’میں کسی مجرم کی طرح شام سے نکلا تھا اور اب وہاں میرا ہیرو جیسا استقبال ہوا‘

سنہ 2015 میں جس وقت عماد الانارب نامی شامی شہری نے شام سے لندن کا رُخ کیا تھا تو اُن کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ آئندہ آنے والے برسوں میں وہ کبھی واپس شام لوٹ سکیں گے۔
گذشتہ سال آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کو اقتدار سے بیدخل کیا گیا تھا
Getty Images
گذشتہ سال آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کو اقتدار سے بیدخل کیا گیا تھا

سنہ 2015 میں جس وقت عماد الانارب نامی شامی شہری نے شام سے لندن کا رُخ کیا تھا تو اُن کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ آئندہ آنے والے برسوں میں وہ کبھی واپس شام لوٹ سکیں گے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں دمشق سے نکلا تو مجھے یقین تھا کہ میرا نام اسد حکومت کی بلیک لسٹ میں شامل ہے۔ میں نے کبھی واپس جانے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں واپس گیا تو یا تو قتل کر دیا جاؤں گا یا اغوا کر لیا جاؤں گا۔‘

تاہم گزشتہ ماہ عماد الانارب لندن سے واپس شام آئے ہیں۔ یاد رہے کہ آٹھ دسمبر 2024 کو شام پر برسراقتدار بشار الاسد کو اپوزیشن فورسز نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا اور اسی کے ساتھ اسد خاندان کے شام پر 50 سالہ دور کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس تبدیلی کو خطے میں طاقت کے توازن کو بدلنے کا اشارہ قرار دیا گیا تھا۔

عماد کہتے ہیں کہ ’میں شام سے ایک مجرم کی طرح بھاگا تھا اور اب ایک ہیرو کی طرح واپس آیا ہوں۔ بشار الاسد کی بلیک لسٹ اب ہماری عزت و تکریم کی فہرست ہے۔‘

بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد سنہ 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ اُن کے والد 1971 میں اقتدار میں آئے تھے اور تب سے اپنی موت تک یعنی 29 سال تک انھوں نے ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔

بشار الاسد کو وراثت میں ایک ایسا ملک ملا تھا جہاں حکومت کا کنٹرول سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس پر ناقدین مخالفین کو دبانے کا الزام لگاتے تھے۔ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔

عماد نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’2013 میں دمشق میں ہر جگہ بشار الاسد چھائے دکھائی دیتے تھے۔ ہر مقام پر ان کی تصویریں آویزاں تھیں، بشار الاسد کی فوجیں ہر جگہ تعینات تھیں۔ یہ واقعی خوفناک تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اپنا کیمرہ اٹھانا بندوق اٹھانے سے زیادہ خطرناک تھا کیونکہ وہ (بشار الاسد) آزادیِ اظہار سے بہت زیادہ خوفزدہ تھے۔‘

عماد الارناب نے شام کے مختلف علاقوں کا وزٹ کیا
BBC
عماد الارناب کے مطابق ’میں شام سے ایک مجرم کی طرح بھاگا تھا اور اب ہیرو کی طرح واپس آیا ہوں‘

بشار الاسد کی حکومت کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں تھا تاہم ہیئت التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نامی اپوزیشن گروہ کے اچانک حملے نے چند دنوں میں ان کا دہائیوں کا اقتدار ختم کر دیا۔

عماد الانارب نے کہا کہ ’مجھے خوف تھا کہ واپس جا کر میں وہی پرانا دمشق دیکھوں گا لیکن ایسا نہیں تھا بلکہ یہ پہلے سے کہیں بہتر ہے۔‘

اُن کے مطابق ’یہ ایک شہر ہے جو خود کو ایک بہتر امیج (تشخص) کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں آزادی اور تعمیرِ نو کی جھلک ہے، نئی حکومت کی عکاسی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا تصور موجود ہے جس میں آمریت کا شائبہ تک نہیں ہے۔‘

عماد الانارب سنہ 1999 سے سنہ 2013 تک دمشق میں اپنا ریسٹورنٹ چلاتے تھے تاہم بشار الاسد کی افواج نے صرف چھ دنوں میں ان کے تمام کاروبار کو تباہ کر دیا تھا۔

اپنی جان بچانے کے لیے وہ یورپ کے راستے لندن پہنچے تاکہ اپنی زندگی دوبارہ ترتیب دے سکیں۔ شروع میں انھوں نے کاروں کے سیلزمین کے طور پر کام کیا، پھر ایک ریستوران میں نوکری حاصل کر لی۔

آج وہ لندن کے مرکزی علاقے میں دو ریستوران چلاتے ہیں۔

عماد کہتے ہیں کہ انھیں جتنا فخر شام پر ہے، اُتنا ہی برطانیہ پر بھی ہے۔

ڈاکٹر عمار عزوز بھی شامی شہری ہیں جنھوں نے سنہ 2011 تک شام کے شہر حمص میں فنِ تعمیر کی تعلیم حاصل کی اور پھر وہ اپنی پوسٹ گریجویٹ تعلیم مکمل کرنے کے لیے برطانیہ منتقل ہو گئے۔

وہ اب یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں جغرافیہ کے لیکچرار اور ریسرچ فیلو ہیں، اور فنِ تعمیر اور جنگ کے مسائل پر تحقیق کرتے ہیں۔

انھوں نے حالیہ مہینوں میں شام میں علوی اور دروز جیسی برادریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’شام اب بھی خون میں نہا رہا ہے اور زخم اب بھی ہرے ہیں۔ تاہم ہمیں ایک مختلف کل کا خواب دیکھنا ہو گا۔ ایک ایسا شام جو انصاف، آزادی، وقار اور تمام شامیوں کے لیے جمہوریت پر قائم ہو۔‘

’قبرستان میں کتبوں پر نام کی جگہ نمبر تھے‘

ڈاکٹر عمارعزوز رواں برس مارچ میں 14 سال بعد پہلی بار شام واپس گئے تھے اور اس کے بعد سے وہ مزید دو بار شام جا چکے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’حمص میں موت ہر جگہ تھی۔ میری گلی کے ہر مکان میں جبری گمشدگی یا تشدد کی ایک کہانی موجود ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک قبرستان دیکھا جن پر صرف نمبر تھے، نام نہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے حمص موت کی دنیا بن چکا ہے۔‘

اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق شامی خانہ جنگی کے دوران پانچ لاکھ 80 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جبکہ ایک کروڑ 30 لاکھ شامیوں کو زبردستی بے دخل کر دیا گیا۔

ڈاکٹر عزوز نے 2011 کے بعد پہلی مرتبہ اپنے والدین سے ملاقات کی تھی۔

’شام واپس جا کر انھیں دیکھنا بالکل دل توڑ دینے والا تھا۔ وہ انتہائی کٹھن حالات میں رہتے ہیں۔ وہاں طبی نظام تباہ ہو چکا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ لوگ دوا اور مناسب علاج کے لیے مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔‘

’آپ جنگ کو لوگوں کے جسموں میں، ان کی آنکھوں میں، ان کے گھروں میں دیکھ سکتے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ کیفیت انھیں کبھی چھوڑ پائے گی۔‘

ڈاکٹر عمار عزوز نے کہا کہ بشار الاسد حکومت نے جبری خاموشی اور عوام کے غم اور تکلیفوں کو جنم دیا ہے۔

’کچھ لوگ آگے بڑھ کر ایک نیا مستقبل شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اس وقت تک آگے بڑھنے کا نہیں سوچ سکتے جب تک یہ تسلیم نہ کیا جائے کہ ہوا کیا تھا۔‘

ڈاکٹر عمار کے مطابق ’ہمیں جنگ کے ہولناک واقعات کو دستاویزی شکل میں لانا ہو گا۔ مستقل غم اور سوگ کے بجائے ایک پُرامید مستقبل تعمیر کرنے کے لیے ایسا ضروری ہے۔‘

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ شام کے عوام کو خود اپنے ملک کی تعمیرِ نو کی قیادت کرنی چاہیے۔

’تعمیرِ نو شروع کرنے کے لیے جوش و خروش موجود ہے تاہم بہت سی بین الاقوامی کمپنیاں اسے سرمایہ کاری کے موقع کے طور پر دیکھتی ہیں اور تعمیرِ نو کو موقع سمجھ کر اسے حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہیں۔ میرا وطن اور میرا درد منافع کے لیے نہیں ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US