مبینہ توہین مذہب کے مقدمے میں گرفتار مذہبی سکالر انجینیئر محمد علی مرزا کو جمعہ کی دوپہر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
مبینہ توہین مذہب کے مقدمے میں گرفتار مذہبی سکالر انجینیئر محمد علی مرزا کو جمعہ کی دوپہر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے روالپنڈی بینچ کے جسٹس صداقت علی خان نے دو دسمبر کو ان کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ملزم کے خلاف کوئی اور مقدمہ نہیں ہے تو ان کو رہا کر دیا جائے۔ ان کی ضمانت پانچ، پانچ لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کی گئی ہے۔
انجینیئر محمد علی مرزا نے لگ بھگ ساڑھے تین ماہ جیل میں گزارے ہیں۔
واضح رہے کہ 26 اگست کو صوبہ پنجاب کے شہر جہلم کے تھانہ سٹی میں انجینیئر محمد علی مرزا کے خلاف شہری کی درخواست پر دفعہ 295 سی کے تحت توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اس مقدمے کے اندراج سے قبل ہی جہلم کی انتظامیہ کے حکم پر انھیں تھری ایم پی او یعنی نقض امن کے خطرے کے تحت نظربند کیا گیا تھا۔
تھری ایم پی او کا قانون پاکستان میں حکومت کو ایسے افراد کی حفاظتی حراست کے لیے وسیع اختیارات دیتا ہے جنھیں عوامی تحفظ یا نظم کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ قانون ایک طے شدہ مدت کے لیے کسی بھی شخص کی گرفتاری اور نظربندی کی اجازت دیتا ہے، جسے بڑھایا جا سکتا ہے تاہم یہ حراست ایک وقت میں لگاتار چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی تاہم، تین ماہ سے زیادہ طویل حراست کے لیے عدالتی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ابھی انجینیئر محمد علی مرزا تھری ایم پی او کے تحت زیر حراست تھے کہ حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کر کے ان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انجینیئر محمد علی کو اس مقمہ میں حراست میں لینے سے متعلق جہلم پولیس کے ترجمان عمر سعید نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انتظامیہ نے یہ فیصلہ اُس درخواست کی بنیاد پر کیا، جو ڈسٹرکٹ پولیس افسر، جہلم کے نام تحریر کی گئی۔ عمر سعید نے بی بی سی کے ساتھ وہ درخواست بھی شیئر کی تھی۔
اس درخواست میں انجینیئر محمد علی مرزا کی جانب سے حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا تھا کہ اُن کی جانب سے ادا کیے گئے کچھ کلمات نے مبینہ طور پر ’مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح‘ کیے ہیں اور درخواست گزار نے اِسی بنیاد پر محمد علی مرزا کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی استدعا کی تھی۔
جہلم کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس چودھری شہباز ہنجرا نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ انجینیئر محمد علی مرزا کو انھوں نے ہی رات گئے حراست میں لیا تھا۔ شہباز ہنجرا کے مطابق حراست میں لیے جانے کے وقت اُن کو ان پر لگائے گئے الزامات کے بارے میںآگاہ کر دیا گیا تھا اور حالات کی سنگینی بارے بھی بتا دیا گیا تھا۔
انجینیئر محمد علی مرزا کون ہیں؟
ہلکے پھلکے انداز میں مسکراتے ہوئے بات کرنے والے انجینیئر محمد علی مرزا پاکستان کے ایک معروف مبلغ ہیں جو اپنے غیر روایتی نظریات کی بنا پر اکثر زیرِ بحث رہتے ہیں اور مئی 2020 میں بھی انھیں مبینہ طور پر ’مذہبی شخصیات کی گستاخی‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم بعدازاں عدالت نے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
اپنے غیرروایتی نظریات اور مذہبی خیالات کے باعث اُن پر ماضی میں قاتلانہ حملے بھی ہوئے جس میں وہ محفوظ رہے ہیں۔
جہلم پولیس کے مطابق مارچ 2021 میں ہوئے چاقو کے ایک حملے میں اُن کے بازو پر زخم آیا تھا، تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔ اسی طرح سنہ 2017 میں ہونے والے ایک قاتلانہ حملے میں بھی وہ محفوظ رہے تھے۔
جہلم سے تعلق رکھنے والے انجینیئر محمد علی مرزا اسی شہر میں واقع اپنے مدرسے میں مختلف مذہبی موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں جس کے دوران لوگوں کے سوالوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اُن کے اپنے یوٹیوب چینل پر موجود 2471 سے زائد ویڈیوز لاکھوں مرتبہ دیکھی جا چکی ہیں اور اُن کے سبسکرائبرز کی تعداد 31 لاکھ سے زیادہ ہے۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے انجینیئر محمد علی مرزا کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اُن کی سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ وہ کسی مذہبی یا سیاسی گروہ سے اپنا تعلق ظاہر نہیں کرتے چنانچہ وہ آزادی سے اپنے مؤقف کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
وہ اپنے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ اُن کا تعلق کسی مسلک سے نہیں اور اُن کا نعرہ ہے کہ ’میں ہوں مسلم علمی کتابی۔‘
مارچ 2021 میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے صحافی کلبِ علی کا کہنا تھا کہ انجینیئر محمد علی مرزا کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ اُن کی بات کا جواب عام طور پر دلیل سے نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے جواب میں اُن کی شخصیت کو ہدف بنایا جاتا ہے۔
کلبِ علی روزنامہ ڈان سے وابستہ ہیں اور مذہبی اُمور پر رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
کلب علی کے مطابق انجینیئر محمد علی مرزا سے تقریباً ہر مسلک کے لوگ ہی ناراض ہوتے ہیں کیونکہ وہ دلیل سے بات کرتے ہیں جو کبھی کسی مسلک کے لوگوں کے خلاف ہوتی ہے تو کسی کے حق میں ’لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگ ان کے فالوورز ہیں جو اُن کی گفتگو کو سُنتے ہیں۔‘
اس بات کا اندازہ اُن کی یوٹیوب ویڈیوز کے نیچے موجود کمنٹس سے بھی ہو سکتا ہے جس میں زیادہ تر لوگ اُنھیں ’مسلک سے بالاتر ہو کر متحد کرنے والا شخص‘ قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ اُن سے سخت علمی اختلاف رکھتے ہیں۔
کلبِ علی کا کہنا تھا کہ انجینیئر محمد علی مرزا کو اکثر و بیشتر مختلف مسالک کی جانب سے ایک دوسرے کا ’ایجنٹ‘ بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔
’ماضی میں اُنھیں ’احمدی ایجنٹ‘ بھی کہا جاتا رہا ہے تو کبھی اُنھیں ’شیعہ ایجنٹ‘ بھی کہا گیا تاہم اُن کی باتوں کو دلیل سے رد کرنے کے بجائے اُن کی ذات کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔‘