پاکستان کو مختلف اقساط میں مجموعی طور پر سات ارب ڈالر کا قرضہ دینے پر رضامند ہونے والے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی نئی شرائط میں زیادہ نمایاں طور پر کرپشن اور نظم و ضبط کی بہتری کے حوالے سے تجاویز شامل ہیں۔ ان میں سب سے اہم اعلی سطحی سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کی تفصیلات کی اشاعت ہے۔

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے قرض کی نئی قسط کی منظوری اور منتقلی کے ساتھ ہی پاکستان کے لیے اپنے پروگرام کا دوسرا جائزہ شائع کیا ہے جس میں ان کی سٹاف لیول رپورٹ میں پاکستان کے لیے لگ بھگ گیارہ نئی شرائط تجویز کی گئی ہیں۔
ان میں زیادہ تر کا تعلق آئی ایم ایف کی اس گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ رپورٹ سے ہے جو عالمی مالیاتی ادارے نے رواں برس حال ہی میں جاری کی تھی جسے پاکستان کی وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ میں پاکستان کے کئی حکومتی اداروں میں کرپشن کے حوالے سے درپیش مشکلات اور پاکستان میں قانونی اور حکومتی نظم و ضبط میں کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
آئی ایم ایف کی شرط یہ تھی پاکستانی کی حکومت کے کہنے پر ترتیب دی جانے والی اس رپورٹ کو حکومت پہلے شائع کرے گی اور اس کے بعد اس میں جن کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے خاتمے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنائے گی، جو کہ ایک عوامی دستاویز ہو گی۔
آئی ایم ایف نے اپنے دوسرے ریویو اور سٹاف لیول جائزے میں کہا ہے کہ پاکستانی حکومت نے اس رپورٹ کو مقررہ ڈیڈ لائن کے بعد شائع ضرور کیا ہے تاہم اس کے لیے 'ایکشن پلان' تاحال ترتیب نہیں دیا۔
نئی شرائط میں اب آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو یہ رپورٹ شائع کرنے میں تاخیر ہوئی اور اس پر اسے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس رپورٹ کے حوالے سے ایکشن پلان بنانے اور شائع کرنے میں تاخیر ہو گی۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ اب یہ ایکشن پلان رواں برس کے خاتمے سے پہلے پاکستان کو بنانا اور شائع کرنا ہے۔
کرپشن کے خلاف اقدامات کے ساتھ ساتھ نئی شرائط میں آئی ایم ایف نے چند ٹیکس بڑھانے کی بھی تجویز دی ہے۔ ان میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پر عائد وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی شرح کو پانچ فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی نئی شرائط سے ایک طرف کرپشن میں کمی لانے کے اقدامات سے اور بنیادی ضروری اشیا جیسا کہ چینی اور گندم کی مارکیٹ پر عائد تجارتی پابندیوں سے عام عوام کو فائدہ پہنچنے کی امید ہے۔ تاہم دوسری طرف ٹیکس بڑھنے سے خاص طور پر کسانوں پر بوجھ مزید بڑھنے کا خطرہ ہے۔
یہ جاننے سے پہلے کے ان نئی شرائط کا عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑ سکتا ہے، ایک نظر ان شرائط پر ڈالتے ہیں جو آئی ایم ایف نے تجویز کی ہیں۔
وفاقی و صوبائی ملازمین کے اثاثہ جات کی تفصیلات
پاکستان کو مختلف اقساط میں مجموعی طور پر سات ارب ڈالر کا قرضہ دینے پر رضامند ہونے والے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی نئی شرائط میں زیادہ نمایاں طور پر کرپشن اور نظم و ضبط کی بہتری کے حوالے سے تجاویز شامل ہیں۔
ان میں سب سے اہم اعلی سطحی سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کی تفصیلات کی اشاعت ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان آئندہ برس دسمبر کے اختتام سے قبل حکومتی ویب سائٹ پر اعلی سطحی وفاقی ملازمین کے اثاثہ جات کی تفصیلات شائع کرے گا۔ 'اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کے ذرائع اور اثاثہ جات میں مماثلت کی نشاندہی کی جا سکے۔'
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت وفاق کے ساتھ صوبائی سطح کے اعلی ملازمین کو بھی اس شرط میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ 'بینکوں کو ان کے اثاثہ جات کی تفصیلات تک رسائی حاصل ہو گی۔'

’کرپشن ہائی رسک‘ 10 اداروں کے لیے ایکشن پلان
آئی ایم ایف نے اپنے سٹاف لیول جائزے میں کرپشن اور گورننس کے حوالے سے تریت کردہ رپورٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی ادارہ جاتی سطح کی رسک اسیسمنٹ یا رسک کی تشخیص کی بنیاد پر وہ یہ کہتا ہے کہ وفاقی احتساب بیورو یا نیب کو مرکزی ذمہ داری دی جائے گی۔
آئندہ برس اکتوبر کے خاتمے سے پہلے تک نیب ان دس اداروں میں کرپشن کے حوالے سے خامیوں کو دور کرنے کے لیے ایکشن پلان ترتیب دینے میں قیادت کرے گی جن کی کرپشن کے حوالے سے ہائی رسک ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
'اس کے ساتھ ہی صوبائی سطح پر اداروں میں کرپشن کے حوالے سے کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے اینٹی کرپشن کے صوبائی اداروں کو با اختیار بنایا جائے گا تا کہ وہ فائنینشل انٹیلیجنس یا مالیاتی جانکاری کے حصول ممکن بنا سکیں۔'
اینٹی کرپشن کے یہ محکمے اپنے دائرہ اختیار کے علاقے میں ہونے والے مالیاتی سطح کے کرپشن کے جرائم کی تحقیقات کرنے کے لیے اپنی صلاحیات کو بڑھانے کے لیے معاونت حاصل کرتے رہیں گے۔
کھاد پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان نے رواں برس جون کے آخر تک سٹرکچرل بینچ مارک یا بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے معیار کا جو ہدف کھادوں اور کیڑے مار ادوایات پر پانچ فیصد وفاقی ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کے حوالے سے مقرر کیا گیا تھا اس کو پورا نہیں کر پایا۔
'تاہم اگر وہ رواں برس کے آخر تک اپنے متوقع آمدن کے اہداف حاصل نہیں کر پاتا تو وہ ہنگامی اقدام کے طور پر اس ہدف پر عملدرآمد کرے گا۔'
ماہرین کے مطابق اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو ایک منی بجٹ لانا پڑے گا جس میں ٹیکس کے حوالے سے ان نئی شرائط پر عملدرآمد کر پائے گا۔
آئی ایم ایف نے نئی شرائط میں یہ بھی شامل کیا ہے کہ پاکستان آئندہ برس کہ چھ ماہی تک ایک جامع لائحہ عمل تریت دے گا اور اسے شائع کرے گا جس میں درمیانے درجے کی ٹیکس اصلاحات کی حکمت عملی شامل ہو گی۔
اس لائحہ عمل میں ایک مکمل روڈ میپ دیا جائے گا کہ پاکستان کی ٹیکس پالیسی کیا ہو گی، انتظامی اور قانونی اصلاحات کیا ہوں گی اور ان پر عملدرآمد کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
چینی کی صنعت سے پابندیاں ہٹائی جائیں
آئی ایم ایف نے اپنے ریویو میں جو شرائط رکھی ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ پاکستان آئندہ برس جون تک چینی کی صنعت پر لاگو پابندیاں ختم کرے گا تاکہ اس صنعت کو اقتصادی اعتبار سے آزاد بنایا جا سکے۔
اس حوالے سے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ 'پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو باہم رضامندی سے ایک قومی پالیسی بنانا ہو گی جو کہ وفاقی کابینہ سے منظور کروائی جائے گی۔'
اس پالیسی میں چینی کی صنعت کو اقتصادی آزادی دینے کے لیے لائسنسنگ، قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا طریقہ کار، برآمدات اور درآمدات کی اجازت دینے کا طریقہ کار، زون بنانے کا طریقہ کار اور ان تمام پر عملدرآمد کا طریقہ پر سفارشات واضح طور پر شامل ہوں گی۔
اس شرط کے سامنے آنے کی وجہ بظاہر پاکستان کی طرف سے ماضی میں چینی کی صنعت میں لائسینسنگ کے طریقہ کار میں بے ضابطگیوں اور ٹیکس میں چھوٹ دے کر درآمدات کی اجازت دینے جیسے واقعات کا سامنا آنا ہے۔
آئی ایم ایف اس سے قبل چینی کی صنعت میں ٹیکس پر چھوٹ دینے کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ پاکستان اس شرط کو پورا کرنے میں متواتر ناکام رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اس میں بنیادی اصلاحات کے لائحہ عمل کو حتمی شکل دینے کے لیے رواں برس کے آخر تک اقدامات مکمل کرنے کا وقت دیا ہے۔
’کرپشن میں کمی سے عام آدمی کو فائدہ ہو گا‘
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے نئی شرائط کے حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ اور معاشی ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ یہ شرائط زیادہ تر آئی ایم ایف کی اپنی گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ پر عملدرآمد کروانے کے حوالے سے نظر آتی ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف 'اب محض ادھر ادھر کی چھوٹی موٹی سفارشات اور خامیوں کی نشاندہی کے بجائے سٹرکچرل ریفارمز پر زور دے رہا ہے جو کہ ایک اچھی بات ہے۔ اس سے ملکوں کی معاشی ترقی میں بہتری آئے گی۔'
وہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے اب قابل عمل بینچ مارکس یا معیار مقرر کر دیے ہیں اور اس کی نئی شرائط ان پر مکمل عملدرآمد کروانے کو یقینی بنانے کے لیے لگائی جا رہی ہیں۔
مثال کے طور پر اعلی سطحی وفاقی ملازمین کے اثاثہ جات کی اشاعت ایک اچھا عمل ہے جس سے اداروں کی کارکردگی میں شفافیت آئے گی۔ 'اگر کرپشن میں کمی آتی ہے تو اس سے براہ راست عام آدمی کو فائدہ ہو گا۔'
تاہم ڈاکٹر حفیظ پاشا سمجھتے ہیں کہ کھادوں اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس کو بڑھانا غلط اقدام ہے۔ 'اس سے ہمارے زرعی شعبے کی کارکردگی پر برا اثر پڑے گا اور ہمارا کسان جو کہ پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اس پر بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔'
وہ کہتے ہیں کہ اس کے برعکس حکومت کے چاہیے کہ وہ زرعی شعبے اور خاص طور پر کھادوں پر کسانوں کو مزید سبسڈی دے تاکہ زرعی شعبے میں ترقی کو تیز کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف بار بار پاکستان پر نئی شرائط کیوں عائد کرتا ہے؟
گذشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران آئی ایم ایف پاکستان پر قرض کے حصول کے لیے بارہا شرائط عائد کرتا رہے ہے۔ ان شرائط کی تعداد لگ بھگ 70 کے قریب ہو چکی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف ایسا کیوں کرتا ہے اور اس کی پاکستان پر عدم اعتماد کی وجہ کیا ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا سمجھتے ہیں کہ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ مقررہ اہداف حاصل کرنے کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں رہی ہے۔
’وہ کہتے ہیں کہ جب کچھ برا ہو جاتا ہے تو لوگ آئی ایم ایف کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اس لیے ہمیں دوش دینا بند کریں اور اپنے اہداف حاصل کریں۔‘
ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف ہر کچھ عرصے بعد پاکستان کو نئی شرائط تجویز کرتا ہے تاکہ اس کو قابل عمل اہداف واضح کیے جا سکیں۔ اور اب کیونکہ وہ ان اہداف میں بنیادی اصلاحات پر زور دے رہا ہے تو اس کا دعوی ہے کہ اس سے پاکستان کی معیشت بہتر ہو گی۔
’وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان ان شرائط پر پورا اترتا ہے اور اہداف حاصل کرتا ہے تو اس کی معیشت تین عشاریہ پانچ فیصد کے اعتبار سے ترقی کرے۔‘