رواں برس اگست میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف کے نفاذ کے اعلان کے بعد انڈین سرمایہ کاروں کے اعتماد کو شدید دھچکا لگا اور انڈین برآمدات بظاہر غیر مسابقتی ہو کر رہ گئیں۔
انڈیا نے حال ہی میں خلیجی ملک عمان کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدے پر دستخط کیے ہیںانڈیا نے امریکہ کی جانب سے بھاری ٹیرف کے نفاذکےبعد اپنی برآمدات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈین مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف کے نفاذ اور انڈین چاول پر مزید ٹیرف عائد کرنے کے حالیہ انتباہ کے بعد انڈیا نے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ’فری ٹریڈ ایگریمنٹس‘ پر مذاکرات کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔
اس ضمن میں حالیہ بڑی پیش رفت 18 دسمبر کو سامنے آئی جب انڈیا نے عمان کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر دستخط کیے۔
عمان مشرقِ وسطیٰ میں انڈیا کا اہم تجارتی شراکت دار ہے۔ یہ خلیجی تعاون کونسل (گلف کوآپریشن کونسل) کے کسی ملک کے ساتھ انڈیا کا اس نوعیت کا دوسرا معاہدہ ہے، اس سے قبل متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی یہ معاہدہ ہو چکا ہے۔
انڈیا امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ یورپی یونین، نیوزی لینڈ، چلی، پیرو اور اسرائیل کے ساتھ بھی برآمدات بڑھانے کے حوالے سے مذاکرات کر رہا ہے۔
توانائی اور دفاع کے روایتی شعبوں سے ہٹ کر انڈیا نے روس کے ساتھ بھی دو طرفہ تجارت کو سنہ 2030 تک 100 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
پوتن نے رواں ماہ کے دوران انڈیا کا دورہ کیا ہے جس کے دوران دو طرفہ تجارت کے حجم کو بڑھانے پر اتفاق ہوا ہےحالیہ دورۂ انڈیا کے دوران صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک نے تقریباً 300 ممکنہ برآمدی مصنوعات کی نشاندہی کی جن میں انجینئرنگ کا سامان، دوا سازی، زرعی مصنوعات، کیمیکلز اور پلاسٹک وغیرہ شامل ہیں۔
انڈین اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق انڈیا نے تقریباً 40 ایسی اہم منڈیوں کی نشاندہی کی ہے جو اس کی برآمدات کو متنوع بنانے کے لیے نہایت اہمقرار دی جا رہی ہیں۔
اِن نئی منڈیوں میں جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین، نیدرلینڈز، پولینڈ، کینیڈا، میکسیکو، روس، بیلجیم، ترکی، متحدہ عرب امارات اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ اِن میں سے آسٹریلیا اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ انڈیا پہلے ہی دو طرفہ تجارتی معاہدے کر چکا ہے۔
برآمدات میں تنوع کی فوری ضرورت
رواں برس اگست میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف کے نفاذ کے اعلان کے بعد انڈین سرمایہ کاروں کے اعتماد کو شدید دھچکا لگا اور انڈین برآمدات بظاہر غیر مسابقتی ہو کر رہ گئیں۔
اس مسئلے کی پیچیدگی کو تسلیم کرتے ہوئے انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے 29 نومبر کو اِس بات پر زور دیا کہ ’ٹیرف جنگ سے پیدا ہونے والی غیر یقینیصورتحال میں سپلائی (برآمدات) کے ذرائع کو مسلسل متنوع بنانا ضروری ہے۔‘
ٹیرف کے دباؤ سے نمٹنے کی کوششوں کو اجاگر کرتے ہوئے، بی جے پی حکومت نے 18 دسمبر کو جاری ایک بیان میں کہا کہ ’برآمدات میں تنوع عالمی غیر یقینی حالات کے دوران تجارتی استحکام، مسابقت اور طویل مدتی معاشی تحفظ کو مزید مضبوط کرے گا۔‘
انڈین ماہرین کے مطابق یورپی یونین کے ساتھ جاری مذاکرات اس سمت میں اہم قدم ہیں۔
تجزیہ کار ششیر پریادرشی نے کہا کہ ’انڈیا و یورپی یونین تجارتی معاہدہ امریکہ کی غیر یقینی تجارتی سیاست کے مقابلے میں انڈیا کو ایک قابلِ اعتماد متبادل فراہم کرتا ہے۔‘
فری ٹریڈ ایگریمنٹس کے معاملے پر انڈیا کہاں کھڑا ہے؟
انڈیا نے گذشتہ چند برسوں میں کئی فری ٹریڈ ایگریمنٹس (FTA) پر دستخط کیے ہیں، جن میں یورپی فری ٹریڈ ایسوسی ایشن بھی شامل ہے جن میں چار رُکن ممالک (جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور ماریشس) موجود ہیں۔
اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور برطانیہ سے بھی فری ٹریڈ ایگریمنٹس کیے گئے ہیں۔ تاہم ٹیرف بحران نے انڈیا کو مزید ممکنہ تجارتی شراکت داروں اور دو طرفہ معاہدوں کی تلاش پر مجبور کیا ہے۔
یورپی یونین جیسے بلاکس کے ساتھ ساتھ انڈیا اس وقت کینیڈا، بحرین، قطر، نیوزی لینڈ اور اسرائیل کے ساتھ بھی تجارتی مذاکرات کر رہا ہے۔
انڈیا کے وزیر مملکت برائے تجارت و صنعت جتن پرساد نے نو دسمبر کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ انڈیا کے بین الاقوامی تجارتی معاہدے اُس کثیر جہتی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد امریکی ٹیرف کے اثرات کو کم کرنا، تجارت میں تنوع لانا اور تجارتی تعلقات میں مضبوطی پیدا کرنا ہے۔

انڈیا یورپی یونین کے ساتھ ایک فری ٹریڈ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بہت قریب ہے اور یہ انتہائی اہم ہے کیونکہ 27 رکنی بلاک کے ساتھ انڈیا کی اشیا کی تجارت کا حجم 136.2 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
تجزیہ کار ششیر پریادرشی کے مطابق انڈیا اور یورپی یونین کا تجارتی معاہدہ امریکہ کی غیر یقینی تجارتی سیاست کے مقابلے میں انڈیا کو ایک قابلِ اعتماد متبادل فراہم کرتا ہے۔
اس سب کے ساتھ اور انڈیا اور امریکہ کے درمیان جاری اختلافات کے باوجود یہ دونوں ممالک ایک ممکنہ تجارتی معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔
انڈیا کے سکریٹری تجارت راجیش اگروال نے 15 دسمبر کو کہا تھا کہ انڈیا اور امریکہ تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے ’انتہائی قریب‘ ہیں۔
جغرافیائی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیرف بحران کے بیچ انڈیا کی تجارتی حکمتِ عملی میں تبدیلی آئی ہے، جو محتاط تجارتی سفارت کاری سے جارحانہ تجارتی روابط کی طرف بڑھنے کی عکاسی کرتی ہے۔
تجزیہ کار ورندا گپتا کا کہنا ہے کہ انڈیا کے تجارتی معاہدوں کے ضمن میں ہونے والے مذاکرات ’وسیع تر معاشی شراکت داری کی طرف ایک اہم تبدیلی‘ کا اظہار ہے۔
تجزیہ کار منوج پنت اور ایم راہل کے مطابق فری ٹریڈ ایگریمنٹس اب انڈیا کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ بن گئے ہیں جو ’ایک غیر مستحکم دنیا میں انڈیا کو سٹریٹجک انشورنس‘ فراہم کرتے ہیں۔
اُن کے مطابق اس نوعیت کے معاہدوں کو ریاستیں صرف تجارت بڑھانے کے بجائے سیاسی اتحاد کو مضبوط کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھتی ہیں۔
امریکہ کے ساتھ تجارتی کشیدگی کے تناظر میںکچھ مبصرین نے روسی صدر پوتن کے حالیہ دورۂ انڈیا اور دونوں ممالک کے درمیان سنہ 2030 تک دو طرفہ تجارت کو 100 ارب ڈالر تک بڑھانے کے معاہدے کو انڈیا کی سٹریٹجک اور معاشی ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کے طور پر بیان کیا ہے۔
ایک انڈین اخبار نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’انڈیا کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ ان شراکت داروں کو قریب رکھے جنھوں نے اس کی سٹریٹجک خودمختاری کو مضبوط کیا ہے۔ روس ایسا ہی ایک شراکت دار ہے اور پوتن کا حالیہ دورہ اس دیرینہ اعتماد کو نئے عالمی تناظر میں مزید مستحکم کرتا ہے۔‘
تاہم سرمایہ کاری کے ماہر وی کے وجے کمار کے مطابق روس، انڈیا معاہدہ ’امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی مسائل کی تلافی نہیں کر سکتا‘ کیونکہ ’انڈیا اور امریکہ کے درمیان ایک منصفانہ تجارتی معاہدہ انڈیا کے تجارتی خسارے اور کرنسی کی قدر میں کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔‘