھوں نے کچھ عرصہ قبل عبدالرحمان نامی شخص کو ’قتل‘ کیا تھا۔
افغان حکام کے مطابق مبینہ ملزم کو سرعام موت کی سزا دینے کا فیصلہ ’عدالتی کارروائی‘ کے بعد اور طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ کی منظوری سے جاری کیا گیا اور اس پر عملدرآمد دو دسمبر کی صبح 10 بجے کے لگ بھگ خوست سپورٹس سٹیڈیم میں کیا گیا۔
حکام کی جانب سے ابتدا میں بتایا گیا کہ ’قصاص‘ کی سزا پر عملدرآمد کرنے والاایک 12 سالہ بچہ (مقتول کا بیٹا) تھا، تاہم بعد ازاں خوست میں طالبان کے گورنر کے ترجمان مصطفغر گربز نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ’ایک نوجوان تھا جس کی عمر تقریباً 20 سے 22 برس تھی۔‘
اُنھوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’12 سال کا بچہ بندوق پکڑ بھی نہیں سکتا، سزا دینا تو دور کی بات ہے۔‘
گورنر کے ترجمان کے مطابق پھانسی پانے والے شخص پر ’13 دیگر افراد کے قتل‘ کا شبہ تھا۔
اس سزا پر عملدرآمد کے بعد متعدد مقامی باشندوں نے بی بی سی کو وائس میسجز بھیجے اور عوامی مقامات پر مجرموں کو پھانسی دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’عوامی سطح پر قصاص لینا ان لوگوں کے لیے سبق آموز ہوتا ہے جو جرم کی راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔‘
جبکہ بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق طالبان حامی اکاؤنٹس نے اس سزا کا خیرمقدم کیا ہے۔
یاد رہے کہ یہ طالبان کی جانب سے اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد 12ویں عوامی سطح پر دی گئی پھانسی یا موت کی سزا تھی۔
اس نوعیت کی زیادہ تر پھانسیاں بڑے سپورٹس سٹیڈیمز میں دی جاتی ہیں تاکہ ہزاروں افراد ان میں شرکت کر سکیں۔ خوست کے گورنر کے ترجمان نے کہا ہے کہ تقریب میں 80 ہزار افراد شریک ہوئے، تاہم اس تعداد کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
ایک شخص اپنے کم عمر بچے کے ہمراہ سزا پر عملدرآمد دیکھنے کے لیے سٹیڈیم میں داخل ہو رہا ہےطالبان حکومت کی عوامی پھانسیاں اور عالمی ردِعمل
طالبان حکومت کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلی عوامی پھانسی دسمبر 2022 میں صوبہ فراہ میں دی گئی تھی۔ اس کے بعد اسی نوعیت کی سزائیں دیگر صوبوں بشمول لغمان، غزنی، جوزجان، نیمروز اور بادغیس میں بھی نافذ کی گئیں۔
طالبان نے درجنوں افراد کو مختلف الزامات کے تحت عوامی مقامات پر کوڑے بھی لگائے ہیں۔ طالبان کے موجودہ عدالتی نظام کی قانونی حیثیت پر بحث جاری رہتی ہے۔
خوست میں عوامی پھانسی نے ایک بار پھر طالبان حکومت اور عالمی برادری کے درمیان انصاف، انسانی حقوق اور عدالتی طریقہ کار کے تصور پر گہرے اختلافات کو نمایاں کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے ’انسانی وقار کی کھلی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کو کمزور کرنے‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے افغانستان میں انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے اس پھانسی پر عوامی طور پر تشویش کا اظہار کیا اور افغانستان میں سزائے موت کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ نے بارہا خبردار کیا ہے کہ طالبان کا عدالتی نظام ضروری شفافیت سے محروم ہے، مقدمات کا عمل اکثر غیر واضح ہوتا ہے اور ملزمان کو آزاد وکیل تک رسائی حاصل نہیں ہوتی اور یہ سب مسائل دی جانے والی سزاؤں کی قانونی حیثیت پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور حامیوں کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان حکومت دوبارہ عوامی طور پر ’کوڑے لگانے، ہاتھ کاٹنے اور پھانسیاں‘ دینے جیسی سزائیں دے رہی ہے اور وہ اسے 'شریعت کے نفاذ'کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
1990 کی دہائی کے آخر میں طالبان کے سابقہ دورِ حکومت میں عوامی پھانسیاں اور سنگسار کرنے جیسی سزائیں اُن کے اقتدار کی نمایاں خصوصیات میں شامل تھیں۔
طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ ’قصاص کی سزا‘ اسلامی قانون کی بنیاد پر دی جاتی ہے اور وہ اس کے نفاذ کو افغانستان میں ’سنگین جرائم بشمول قتل کے واقعات‘ کو روکنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔