فلم ’دھورندھر‘ میں جس لیاری کو دکھایا گیا، کیا آج بھی لیاری ویسا ہی ہے، یہ جاننے کے لیے ہم نے پانچ روز لیاری کے محلوں، گلیوں کے چکر لگائے اور وہاں کے نوجوانوں سے بات کی۔

’میں نے جب ’دھورندھر‘ فلم کا ٹریلر دیکھا تو مجھے لگا جیسے میرا بچپن لوٹ آیا۔ جب یہ ساری چیزیں ہمارے سامنے ہوتی تھیں تو ہم تو سڑک پر کرکٹ کھیل رہے ہوتے تھے۔‘
کراچی کے علاقے لیاری میں گینگسٹرز کی لڑائی اور پولیس آپریشن کو انڈین فلم ’دھورندھر‘ کی کہانی میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کہانی نے ہپ ہوپ سنگر کامران آدم سموں جیسے لیاری کے کئی افراد کو ماضی کی یاد دلائی، جس کو بعض لوگ ’سیاہ دور‘ قرار دیتے ہیں۔
اس فلم کا ٹریلر اس وقت یوٹیوب پر ٹرینڈ کر رہا ہے جبکہ کئی صارفین فلم میں پرتشدد مناظر دکھائے جانے پر تنقید کر رہے ہیں۔
یہ فلم، جو بظاہر پاکستان اور انڈیا کی خفیہ ایجنسیوں کی ایک دوسرے کے ملک میں کارروائیوں کو بیان کر رہی ہے، ایسے وقت پر ریلیز کی جا رہی ہے جب پاکستان اور انڈیا کے مابین مئی کے تنازع کے بعد سے کشیدگی تاحال جاری ہے۔
مزدور بستی سے گینگز آف لیاری کا سفر
لیاری ٹاؤن کی آبادی سنہ 2023 کی مردم شماری کے مطابق تقریباً دس لاکھ ہے اور یہ کراچی کی گنجان آبادیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں بلوچ، سندھی، اردو، پشتون اور پنجابی آباد ہیں۔ ایک ایسا علاقہ جہاں ثقافتیں ساتھ رہتی ہیں۔
لیاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی نے کراچی شہر کو جنم دیا جہاں ابتدائی طور پر محنت کش طبقہ آباد ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی اور بندرگاہ قریب ہونے کی وجہ سے یہاں مزدور، کاریگر اور کاروباری لوگ بس گئے اور یہ شہر کا پہلا ورکنگ کلاس علاقہ بنا اور یوں یہ سیاسی سرگرمیوں اور مزدور تحریکوں کا بھی مرکز رہا۔
اکسیویں صدی کا آغاز اس علاقے کے لیے ناخوشگوار رہا۔ پہلے منشیات فروش اور اس کے بعد گینگسٹرز گروپ سرگرم ہوئے، شہر میں لسانی تفریق اور ہنگامہ آرائی نے بھی اپنا رنگ دکھایا اور لیاری کی شناخت تبدیل ہونے لگی۔
ماضی میں لیاری میں گینگز منشیات فروشی تک محدود تھے۔ کلاکوٹ کی افشانی گلی کے دو بھائیوں شیر محمد (شیرو) اور داد محمد (دادل، رحمان بلوچ کے والد) نے منشیات کے کاروبار کو پھیلانے اور طاقت حاصل کرنے کے لیے اپنا گروہ منظّم کرنا شروع کیا۔
سابق ایس پی فیاض خان کے مطابق ’دوسری جانب منشیات ہی کے کاروبار سے منسلک اقبال عرف بابو ڈکیت کا گروہ بھی اسی لیاری کے علاقے کلری اور آس پاس کے محلوں میں فعال تھا۔ پھر لیاری جیسی بڑی آبادی کا کون سا علاقہ کس کے پاس ہو گا اور کس محلے میں چرس اور افیون جیسی منشیات کا کاروبار کس کے قبضے میں ہو گا، یہ رسّہ کشی دشمنی کا رنگ اختیار کرتی چلی گئی۔‘
دادل کی موت کے بعد رحمان نے وراثت سنبھالی اور جلد ہی کاروباری حسد اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کھینچا تانی میں ایک روز رحمان کی کھٹ پٹ حاجی لالو اور اس کے بیٹوں سے ہو گئی اور گرما گرمی نے لالو اور رحمان کی راہیں الگ کر دیں۔
سابق ایس پی فیاض خان کے مطابق محاذ آرائی کے اس رویے نے دشمنی کی شکل اختیار کی تو لالو کے بیٹے ارشد پپّو نے کلاکوٹ میں رحمان کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ رحمان بچ تو نکلا مگر ارشد پپّو کے غضب کا رخ اس کے رشتہ داروں کی جانب ہوا اور ارشد پپّو کے ہاتھوں رحمان کے رشتہ دار مارے جانے لگے۔
ادھر رحمان نے بچی کھچی طاقت مجتمع کر کے جواباً ارشد پپّو کے رشتہ داروں پر حملوں کا آغاز کیا جن میں بلوچ اتحاد کے رہنما اور لیاری کی معروف شخصیت انور بھائی جان جیسے ممتاز لوگ بھی مارے گئے۔
پولیس کے مطابق منشیات کے بعد لیاری کے گینگز بھتہ خوری تک آ گئے۔ شیر شاہ کباڑی مارکیٹ سے لے کر جوڑیا بازار جو شہر کی ہول سیل مارکیٹ ہے تک یہ دائرہ بڑھتا گیا۔

بالآخر سنہ 2009 میں رحمان ایس پی چوہدری کے ساتھ ایک مبینہ مقابلے میں ہلاک ہو گیا اور ان کے گینگ کی قیادت عذیر بلوچ کے پاس آگئی جس نے مقامی سیاست میں بھی اثر انداز ہونا شروع کیا۔
سنہ 2012 میں لیاری کے چیل چوک پر آپریشن کیا گیا جو ایک ہفتے تک جاری رہا جس کی وجہ سے علاقے کے لوگ ایک ہفتے تک محصور رہے۔ اس آپریشن میں 25 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جس میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
سنہ 2013 میں جب کراچی میں امن و امان کی مجموعی صورتحال میں بہتری کے لیے آپریشن شروع ہوا تو لیاری کے گینگز بھی ریڈار پر آ گئے۔
آدھے گھنٹے میں پانچ باکسر ہلاک

شیر محمد بلوچ پاکستان کے قومی باکسر ہیں۔ موجودہ وقت وہ فقیر کالونی میں لڑکوں اور لڑکیوں کو باکسنگ سکھاتے ہیں اس تربیت میں ان کے ساتھ استاد فدا بلوچ بھی موجود ہیں۔ دونوں نے مل کر اکیڈمی بنائی ہے۔ دونوں ہی گینگ وار کے متاثرین ہیں۔ شیر محمد کا چھوٹا بیٹا اور فدا کے دو بھائی اس میں ہلاک ہوئے۔
شیر محمد نے بتایا کہ لیاری کی صورتحال کی وجہ سے سنہ 2008 میں وہ سنگو لائن چھوڑ کر مواچھ گوٹھ منتقل ہو گئے تھے لیکن گینگسٹرز نے انھیں وہاں بھی نہیں چھوڑا۔ ان کے مطابق صرف آدھے گھنٹے میں ان کے پانچ باکسر ہلاک کیے گئے۔
ان کے مطابق ’9 مارچ 2014 کو رات گیارہ بجے 30 سے 40 مسلح افراد آئے انھوں نے استاد فدا کے بھائیوں کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، لڑکوں کو باہر نکالا، میرے بیٹے کو بھی باہر نکالا اور دروازہ باہر سے بند کردیا۔‘
انھوں نے درد بھرے لہجے میں کہا کہ ’ہمارے پانچ باکسروں کو سر پر گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔‘
فدا بلوچ بتاتے ہیں کہ انھیں بہو نے کال کر کے آگاہ کیا۔ وہ فوری وہاں پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ لاشوں اور فیملی کو سوزوکی میں ڈال کر لیاری بھیجا اور کہا کہ جہاں سے آئے ہو وہاں جاؤ۔
وہ لیاری کے لیے نکلے تو راستے میں میراں ناکے پر گینگ وار والوں نے پکڑے کی کوشش لیکن وہ نکلنے میں کامیاب ہوگئے بعد میں انھیں پتا چلا کہ فیملی سول ہسپتال ہے، وہاں سرد خانے میں دیکھا تو بھائیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔
فدا بلوچ بتاتے ہیں کہ وہ لاشیں فقیر کالونی لے کر آئے اور یہاں تدفین کی۔ اگلے دن انھیں پتا چلا کہ گینگ والوں نے ہمارے گھر جلا دیے ہیں۔ اس روز کے بعد سے شیر محمد بلوچ نے مواچھ سے فقیر کالونی میں رہائش اختیار کرلی۔
شیر محمد بلوچ کہتے ہیں کہ ’وہ چاہتے تھے کہ ہم یہاں قائم ہونے والی گینگ وار میں شامل ہو جائیں لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے تھے کیونکہ باکسنگ ہماری خاندانی شناخت ہے اور ہم ان کاموں میں نہیں پڑتے تھے۔‘

لیاری کا سیاہ دور
’دھورندھر‘ فلم میں جس لیاری کو دکھایا گیا، کیا آج بھی لیاری ویسا ہی ہے؟
یہ جاننے کے لیے ہم نے پانچ روز لیاری کے محلوں، گلیوں کے چکر لگائے اور وہاں کے نوجوانوں سے بات کی۔
سڑکوں، پینے کے پانی، تعلیم اور صحت کے مسائل کے باوجود یہاں کے نوجوانوں نے ہار نہیں مانی اور ایک نئی شناخت کی جدوجہد میں لگ گئے، یہاں لیاری گرلز کیفے اور مہر در کیفے جیسے ادارے قائم ہو چکے ہیں جہاں مختلف قومیتوں کے نوجوان آ کر بحث مباحثے بھی کرتے ہیں۔
مہر در کیفے میں ہمیں پروین بلوچ نے خوش آمدید کہا۔ یہاں چائے سموسے کے ساتھ لائبریری کی سہولت بھی موجود ہے۔ یہاں ہی ہماری ملاقات لیاری کے مصنف رمضان بلوچ سے ہوئی۔ انھوں نے لیاری کے گذشتہ دور کو تاریک دور قرار دیا اور کہا کہ اس وقت روزمرہ کی زندگی درہم برہم تھی، نوجوانوں کا تعلیمی کریئر متاثر ہوا، روزگار ایک مسئلہ بن گیا اس کے علاوہ جانوں کی حفاظت کا مسئلہ کھڑا ہوا جس سے پھر لیاری کی شناخت متاثر ہوئی۔
’کراچی کے دیگر علاقوں میں پرتشدد واقعات کی ابتدا سنہ 1985 میں شروع ہوئی لیکن اس کے اثرات ہمارے تک بہت دیر سے پہنچے، ان دنوں ہڑتالیں، ہنگامہ آرائی ہوتی تھی لیکن لیاری پر امن تھا۔‘
پروین بلوچ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ علاقے تقیسم ہو گئے تھے، جیسے ایک علاقہ کلری ہے تو سامنے شاہ بیگ لائن ہے، ایک علاقے سے دوسرے علاقے جانے میں مسئلہ ہو رہا تھا، ہر علاقے کی سرحدیں بن گئی تھیں اور ہر گلی کا اپنا ہیرو تھا۔
فہیم بلوچ سماجی کارکن ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ لوگ انھیں ڈاڈا، بلوچ، واجہ کہتے تھے یعنی کسی طرح بھی انھیں گینگ وار سے جوڑا جاتا۔
’ہمیں ان کو یہ سمجھانے میں کافی وقت لگا کہ ہم کون ہیں اور ہم کیسے پرامن شہری تھے لیکن اس دوران بہت سے نوجوان شناخت کے بحران کا شکار ہو گئے، جو دلبرداشتہ تھے، وہ لیاری کو چھوڑ گئے۔ وہ نفرت کرتے تھے کہ وہ یہاں کیوں پیدا ہوئے۔‘
پروین بلوچ نے مہر در کیفے کے قیام کے بارے میں بتایا کہ اس کیفے سے پہلے پولی ٹیکنک کالج گینگسٹرز کا گڑھ تھا جہاں وہ لوگوں کو لاتے، ان پر تشدد کرتے اور انھیں قتل کرتے۔
آپریشن کے بعد انھوں نے وہاں نوجوانوں کو جمع کیا اور اپنا ادارہ کھولا۔ ایک چھوٹا سا ڈھابہ جسے ’آؤ امن کی باتیں کریں‘ ڈھابہ کہا جاتا تھا، جہاں لوگ سیاسی بحث کرتے، اس کے بعد یہ کرائے کی جگہ لے کر کیفے مہر در پبلک سپیس قائم کیا، جہاں تمام قومیتوں اور مذاہب کے لوگ آتے ہیں۔
کیفے میں چائے کے دوران میں نے اپنے موبائل فون پر’دھورندھر‘ فلم کا ٹریلر چلایا اور پوچھا کہ ایس پی چوہدری اسلم، رحمان ڈکیت اور دیگر کردار دیکھ کر ان کے ذہن میں کیا خیال آتا ہے۔
فہیم بلوچ نے گینگ آف واسے پور کا حوالہ دیتے ہوئے مجھے بتایا کہ انڈیا میں گینگز پر پہلے بھی فلمیں بنتی رہی ہیں اور دوسرا دنیا میں کہاں جرم نہیں ہوتا۔ ’پہلے تو ہم بڑے ڈسٹرب تھے پھر مجھے لگا کہ ہم اس سے کہیں زیادہ آگے جا چکے ہیں۔‘
پروین بلوچ کا کہنا تھا ابھی جو بچے ہیں وہ اس فلم کو دیکھ کر ضرور سوال کریں گے۔ ’ہمیں ذہنی طور پر تیار ہونا پڑے گا کہ ہماری شناخت کیا ہے، ہماری وہ شناخت جو مثبت ہے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جو کچھ عرصے کے لیے آیا۔ یہ وہ دور تھا کہ جس نے ہم پر دھبہ لگا دیا، اسی سیاہ دور کے ساتھ ہمیں دھکیلنے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں کے لوگوں اور نوجوانوں نے مزاحمت کی اور اس کے نتیجے میں آج ہم لیاری کو دوبارہ پرامن بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘
رمضان بلوچ کے مطابق وہ سب اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جو کچھ انھوں نے دیکھا، آنے والی نسلیں ایسے دور سے نہ گزریں۔ ’اگر خدانخواستہ ایسا دور دوبارہ آیا تو یہ بہت بڑا نقصان ہو گا۔‘
فٹبال کے میدان میں لڑکیاں بھی آگئیں
لیاری میں چار اکیڈمیاں ہیں جہاں اب لڑکیاں فٹبال کھیل رہی ہیںلیاری کو ’پاکستان کا برازیل‘ کہا جاتا ہے اور عالمی فٹبال کپ میں یہ علاقہ سج جاتا ہے۔ کچھ فیورٹ ممالک کے جھنڈے ابھی بھی کچھ علاقوں میں نظر آتے ہیں لیکن یہاں گینگ وار کے زمانے میں فٹبال میچ کے دوران دھماکہ ہوا اور اکیڈمیز غیر آباد ہو گئیں جو دوبارہ سے آباد اور فعال ہونا شروع ہوئیں۔
کوچ عماد فٹبال اکیڈمی کے میدان میں سنہ 2018 تک صرف مٹی اور دھول تھی لیکن اب سبزہ ہے۔ یہاں لڑکیاں بھی فٹ بال میں آ گئیں جو عالمی سطح پر بھی کھیل رہی ہیں۔ موجودہ وقت لیاری میں چار اکیڈمیاں ہیں جہاں اب لڑکیاں فٹبال کھیل رہی ہیں اور آگے بڑھ رہی ہیں۔
دعا فتوم پہلے اپنی ٹیم کی کپتان اور اب کوچ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ لیاری کی لڑکیاں ناروے اور سنگاپور بھی گئیں، لڑکیاں آگے بڑھ رہی ہیں، لیاری کا نام روشن کر رہی ہیں۔
’لیاری کے لوگ صرف گینگسٹر نہیں، وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ حکومت کو ان کا ساتھ دینا چاہیے لیکن انھیں حکومت کا ساتھ دستیاب نہیں۔‘
لیاری کو 'پاکستان کا برازیل' کہا جاتا ہے اور عالمی فٹبال کپ میں یہ علاقہ سج جاتا ہےلیاری کی سٹریٹ وائب
لیاری میں روایتی سر و ساز پہلے سے موجود تھا، جو بنتا بھی تھا اور بجایا بھی جاتا تھا لیکن اس کی آواز گولیوں کی گونج میں کہیں دب گئی تھی، تنگ اور گنجان گلیاں جو کبھی خوف کی علامت سمجھی جاتی تھیں ان ہی گلیوں سے مزاحمت نے جنم لیا اور اس نے ہپ ہوپ کی شکل اختیار کی، کیفی خلیل کہیں دنیا کو کہانی سنا رہا ہے تو ایوا کی بھی تصویر ٹائم سکوائر نیویارک پر لگی۔
کامران آدم سموں جیسے گلوکاروں نے لیاری کے دکھ بھی بتائے تو اس کی خوبصورتی بھی بیان کی۔
انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے ہپ ہوپ کرنا شروع کیا تو پہلا گانا انھوں نے ’لیاری وائس سٹی‘ بنایا۔
اس میں وہی چیزیں تھیں جو انھوں نے بچپن میں دیکھی تھیں، مطلب گولیاں چلتے دیکھیں، راکٹ لانچر دیکھے، بہت زیادہ تشدد دیکھا۔ اس کے بعد انھوں نے ’لیاری میرا نام‘ گیت بنایا جس میں موجودہ لیاری کو دکھایا گیا۔
کامران آدم سموں کہتے ہیں کہ ’بلاشبہ، لوگوں نے لیاری کو اس وقت قبول کرنا شروع کیا جب اس کا ٹیلنٹ سامنے آیا، جیسے ہماری فٹبال ٹیم نے بین الاقوامی سطح پر جانا شروع کیا۔ دوسری بات یہ کہ ہمارا ہپ ہاپ میوزک بہت اچھا ہے کیونکہ پورے کراچی میں ہمیں اس طرح کا میوزک دیکھنے کو نہیں ملتا جیسا کہ ہمارے یہاں ہے۔ یہ ایک سٹریٹ وائب ہے، اس لیے لوگ اس کو پسند کر رہے ہیں۔‘
آدم بتاتے ہیں کہ جب بھی لیاری سے باہر جاتے ہیں تو وہ دیکھتے کہ کسی رکشے کسی ٹیکسی میں لیاری کا میوزک چل رہا ہے، اس سے اندر ہی اندر خوشی کا احساس ہوتا ہے کہ ایک ایسا علاقہ جسے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا کو اچانک اتنی پہچان مل گئی۔
لیای کے کئی علاقوں کی دیواروں پر آج بھی گولیوں کے نشانات موجود ہیں، کئی دل بھی دکھی ہیں جنھوں نے گینگ وار میں اپنے پیاروں کو کھویا لیکن لیاری بدل چکا ہے۔
اب یہاں خواب بستے ہیں اور یہاں کے نوجوانوں نے ثابت کیا کہ اپنے علاقے کو پہلے اپنایا جاتا ہے اور اس کے بعد شناخت تبدیل کی جاتی ہے۔