جب پنجاب ویسٹ اتھارٹی نے برمنگھم کمیونٹی کے آرگنائزرز سے آن لائن رابطوں کے پلیٹ فارم ’ٹیمز‘ پر بات چیت شروع کی تو ہدف واضح تھا کہ ایسا تسلیم شدہ ماڈل شیئر کیا جائے، جس نے پاکستان میں گلی محلوں کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہو۔
برمنگھم کو کوڑا ٹھکانے لگانے کے مسائل کا سامنا رہتا ہےاگر آپ کو یہ پتہ چلے کہ پاکستان کے کسی ادارے نے برطانیہ کے کسی شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے مشورے دیے ہیں تو یہ یقیناً آپ کے لیے حیران کُن ہو گا۔
لیکن حقیقت یہی ہے کہ پنجاب ویسٹ اتھارٹی اور برمنگھم میں رضا کاروں کے درمیان ہونے والے ڈیجیٹل رابطے نے برمنگھم میں گلی اور محلوں کو صاف رکھنے میں مدد دی ہے۔
یہ کہانی ہے پاکستان میں فضلہ ٹھکانے لگانے کے ماہرین اور برمنگھم کے رضاکاروں کے درمیان ہونے والی ڈیجیٹل پارٹنر شپ کی، جس نے کئی مفروضوں کو چیلنج کیا ہے۔
جب پنجاب ویسٹ اتھارٹی نے برمنگھم کمیونٹی کے منتظمین سے آن لائن رابطوں کے پلیٹ فارم ’ٹیمز‘ پر بات چیت شروع کی تو ہدف واضح تھا کہ اُن کے ساتھ ایسا تسلیم شدہ ماڈل شیئر کیا جائے، جس نے پاکستان میں گلی محلوں کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہو۔
ان رابطوں کا مقصد برمنگھم جیسے شہر میں اُبلتے ہوئے کوڑے دانوں اور آئے روز صفائی ستھرائی کے کارکنوں کی ہڑتالوں کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کا حل تجویز کرنا تھا۔ ان رابطوں کے جو نتائج سامنے آئے وہ خیالات کا ایک طاقتور تبادلہ تھے، جس نے یہ ثابت کیا کہ غیر متوقع جگہوں سے بھی مؤثر حل نکل سکتے ہیں۔
برمنگھم میں رضاکاروں کی قیادت نوید کر رہے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ تسلیم کرنا افسوسناک ہے، لیکن سب سے بڑا مسئلہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ٹیکس ادا کرنے سے انھیں کہیں بھی کچرا پھینکنے کا حق مل جاتا ہے۔ ہماری کمیونٹی میں کوڑا اٹھانا ایک مثبت سرگرمی کے بجائے اب ضرورت بن گیا ہے۔ اسلام صفائی کی اہمیت کا درس دیتا ہے، اس کے باوجود ہم اس سے پیچھے رہ گئے ہیں۔‘
پنجاب ویسٹ اتھارٹینے کس نوعیت کی رہنمائی کی؟
یہ رہنمائی آن لائن سیشن کی صورت میں دی گئی، جس میں کچرے کو مؤثر طریقے سے ٹھکانے لگانے، ہمسائیوں کو شعور اور آگاہی دینے اور صاف ستھرے ماحول کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی صورت میں دی گئی۔
نوید کہتے ہیں کہ ان رابطوں نے شہری ذمہ داری کا ایک نیا زاویہ سامنے رکھا۔
’پنجاب کی ٹیم سے بات کرنے کے بعد، میں نے محسوس کیا کہ ہم اپنے ماحول پر فخر کرنے کے بجائے مغرب میں ایک ترقی پذیر ملک کی طرح برتاؤ کرنے لگے ہیں۔‘
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بابر صاحب دین نے بتایا کہ ’پنجاب ویسٹ اتھارٹی کا بلیو پرنٹ، سادہ مگر مؤثر ہے۔ یہ تعلیم، کمیونٹی کی شمولیت اور فضلے کو کسی کام کی چیز میں تبدیل کرنے پر مرکوز ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کمیونٹیز کو کچرے کو درست طریقے سے ٹھکانے لگانے اور اسے کسی قیمتی چیز میں تبدیل کرنے کا طریقہ سکھایا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے کام کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور ہم اسے برمنگھم جیسے شہر کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے پُرجوش ہیں، کیونکہ انھیں کچرے کے چیلنجز کا سامنا ہے۔‘
خیال رہے کہ برطانیہ کے شہر برمنگھم میں کچرا اُٹھانے والوں کی ہڑتال کی وجہ سے آئے روز، کوڑا ٹھکانے لگانے کا چیلنج سامنے آتا رہتا ہے۔ اس ہڑتال کی وجہ سے برمنگھم میں اُبلتے کوڑے دانوں کی تصاویر سامنے آتی رہی ہیں۔
سینٹ میریز یونیورسٹی میں موسمیاتی تبدیلی کے ماہر پروفیسر فراز خان، اس عمل میں پنجاب ویسٹ اتھارٹی اور برمنگھم کے رضاروں کو مشاورت دیتے ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب نے واضح طور پر کوڑے سے نمٹنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا ہے، جس سے دُنیا بھر میں بہت سے ادارے استفادہ کر سکتے ہیں۔
اُن کے بقول وہ فضلے کو استعمال کر کے، مستقبل میں دوبارہ اس پر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ برمنگھم بھی اس سے سیکھ سکتا ہے۔ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کا حل دُنیا کے کسیبھی حصے سے آ سکتا ہے۔
فراز کا کہنا تھا کہ اسلام عبادت کی ایک شکل کے طور پر صفائی پر زور دیتا ہےاور ان رضاکاروں کی یہ کوششیں ان تعلیمات کا اظہار ہیں۔
اُن کے بقول برمنگھم کے رہائشی بھی، صفائی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، لیکن وہ ان اُصولوں سے کچھ دُور ہو گئے ہیں۔

نوید اس معاملے میں دیگر پیچیدگیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اُن کے بقول ہمارے ہاں، ایسے کونسلرز بھی ہیں، جو صرف انتخابات کے دنوں میں متحرک نظر آتے ہیں۔ لہذا ہمیں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو اپنے گلی محلوں کی صفائی کے بارے میں واقعی فکر مند ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ کمیونٹی کی آوازیں، بلدیاتی انتخابات میں سامنے آنی چاہییں، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں، جو اپنے گلی محلوں کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد پنجاب کے تجربات سے مستفید ہوتے ہوئے، مقامی رضاکاروں اور دیگر شراکت داروں کے درمیان تعاون سے ایسا ماحول بنانا ہے، جس پر برمنگھم کے شہری فخر کر سکیں۔
رضاکاروں کے لیے یہ منصوبہ صرف کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ شہروں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرے گا۔ یہ مایوسی کو اُمید میں بدلے گا۔