لاہور ہائیکورٹ نے 13 سالہ بچے کو حقیقی والدین کے بجائے گود لینے والے والدین کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیوں دیا؟

پاکستان کے سوشل میڈیا میں ایک ایسا مقدمہ زیر بحث ہے جس میں لاہور ہائیکورٹ نے ایک 13 سالہ لڑکے کو اُس کے حقیقی والدین کے بجائے کئی برس قبل گود لینے والے والدین کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے اِس نوعیت کے معاملات میں بچے کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔
تصویر
Getty Images

پاکستان کے سوشل میڈیا میں ایک ایسا مقدمہ زیر بحث ہے جس میں لاہور ہائیکورٹ نے ایک 13 سالہ لڑکے کو اُس کے حقیقی والدین کے بجائے کئی برس قبل گود لینے والے والدین کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے اِس نوعیت کے معاملات میں بچے کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔

یہ کیس پنجاب کے شہر پسرور میں رہنے والے دو سگے بھائیوں کا ہے، جن میں سے بڑے بھائی نے اپنے حقیقی چھوٹے بھائی کو لگ بھگ ساڑھے 12 برس قبل محض چھ ماہ کی عمر کا اپنا ایک بیٹا اس لیے دے دیا تھا کیونکہ چھوٹے بھائی کے ہاں اولاد نرینہ نہیں تھی۔

سنہ 2022 تک معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہے اور بڑے بھائی کی جانب سے چھوٹےبھائی سے بچے کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا گیا تاہم بعدازاں دونوں بھائیوں میں پیدا ہونے والے خاندانی تنازعات کے باعث حقیقی والدین کی جانب سے بچے کی کسٹڈی واپس حاصل کرنے کا کیس عدالت میں دائر کر دیا گیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق اس ضمن میں مقدمے کا آغاز فروری 2022 میں ہوا، جس پر تحصیل پسرور کی گارڈین کورٹ اور سیالکوٹ کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے حقیقی والدین کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے بچہ اُن کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم بچے کو گود لینے والے والدین (جو بچے کے سگے چچا، چچی بھی ہیں) نے ماتحت عدالتوں سے آنے والے اِن فیصلوں کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، جس پر سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے دونوں عدالتوں کے فیصلے کالعدم قرار دیے اور بچے کو حقیقی والدین کی بجائے اسے پالنے پوسنے والے ماں باپ کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔

یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد حقیقی والدین کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے جبکہ جن والدین کو بچے کی کسٹڈی دی گئی ہے انھوں نے اس پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ نے کس بنیاد پر یہ فیصلہ سُنایا؟

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل زمان خان نے اس کیس سے متعلق آٹھ صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی حوالگی سے متعلق کیسوں میں اُن (بچوں) کی خواہش اور ذہنی کیفیت کو مقدم رکھا جائے اور اس ضمن میں بچے کی رائے کو اہمیت دینا ضروری ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے کچھ فیصلوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں بچے نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ وہ حقیقی والدین کے بجائے اُن والدین کے ساتھ رہنا چاہتا ہے جنھوں نے اسے پالا پوسا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق بچے کی جانب سے یہ بیان دیے جانے کے بعد عدالت نے ایک ہفتے کے لیے بچے کو اس کے حقیقی والدین کے گھر بھی بھیجا تاکہ اگر وہ اپنی رائے بدلنا چاہے تو بدل لے تاہم بچے نے دوبارہ پیشی پر پھر سے اپنے سابقہ بیان کا اعادہ کیا اور اپنے چچا اور چچی کے ساتھ جانے کا بیان دیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے مطابق بچے کی حوالگی کے کیس میں اصولی طور پر حقیقی والدین کو ترجیحی حق حاصل ہوتا ہے تاہم بچے کی رائے اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

فیصلے کے مطابق اس کیس میں حقیقی والدین نے اپنی مرضی سے پیدائش کے کچھ عرصے بعد اپنا بیٹا اپنے بھائی (یعنی بچے کے چچا)کو دیا، نئے والدین نے اس کی پرورش کی اور اب بچے کی عمر لگ بھگ 13 برس ہے۔

فیصلے میں بچے کو حقیقی والدین کے حوالے نہ کرنے سے متعلق دیگر وجوہات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق دوران سماعت معلوم ہوا کہ بچے کے حقیقی والد نے تین شادیاں کیں اور ان کے مجموعی طور پر 13 بچے ہیں۔’اتنے بڑے خاندان میں بچے کو بھیجنا مناسب نہیں، حقیقی والدین یہ نہیں ثابت کر سکے کہ بچے کی بہتر پرورش نہیں ہوئی۔‘

یاد رہے کہ حقیقی والدین نے عدالت میں دائر کردہ اپنے کیس میں دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے اس شرط پر اپنا بیٹا دیا تھا کہ اگر چچا، چچی کے ہاں اگے چل کر کوئی اولاد نرینہ ہو جاتی ہے تو یہ بچہ واپس کر دیا جائے گا۔

حقیقی والدین نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ چونکہ اس جوڑے کے ہاں اب اپنا بیٹا پیدا ہو چکا ہے تو اب والدین کی توجہ اپنے حقیقی بیٹے کی جانب مبذول ہو چکی ہے اور اُن کے بیٹے کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ حقیقی والدین اس بات کو کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے کہ بچے کی حوالگی کے وقت اس طرح کا کوئی معاہدہ ہوا تھا کہ اولاد نرینہ ہونے کی صورت میں بچہ واپس کر دیا جائے گا اور نہ ہی اس بات کو کوئی ثبوت ہے کہ بچے کی پرورش میں لاپرواہی برتی جا رہی ہے۔

فیصلے کے مطابق ’بچہ بغیر کسی شکایت کے برسوں گود لینے والے والدین کے ساتھ رہا، پھر ایک صبح اچانک بچے پر بم گرایا دیا گیا کہ وہ اصل والدین کے ساتھ نہیں رہ رہا، بچے کو اچانک اجنبی ماحول میں بھیج دینا اس کے مفاد میں نہیں۔‘

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ’بچے کے کیا جذبات ہوں گے جب اسےپتہ چلا کہ یہ چھ بہنیں اور ایک بھائی، جن کے ساتھ وہ رہ رہا تھا، اس کے اپنے نہیں، گھریلو تنازع کی بنیاد پر حقیقی والدین نے بچے کی حوالگی کا دعویٰ دائر کیا، موجودہ کیس میں بچے کی فلاح نہیں بلکہ گھریلو تنازع دعوے کی وجہ بنا۔‘

یاد رہے کہ جس گھریلو تنازع کا ذکر کیا گیا وہ یہ ہے کہ دونوں بھائیوں نے چند برس قبل اپنے بچوں کی آپس میں شادی کی تھی جس میں آگے چل کر تنازعات پیدا ہو گئے تھے۔

لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ’حقیقی والدین کا موقف ہے کہ بچے کو کچھ عرصے کے لیے اپنے بھائی کو دیا گیا تھا تاہم حقیقی والدین حوالگی کے عارضی ہونے کا ثبوت نہ دے سکے، حقیقی والدین بچے سے ملاقات کےلیے گارڈین کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔‘

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ حقیقی والدین نے اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں دیا کہ ’بچہ غلط ماحول میں رہ رہا ہے، یا اس کی پرورش میں لاپرواہی برتی جا رہی ہے۔۔۔ حقیقی والدین اپنے موقف بارے کچھ بھی ثابت نہیں کر سکے۔‘

عدالت نے اس معاملے پر بھی روشنی ڈالی کہ ’بچے کے حقیقی والد کا گھر بہت بڑا اور پیچیدہ ہے۔ والد کی تین شادیاں ہیں جن سے 13 بچے ہیں، بچہ اُن سب کے لیے بالکل اجنبی ہے، بچے کو اچانک ایسے ماحول میں بھیجنا اس کے لیے تکلیف دہ ہو گا، اس کے علاوہ دونوں خاندانوں میں ایک ذاتی جھگڑا بھی تھا، حقیقی والد کے بیٹے کی شادی 30 اکتوبر 2020 کو پیٹیشنرز (موجودہ والدین) کی بیٹی سے ہوئی تھی اور ان میں چار سالوں سے جھگڑا چل رہا تھا۔‘

والدین کا مؤقف

اس کیس میں بچے کے حقیقی والد کے وکیل علی حسن ججہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ میں ہمارا موقف ہو گا کہ حقیقی والدین کے خلاف ذہن سازی کی گئی اور کم سن بچے کا فیصلہ آزادانہ نہیں ہے جبکہ نابالغ بچے کی رائے کو جرح کیے بغیر پرکھا اور تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہائیکورٹ کے فیصلے میں گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 کی دفعہ 17 کی تشریح کرتے ہوئے جن قانونی نظائر پر انحصار کیا گیا وہ قطعی طور موجودہ مقدمے سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘

دوسری جانب بچے کی کسٹڈی کا کیس جیتنے والے والد کا کہنا ہے کہ اس بچے کی پرورش انھوں نے اپنے بچوں سے زیادہ لاڈ پیار سے کی اور اسے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ ہمار حقیقی بیٹا نہیں ہے۔

’وہ ایک ہفتہ جس میں بچے کو عدالت کے حکم پر اس کے حقیقی والدین کے گھر بھیجا گیا تھا اس دورانیے میں میری بیٹیوں کی رو رو کر آنکھیں سوج گئی تھیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اُن کے خاندان میں جھگڑے اور انا کے مسائل ہیں جس کی وجہ سے یہ کیس عدالت میں آیا۔

پاکستان میں گارڈین ایکٹ بچوں کی حوالگی سے متعلق کیا کہتا ہے؟

تصویر
Getty Images
پاکستان کا گارڈین کورٹ کا قانون بنیادی طور پر دی گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 سے ماخود ہے

فیملی قوانین کے ماہر سعود سلطان خاں ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ پاکستان میں نابالغوں سے متعلق ایکٹ 17 رائج ہے جس میں فیصلہ کرنے والا جج حوالگی کے کیسز میں بنیادی طور پر بچے کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس قانون کے مطابق بچے کی تحویل (کسٹڈی) کا فیصلہ والدین یا رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ بچے کی بھلائی کس جگہ ہے اور بظاہر حالیہ کیس میں بھی عدالت عالیہ نے یہی اصول استعمال کیا۔‘

سعود سلطان خاں ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پاکستان کا گارڈین کورٹ کا قانون بنیادی طور پر دی گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 سے نکلا ہے، جو بچوں کی حفاظت، سرپرستی اور فلاح و بہبود سے متعلق ہے۔

’یہ قوانین شادی، طلاق، بچوں کی تحویل اور حق مہر کے تنازعات سے متعلق ہیں اور ان قوانین کا مقصد خاندانی معاملات کو تیزی سے حل کرنا اور تحویل کے معاملات میں بچوں کی بہبود کو ترجیح دینا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US