حسن بن صباح، قلعہ الموت اور جنت نما باغات میں رہنے والے فدائین: رازوں میں لپٹے نزاری فرقے کے عروج و زوال کی داستان

ان روایات نے یہ تصور بھی عام کیا کہ قاتلوں کے اس گروہ کے کارندوں کو حشیش (ایک طرح کا نشہ) کا استعمال کروایا جاتا تھا، اُن کی ذہن سازی کی جاتی تھی اور اِس غرض سے اُنھیں پہاڑوں میں موجود ایسے جنت نما باغات میں قید رکھا جاتا تھا جہاں بہترین کھانے اور حسین عورتیں اُن کی خدمت کے لیے موجود رہتی تھیں۔
تاریخی حوالوں اور روایات کے مطابق ’فدائین‘ کی ذہن سازی کی جاتی اور انھیں پہاڑوں میں ایسے جنت نما باغات میں رکھا جاتا تھا جہاں بہترین کھانے اور حسین عورتیں اُن کی خدمت کے لیے موجود رہتیں
Getty Images
تاریخی حوالوں اور روایات کے مطابق ’فدائین‘ کی ذہن سازی کی جاتی اور انھیں پہاڑوں میں ایسے جنت نما باغات میں رکھا جاتا تھا جہاں بہترین کھانے اور حسین عورتیں اُن کی خدمت کے لیے موجود رہتیں

15 دسمبر 1256 کو ہلاکو خان نے شمالی فارس میں نزاری اسماعیلی فرقے (جنھیں بعض تاریخی روایات میں حشاشین کا نام دیا گیا ہے) کے مرکزی قلعے، قلعہ الموت، پر قبضہ کر لیا۔ اس حملے کے نتیجے میں قلعہ الموت تباہ کر دیا گیا اور فارس میں اس گروہ کی سیاسی و عسکری موجودگی عملاً ختم ہو گئی۔

اس واقعے کے بعد سے اس فرقے کا نام، تاریخ اور اساطیر پر مبنی ایسی متعدد روایات سے جڑ گیا جنھوں نے آئندہ آنے والی کئی صدیوں تک مغربی دنیا کے تخیل میں خوف کو جنم دیا۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق ہسپانیہ کے ایک یہودی ربی ’بنیامین‘ نے سنہ 1167 میں مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا کے 13 سالہ سفر کے دوران حشاشین کے پیروکاروں سے بات چیت کی تھی۔

اپنے سفرنامے میں انھوں نے اِس فرقے کا تفصیلی ذکر کیا جس نے دنیا میں خوف کی فضا طاری کر رکھی تھی۔ اُن کے مطابق یہ لوگ پہاڑی قلعوں میں رہتے تھے اور ایک پراسرار رہنما، ’شیخ الجبل‘ (اولڈ مین آف دی ماؤنٹینز)، کے احکامات کی اطاعت کرتے تھے۔

اگلی دو صدیوں تک سیاحوں اور صلیبی جنگجوؤں نے نزاریوں (حشاشین) کے بارے میں ہولناک کہانیاں بیان کیں جن میں انھیں قاتلوں کے ایسے گروہ کے طور پر پیش کیا گیا جو بچپن سے ہی خفیہ کارروائیوں کی تربیت پاتے تھے اور اپنے رہنما کے حکم پر جان تک دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔

ان روایات نے یہ تصور بھی عام کیا کہ قاتلوں کے اس گروہ کے کارندوں کو حشیش (ایک طرح کا نشہ) کا استعمال کروایا جاتا تھا، اُن کی ذہن سازی کی جاتی تھی اور اِس غرض سے اُنھیں پہاڑوں میں موجود ایسے جنت نما باغات میں قید رکھا جاتا تھا جہاں بہترین کھانے اور حسین عورتیں اُن کی خدمت کے لیے موجود رہتی تھیں۔

یورپی زبانوں میں لفظ ’Assassin‘ (اسیسن) کا ماخذ عربی لفظ ’حشاشین‘ کو ہی بتایا جاتا ہے، جس کا مفہوم پیشہ ور قاتل کے طور پر لیا جاتا ہے۔ تاہم قدیم اسماعیلی تحریروں میں نزاریوں کے لیے اس نام (حشاشین) کا استعمال نہیں ملتا، اور اس دور کے اسلامی معاشرے میں بھی ’حشاشین‘ کی اصطلاح رائج نہیں تھی۔

حسن بن صباح

حسن بن صباح اپنے پیروکاروں کو جام پیش کرتے ہوئے
Getty Images
حسن بن صباح اپنے پیروکاروں کو جام پیش کرتے ہوئے

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق یہ فرقہ نزاری اسماعیلیوں سے تعلق رکھتا تھا، جو فاطمی اسماعیلیوں سے الگ ہونے والا ایک گروہ تھا۔ حشاشین نے11ویں صدی سے لے کر 13ویں صدی میں ہونے والی منگول یلغار تک شام اور ایران میں متعدد پہاڑی قلعوں پر کنٹرول قائم رکھا ہوا تھا۔

حسن بن صباح کی قیادت میں اس فرقے کے پیروکاروں نے سنہ 1090 میں شمالی ایران میں واقع قلعۂ الموت پر قبضہ کر لیا اور یہی اِن کا پہلا مضبوط گڑھ بنا۔ یہ قبضہ سلجوقوں سے ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت اور بغیر کسی بڑی مزاحمت کے حاصل کیا گیا۔

اس فرقے کی بنیاد اُس نزاری اسماعیلی تحریک سے جڑی ہے جو فاطمی خلافت کے ساتھ امامت کے تنازع کے بعد وجود میں آئی۔ یہ تنازع نزار بن المستنصر باللہ اور اُن کے بھائی مستعلی کے درمیان خلافت کے حق پر پیدا ہوا تھا، کیونکہ نزار کے حامی خود کو امامت کا حقیقی وارث سمجھتے تھے۔

اسی پس منظر میں حسن بن صباح اُبھرے، جنھوں نے قاہرہ میں تعلیم حاصل کی تھی اور اسماعیلی دعوت کے نظریات لے کر فارس واپس آئے تھے۔ فارس واپسی پر انھوں نے سلجوق سلطنت کی سیاسی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت خفیہ انداز میں اپنی دعوتی تنظیم قائم کی۔

جلد ہی انھوں نے دیلم کے پہاڑی سلسلے میں واقع قلعۂ الموت کو اپنی تحریک کا مرکز بنا لیا۔ یہ قلعہ بعد میں اُن کی تمام سرگرمیوں کا ہیڈکوارٹر اور دیگر قلعوں پر قبضے کی مہمات کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ قلعہ الموت کے بعد نزاریوں نے کئی دیگر پہاڑی قلعوں پر بھی کنٹرول حاصل کیا اور یوں ایک جغرافیائی طور پر منتشر مگر مؤثر نزاری ریاست وجود میں آئی۔

حسن بن صباح اپنی فکر میں سخت گیر اور تنظیمی نظم و ضبط کے لیے مشہور تھے۔ انھوں نے اپنے پیروکاروں پر مطلق اطاعت کا اصول نافذ کیا اور اُن کی زندگیوں کو جماعت کے نظریاتی مقصد سے باہم منسلک کر دیا۔

انھوں نے پہاڑی قلعوں کو چھوٹی خودمختار ریاستوں کی طرح منظم کیا اور پیروکاروں کی باطنی تعلیم پر مبنی ایک سخت نظریاتی تربیت کا نظام قائم کیا۔ اس نظام نے تحریک کو بیرونی حملوں کے باوجود غیر معمولی استحکام دیا اور پیروکاروں میں قیادت کے لیے جان قربان کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔

اسی وجہ سے بعض مغربی مؤرخین نے بعد میں اس تحریک کو ’کلوزڈ سوسائٹی‘ (یعنی انتہائی قدامت پرست گروہ) قرار دیا جو اپنے پیروکاروں میں موت کو گلے لگانے اور غیر معمولی وفاداری پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

فارس کے علاوہ شام میں بھی حشاشین کی موجودگی مضبوط تھی، جہاں قدموس، الکحف اور مصیاف جیسے قلعے اُن کے مراکز تھے۔ شام میں حشاشین کے نمایاں رہنما رشید الدین سنان تھے، جنھیں شیخ الجبل کے نام سے جانا جاتا تھا، اور جنھوں نے 12ویں صدی کے اختتام پر تقریباً 30 برس تک شام میں اس تحریک کی قیادت کی، یعنی ایک ایسے وقت میں جب یہ تحریک اپنے عروج پر تھی۔

یورپی مؤرخین نے ’شیخ الجبل‘ کے بارے میں متعدد روایات بیان کی ہیں، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ اپنے پیروکاروں کو پراسرار طریقوں سے قابو میں رکھتے تھے۔ بعض کہانیوں میں دعویٰ کیا گیا کہ فدائین کو ایسی ذہنی کیفیت میں رکھا جاتا تھا جو انھیں جان دینے کے لیے تیار کر دیتی تھی۔

ان روایات میں ان کے نام کو ’حشیش‘ سے جوڑا گیا، حالانکہ اس کی کوئی قطعی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ نام سیاسی پروپیگنڈے کا نتیجہ تھا جس کا مقصد اس فرقے کو بدنام کرنا تھا۔

شیخ الجبل کا نام کئی سیاسی و عسکری کارروائیوں سے جوڑا جاتا ہے اور صلیبیوں نے ان کے گرد متعدد افسانے گھڑے۔ اس مبالغہ آرائی کے باوجود وہ اس دور کے مقامی حکمرانوں کے درمیان تعلقات کے تعین میں ایک اہم کردار رکھتے تھے۔

سیاسی قتل و غارت

رسم للسلطان صلاح الدين الأيوبي الذي حاول النزاريون اغتياله في أكثر من مناسبة
Getty Images
حشاشین نے ایک سے زیادہ مرتبہ صلاح الدین ایوبی پر قاتلانہ حملے کیے مگر وہ ان میں بچ نکلے (صلاح الدین ایوبی کا خاکہ)

چونکہ نزاری اپنی روایتی عسکری قوت کے اعتبار سے اپنے بڑے مخالفین کے مقابلے میں کہیں کمزور تھے، اس لیے انھوں نے گوریلا طرزِ جنگ کو اپنایا، جس میں جاسوسی، دشمن کے علاقوں میں خفیہ رسائی اور مخالف رہنماؤں کے ٹارگٹڈ قتل (یعنی ہدف بنا کر قتل کرنا) شامل تھے۔

یہ فرقہ اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی قتل کو بنیادی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اُن کی کارروائیاں بے ترتیب نہیں ہوتیں تھیں بلکہ ایسے مخصوص افراد کو نشانہ بنایا جاتا تھا جو خطے میں انتہائی اہمیت اور اثر و رسوح کے حامل ہوتے تھے۔

نزاری فرقے میں ایک بڑا گروہ ’فدائین‘ کا تھا جو انتہائی مہارت سے قتل کی کارروائیاں انجام دیتے تھے۔ اُن کی پہلی نمایاں کارروائی سنہ 1092 میں سلجوق وزیر نظام الملک کا قتل تھا، جسے نزاری اپنی تحریک اور اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔

نظام الملک کو ایک نزاری فدائی نے صوفی کا بھیس بدل کر قتل کیا تھا۔

اس کے بعد سلجوق رہنماؤں، مقامی امرا اور بعض مسیحی شخصیات کے خلاف بھی کئی کارروائیاں کی گئیں۔ سنہ 1192 میں انھوں نے صلیبی رہنما کونراڈ آف مونٹفیراٹ کو اُن کی تاج پوشی سے محض چند روز قبل قتل کر دیا۔ مونٹفیراٹ یروشلم کی صلیبی ریاست کے بادشاہ بننے والے تھے۔

صلیبی جنگوں کے دوران نزاری فرقہ یورپی لوک کہانیوں میں نمایاں ہوتا چلا گیا، کیونکہ سیاحوں اور صلیبیوں نے فدائین کی اپنے رہنماؤں سے ’جادوئی وفاداری‘ کے مبالغہ آمیز قصے بیان کرنے شروع کر دیے تھے۔

نزاریوں کی کارروائیاں محض عسکری حملے نہیں تھیں بلکہ یہ سیاسی پیغام بھی تھے، جن کا مقصد مخالفین پر یہ واضح کرنا تھا کہ اُن کے فدائین کڑے پہروں اور انتہائی حفاظتی حصار میں رہنے والے مخالف رہنماؤں تک باآسانی پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

نزاریوں کے اس ’غیر مرئی خطرے‘ کی شہرت پھیلنے کے بعد اُن کے مخالفین کو کئی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا پڑیں، جن میں درجنوں ذاتی محافظوں کے ساتھ سفر کرنا اور کپڑوں کے نیچے خفیہ زرہ پہننا وغیرہ شامل تھا۔

نزاریوں نے سیاسی ضرورت کے تحت مختلف مذاہب اور فرقوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم کیے۔ بعض مواقع پر انھوں نے صلیبی طاقتوں کے قریب ہونے میں بھی مذائقہ نہیں سمجھا تاکہ سلجوقوں یا زنگیوں جیسے مشترکہ دشمنوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

نزاریوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھی کئی مرتبہ اپنے قریب لانے کی کوشش کی، مگر یہ ممکن نہ ہو سکا اور بعدازاں اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ انھوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کی کوشش کی۔

جواب میں صلاح الدین نے شام میں ان کے مراکز کے خلاف سخت کارروائیاں کیں، لیکن اُن کے پہاڑی قلعوں کی ساخت اور پیروکاروں کی غیر معمولی وفاداری کے باعث نزاریوں کو مکمل طور پر ختم کرنا ایوبی کے لیے بھی ممکن نہ ہو سکا۔

آخرکار معاملہ صلاح الدین ایوبی اور رشید الدین سنان کے درمیان صلح پر منتج ہوا، جس کے تحت صلاح الدین ایوبی نے رشید الدین سنان کی شام کے پہاڑی علاقوں میں مقامی حکمرانی کو تسلیم کر لیا، بشرطیکہ وہ ایوبیوں پر حملہ نہ کریں۔

اختتام اور وراثت

13ویں صدی کے وسط میں ہلاکو خان کی قیادت میں منگولوں کے عروج کے ساتھ نزاریوں کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ فارس اور عراق کو روندنے کے بعد منگول افواج نے اپنی مہمات کا رُخ نزاریوں کے پہاڑی قلعوں کی طرف موڑ دیا۔

اگرچہ نزاریوں نے قلعۂ الموت اور دیگر مقامات کے دفاع میں غیر معمولی بہادری دکھائی، لیکن وہ منگول یلغار کے سامنے زیادہ دیر تک مزاحمت نہ کر سکے۔ سنہ 1256میں منگولوں نے قلعۂ الموت کو فتح کر لیا اور اس کے بعد اُن کے نزاریوں کے کئی دیگر مضبوط قلعے بھی تباہ کر دیے۔

شام میں نزاریوں کی موجودگی نسبتاً زیادہ عرصے تک برقرار رہی، اگرچہ انھیں منگولوں اور صلیبیوں دونوں کی جانب سے حملوں کا سامنا تھا۔ تاہم بعدازاں جب الظاہر بیبرس کی قیادت میں مملوکوں نے شام پر کنٹرول مضبوط کیا تو وہاں سے نزاریوں کی منظم طاقت کا خاتمہ شروع ہو گیا۔

بیبرس نے ان کے قلعوں پر قبضے کے لیے ایک منظم مہم چلائی اور بتدریج ان کے اثر و رسوخ کو محدود کر کے ان کی عسکری اور فدائی صلاحیتوں کو ختم کر دیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ نزاریوں کی پرانی تنظیم مکمل طور پر تحلیل ہو گئی اور اُن کے پیروکار مقامی آبادیوں میں ضم ہو گئے یا دیگر اسماعیلی تحریکوں کا حصہ بن گئے۔

اگرچہ نزاریوں کی سیاسی تنظیم ختم ہو گئی، لیکن اس گروہ کی وراثت یورپی اور عرب روایات و اساطیر میں زندہ رہی۔ اس وراثت کے برقرار رہنے کی ایک بڑی وجہ اُن کا خفیہ طرزِ عمل اور کم تعداد کے باوجود سیاسی اثر و رسوخ قائم رکھنے کی صلاحیت تھی۔

یورپ کے قرونِ وسطیٰ کے سیاحوں کے بیانات نے بھی اس فرقے کی ایک ڈرامائی تصویر پیش کی، جن میں بعض نے انھیں افسانوی قاتلوں کے گروہ کے طور پر بیان کیا۔ مغربی ادب میں ان کی شبیہ انیسویں اور بیسویں صدی میں دوبارہ اُبھری، اور جدید زبانوں میں لفظ Assassinپیشہ ور قاتل کے مترادف بن گیا، جو نزاریوں سے متعلق تاریخی بیانیے کے اثرات کا براہِ راست نتیجہ ہے۔

نزاریوں کی یہ تصویر مغربی ورثے میں اس قدر راسخ ہوئی کہ بعض محققین نے تاریخ میں سیاسی قتل کے تصور کی تشکیل میں اس گروہ کے کردار کا مطالعہ شروع کیا۔ کچھ مؤرخین انھیں پہلی ایسی جماعت قرار دیتے ہیں جس نے دفاعی حکمتِ عملی کے تحت منظم انداز میں قتل کو ایک باقاعدہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

تاہم جدید تحقیق نے ان سے منسوب کئی اساطیری روایات کو بے نقاب کیا ہے۔ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ فرقہ محض ایک پرتشدد گروہ نہیں تھا بلکہ ایک پیچیدہ نظریاتی اور سیاسی تنظیم تھی، جس کی تحریک کے محرکات ’جادو‘ یا پراسراریت کے بجائے مذہبی و سیاسی جواز کی جدوجہد سے جڑے تھے۔

اسماعیلی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تحریک کے پاس باطنی تعبیر اور مضبوط تعلیمی روایت پر مبنی ایک مکمل فکری ڈھانچہ موجود تھا۔ جن قتل کی کارروائیوں کی وجہ سے نزاری مشہور ہوئے، وہ دراصل ایک وسیع تر حکمتِ عملی کا محدود حصہ تھیں، جس کا مقصد اپنے وجود کو ان طاقتوں کے مقابلے میں محفوظ رکھنا تھا جو تعداد اور وسائل میں ان سے کہیں زیادہ تھیں۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق یورپ تک پہنچنے والی ان کے بارے میں زیادہ تر کہانیاں درست نہیں تھیں، کیونکہ ان کے بنیادی ذرائع اُن کے دو بڑے دشمن،سنی مسلمان اور صلیبی جنگجو، تھے۔ مزید یہ کہ اسماعیلی ذرائع ’حشیش‘ والی کہانی کی تائید نہیں کرتے۔

بریٹانیکا یہ بھی بتاتا ہے کہ اس دور میں مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی قتل صرف نزاریوں تک محدود نہیں تھا بلکہ صلیبی اور سُنی حکمران بھی اس طریقے کو استعمال کرتے تھے۔

نزاری فرقے کے مطالعے سے ان کی سماجی ساخت کے دلچسپ پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ یہ فرقہ امامِ غائب کے تصور اور باطنی تعبیر پر مبنی ایک متبادل معاشرہ تشکیل دیتا تھا، جس سے ان کے پیروکاروں میں اپنے ماحول سے امتیاز کا احساس پیدا ہوتا تھا۔

وہ اسلامی دنیا کی سیاسی و فکری تاریخ کے ایک نہایت پیچیدہ دور کا حصہ تھے، اور ان کا دائرہ اثر محض قتل کی کارروائیوں تک محدود نہیں تھا۔ انھوں نے ایک آزاد نظریاتی نظام اور سلجوق و عباسی بالادستی کے مقابل ایک سیاسی وجود قائم کرنے کی کوشش بھی کی۔

تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو نزاری ایک ایسی تحریک تھے جو اسلامی دنیا کے داخلی تنازعات اور خود اسماعیلی تحریک کے اندرونی اختلافات کے نتیجے میں اُبھری۔

لیکن ان کے وجود کا دیرپا پیغام یہ ہے کہ چھوٹی مگر منظم اور نظریاتی طور پر مضبوط جماعتیں بھی وسیع سیاسی منظرنامے پر گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔ ان کی تاریخ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ بڑے سیاسی نظام کس قدر کمزور ہو سکتے ہیں جب انھیں ایسے دشمن کا سامنا ہو جو خفیہ کارروائیوں میں مہارت رکھتا ہو۔

مؤرخین کی جانب سے اس فرقے کو سیاق و سباق میں رکھنے کی کوششوں کے باوجود وہ آج بھی راز، پوشیدہ طاقت اور پراسراریت کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور عوامی یادداشت اور جدید ثقافتی تخلیقات میں ان کی موجودگی برقرار ہے۔

قرونِ وسطیٰ کے بعد بھی ’حشاشین‘ کی کہانیاں یورپ میں زندہ رہیں، جہاں مشرقِ وسطیٰ سے متعلق سنسنی خیز قصے ہمیشہ سے ہی مقبول رہے ہیں۔

آج بھی یہ روایات مغربی مقبول ثقافت میں کبھی کبھار نمودار ہوتی ہیں، ناولوں، فلموں اور ویڈیو گیمز کے ذریعے۔ اس کی ایک نمایاں مثال اسیسنز کریڈ نامی ویڈیو گیم سیریز ہے، جس میں ایک خفیہ قاتل تنظیم دکھائی گئی ہے جو غیر معمولی جسمانی صلاحیتوں کے ساتھ دیواریں چڑھتی اور چھتوں پر دوڑتی ہے تاکہ اپنے دشمنوں کا پیچھا کر سکے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US