ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے خلاف متنازعہ ٹویٹ کیس کی سماعت آج ایڈیشنل سیشن جج محمد افضل مجوکہ نے کی، جہاں فریقین کے درمیان 342 کے بیانات اور گواہان کے حوالے سے دائر درخواست پر مفصل دلائل پیش کیے گئے۔
سماعت کے آغاز پر ہادی علی چٹھہ نے اپنی درخواست پر خود دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ 342 کا بیان ملزم کا بنیادی حق ہے، لیکن جب گواہان پر جرح ہوئی تو اسٹیٹ کونسل کو سوالنامہ دے دیا گیا۔ ان کے مطابق پراسیکیوشن نے جو سوالنامہ دیا اس پر انہوں نے انحصار نہیں کیا، بعدازاں عدالت نے 33 سوالات پر مشتمل نیا سوالنامہ جاری کیا۔
ہادی علی چٹھہ نے عدالت کو بتایا کہ ’’جو 342 کا جواب اسٹیٹ کونسل نے جمع کرایا وہ ہمارا نہیں ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسٹیٹ کونسل تیمور جنجوعہ پر عدم اعتماد کی درخواست بھی جمع کروائی ہے۔
ہادی علی چٹھہ نے عدالت میں گواہان کی فہرست بھی پڑھ کر سنائی، جن میں احمد نورانی کی والدہ، مدثر نارو کی والدہ، سردار اختر مینگل، شاعر احمد فرہاد، عارفہ نور سمیت دیگر نام شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت چاہے تو گواہان کو طلب کرے، یا وہ آن لائن بیانات بھی جمع کرا سکتے ہیں۔
سماعت کے دوران صدر ڈسٹرکٹ بار نعیم گجر، ممبر اسلام آباد بار راجہ علیم عباسی، اور سابق صدر ہائیکورٹ بار ریاست علی آزاد بھی عدالت میں موجود رہے۔
راجہ علیم عباسی نے عدالت میں کہا کہ میں نے آج تک ایسا نہیں دیکھا کہ ملزمان کی لاعلمی میں 342 کا بیان اسٹیٹ کونسل جمع کرا دے۔ ریاست علی آزاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو فیئر ٹرائل فراہم کرنا آئین کا تقاضا ہے اور آرٹیکل 10 اس سلسلے میں واضح ہے۔
پراسیکیوشن نے مؤقف اپنایا کہ فرانزک کے حوالے سے جو درخواست آئی تھی اسے تکنیکی طور پر دیکھا گیا ہے، جسے فرانزک ہی سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ملزمان کی جانب سے گزشتہ روز 342 کے حوالے سے کوئی واضح موقف نہیں دیا گیا۔
دلائل کے دوران عدالت میں متعدد بار سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ سماعت کے اختتام پر اسٹیٹ کونسل نے تحریری حتمی دلائل بھی جمع کرا دیئے۔ اسی دوران جج افضل مجوکہ کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلے گئے، جس پر وکلاء کی جانب سے نعرے بازی بھی کی گئی۔
عدالت نے ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کی متفرق درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی مزید سماعت سوموار تک ملتوی کردی۔