سنہ 2019 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ آیودھیا میں ہی ایک مسجد کے لیے بھی جگہ مختص کی جانی چاہیں، جس کے بعد حکومت نے 2020 میں آیودھیا سے 20 یا 25 کلومیٹر دور دھنیپور میں اس مسجد کے لیے پانچ ایکڑ زمین مختص کی تھی۔
آیودھیا میں رام مندر کی تعمیر مکمل ہو چکی ہےآیودھیا میں رام مندر کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور اس کا اعلان 25 نومبر کو وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس پر انڈیا کا جھنڈا لہرا کر کیا۔
سنہ 2019 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ آیودھیا میں ہی ایک مسجد کے لیے بھی جگہ مختص کی جانی چاہیے، جس کے بعد حکومت نے 2020 میں آیودھیا سے 20 یا 25 کلومیٹر دور دھنیپور میں اس مسجد کے لیے پانچ ایکڑ زمین مختص کی تھی۔
سنّی سینٹرل وقت بورڈ نے مسجد کی تعمیر کی منصوبہ بندی کے لیے انڈو اسلامک فاؤنڈیشن نامی ٹرسٹ کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ تاہم اس کے باوجود بھی اس مسجد کی تعمیر تاحال شروع نہیں ہو سکی ہے۔
مسجد نہ تعمیر کرنے کے حوالے سے متعدد وجوہات پیش کی جا رہی ہیں جن میں ٹرسٹ کے اندر اختلافات اور فنڈز کی کمی شامل ہیں۔ اب تو ٹرسٹ کی جانب سے بنایا گیا نقشہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ٹرسٹ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی کہتے ہیں کہ ’ٹرسٹ کے پاس پیسے نہیں ہیں، اسی لیے کام نہیں شروع کیا گیا۔‘
’جگہ مختص کیے جانے کے بعد کورونا وائرس آگیا تھا اور اس کے سبب ہر چیز تاخیر کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد ہم نے ایک نقشے کو حتمی شکل دی اور انڈیا میں متعدد لوگوں سے اس حوالے سے بات کی اور پھر اس کے ڈیزائن پر اعتراضات سامنے آ گئے۔‘
بابری مسجد اور رام مندر پر تنازع
اٹھارہ دسمبر سنہ 1961 میں سنّی سینٹرل وقف بورڈ نے ایودھیا کیس پر عدالت سے رجوع کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ سنہ 1949تک بابری مسجد میں نماز ادا کی جاتی تھی، تاہم 22-23 دسمبر 1949 کو ہندوؤں نے وہاں پر اپنی مورتیاں رکھ دیں اور اسی سبب حکومت نے اسے تالا لگا دیا۔
ہندوؤں کا دعویٰ تھا کہ 16ویں صدی میں ایک ہندو مندر کو مسمار کرکے بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی۔
اس کے بعد 6 چھ دسمبر 1992 کو ایک جتھے نے بابری مسجد کو مسمار کر دیا۔
سنہ 2010 میں 30 اکتوبر کو الہ آباد ہائی کورٹ نے آیودھیا تنازع میں سنّی سینٹرل وقف بورڈ کے دعوے کو تسلیم کیا اور اسے دو اعشاریہ 77 ایکڑ زمین دے دی، جبکہ باقی زمین ہندو فریقین کے پاس چلی گئی۔
6 چھ دسمبر 1992 کو ایک جتھے نے بابری مسجد کو مسمار کر دیا تھاسنہ 2019 میں اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اس کے نتیجے میں تمام زمین رام مندر کے پاس چلی گئی۔
اس فیصلے میں آیودھیا میں ہی مسلمانوں کی مسجد کے لیے پانچ ایکڑ زمین مختص کرنے کو بھی کہا گیا تھا۔
تاہم حکومت نے مسجد کے لیے جو زمین مختص کی وہ آیودھیا سے تقریباً 25 کلومیٹر دور سوہاول تحصیل کے دھنیپور گاؤں میں ہے۔
’آیودھیا میں زمین مختص کرنی تھی، دھنیپور میں نہیں‘
رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) پر کام کرنے والے سماجی کارکن اوم پرکاش سنگھ کہتے ہیں کہ ’عدالتی حکم میں آیودھیا کی حدود میں زمین مختص کرنے کو کہا گیا تھا دھنیپور میں نہیں جو کہ 25 کلومیٹر دور ہے۔‘
آیودھیا میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ عام لوگ نماز کی ادائیگی کے لیے اتنی دور واقع مسجد میں نہیں جا سکیں گے۔
آیودھیا میں انجمنِ محافظ مسجد وا مقابر کے جنرل سیکریٹری محمد اعظم قادری کہتے ہیں کہ ’آیودھیا کے لوگ 25 کلومیٹر دور نماز کی ادائیگی کے لیے نہیں جائیں گے۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا تھا کہ زمین تحصیل کی حدود میں ہی مختص کی جانی چاہیے، تاہم اس حکم کو فراموش کر دیا گیا۔‘
’حکومت جب چاہتی ہے ترقیاتی کام شروع کر سکتی ہے اور رام مندر کی تعمیر اس کی واضح مثال ہے۔ اگر حکومت چاہتی تو مسجد بھی تعمیر ہو سکتی تھی۔‘
تاہم سنّی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مسجد کی زمین پر کوئی سوال نہیں اُٹھتا کیونکہ اس وقت تمام لوگوں نے اس پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ دھنیپور میں مسلمان آبادی ہے اور لوگ وہاں نماز پڑھیں گے۔‘
تاہم مقامی صحافی اندو بھوشن پانڈے کہتی ہیں کہ ’دھنیپور میں پہلے ہی سے ایک درجن سے زیادہ مساجد ہیں۔ سپریم کورٹ نے مسجد کے لیے زمین آیودھیا کے لوگوں کے لیے دی تھی۔‘
بابری مسجد کیس کے سابق مدعی اقبال انصاری کی سوچ اس حوالے سے تھوڑی سی مختلف ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پورے ملک نے سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کیا تھا۔ یہی ہمارا مذہب بھی کہتا ہے کہ جہاں رہتے ہو اس ملک کا قانون بھی مانو۔‘
مسجد کے نقشے کی منسوخی
سنہ 2020 میں حکومت نے لکھنؤ آیودھیا ہائی وے پر راؤناہی پولیس سٹیشن سے 200 میٹر دور مسجد کے لیے پانچ ایکڑ زمین مختص کی تھی۔
اسی مقام پر ایک قدیم درگاہ بھی واقع ہے۔ سنّی وقف بورڈ نے مسجد کا ایک تفصیلی نقشہ بھی تیار کیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس کی تعمیر شروع نہ ہو سکی۔
آر ٹی آئی کے تحت کام کرنے والے سماجی کارکن اوم پرکاش سنگھ نے حکومت سے اس معاملے پر معلومات طلب کی ہیں۔
اس کے جواب میں آیودھیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے جواب دیا کہ: ’ٹرسٹ نے 14، 15 محکموں کا این او سی نہیں جمع کروایا تھا اس لیے مسجد کا نقشہ منسوخ کیا گیا۔ ان محکموں میں فائر ڈپارٹمنٹ، پی ڈبلیو ڈی اور محکمہ جنگلات شامل ہیں۔‘
تاہم ظفر احمد فاروقی کہتے ہیں کہ وہ نیا منصوبہ تیار کرکے مسجد کی تعمیر شروع کریں گے تاکہ کسی بھی محکمے سے نئی این او سی نہ لینا پڑے۔
ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ 31 دسمبر تک آیودھیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس نیا نقشہ جمع کروا دیا جائے گا۔
ظفر احمد فاروقی کہتے ہیں کہ نیا نقشہ تیار ہے اور اب مسجد ابتدائی طور پر 1400 سکوائر میٹر کے رقبے پر تعمیر ہوگی۔
’صرف میڈیا کے لوگ آتے ہیں، بورڈ کے اراکین نہیں‘
مسجد کی تعمیر میں تاخیر سے نہ صرف دھنیپور بلکہ اطراف کے علاقوں میں بھی کنفیوژن پھیل گئی ہے اور لوگ اس معاملے پر بات چیت کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔
دھنیپور میں مٹھائی کی دکان چلانے والے ماجد کہتے ہیں کہ ’شروع میں یہاں کافی جوش و خروش تھا لیکن اب تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ ہم نے سُنا ہے کہ سب کچھ منسوخ کر دیا گیا ہے اور اب تو یہاں وقف بورڈ کے اراکین بھی نہیں آتے۔‘
دھنیپور جاتے ہوئے متعدد لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کی گئی اور لوگوں نے کہا کہ اس علاقے میں پہلے سے ہی دو مساجد ہیں۔
راستے سے گزرنے والے راہگیر نیہال احمد نے کہا کہ ’یہاں بس میڈیا والے آتے ہیں اور ہم انھیں جواب دے دے کر تھک چکے ہیں۔ تاہم جمعرات کو لوگ اس علاقے میں موجود درگاہ پر ضرور آتے ہیں۔‘
تاہم انڈیا میں اپوزیشن جماعتیں حکومت سے مسجد کی تاخیر پر سوال پوچھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
سماجوادی پارٹی حکومت پر امتیاز برتنے کا الزام عائد کرتی ہے۔
اس کے ترجمان محمد اعظم کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مسجد کی زمین نمایاں مقام پر مختص کی جائے لیکن حکومت نے زمین آیودھیا سے 20 کلومیٹر دور دی۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’سُنی وقف بورڈ بھی حکومتی مشینری کی طرح کام کر رہا ہے اور مسجد کی تعمیر میں تاخیر سے کام لے رہا ہے۔‘
تاہم بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملے میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔
پارٹی کے اقلیتی ونگ کے ترجمان کنور باسط علی کا کہنا ہے کہ ’لوگ مندر کے حوالے سے پُرجوش تھے، تاہم وہ مسجد کے حوالے سے پُرجوش نہیں ہیں۔ اس معاملے پر عوامی حمایت کی کمی ہے، وقف بورڈ تو مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔‘
محمد بن عبداللہ مسجد
دوسری جانب مسجد کی تعمیر کے لیے قائم کیے گئے ٹرسٹ کا شکوہ ہے کہ لوگ مسجد کی تعمیر کے لیے عطیات نہیں دے رہے۔
اس ٹرسٹ کا ایک اجلاس ممبئی میں ہوا تھا جس میں 150 سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی تھی۔ اسی اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مسجد کے ڈیزائن میں تبدیلی کی جائے کیونکہ اس پر اعتراضات اُٹھ رہے ہیں۔
ظفر فاروقی کے مطابق ’پہلے ڈیزائن پر لوگوں نے اعتراضات اٹھائے تھے کہ یہ کمپلیکس کی طرح لگ رہا ہے، اس لیے گنبد نما ڈیزائن بنایا گیا تھا۔‘
’لوگوں میں تاثر تھا کہ ڈیزائن مسجد جیسا نہیں لگ رہا اس لیے ہم نے اسے تبدیل کیا۔‘
مسجد کے لیے ’محمد بن عبداللہ‘ نام تجویز کیا گیا ہے جو کہ پیغمبرِ اسلام کا نام ہے۔
آیودھیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی منظوری کے بعد ٹرسٹ مسجد کے لیے عطیات جمع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومت کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔
ٹرسٹ کے منصوبے کے مطابق مسجد کی زمین پر ایک ہسپتال اور کمیونٹی کچن بھی قائم کیا جائے گا، تاہم اب تک یہ تمام منصوبہ صرف کاغذوں کی حد تک ہی موجود ہے۔