سعودی سربراہی میں قائم اتحاد کی جانب سےیمن میں ایک فضائی حملے میں متحدہ عرب امارات سے آنے والےہتھیاروں اور کامبیٹ گاڑیوں کو نشانہ بنانے کے بعد سعودی عرب نے امید ظاہر ہے کہ یو اے ای یمن کی درخواست قبول کرتے ہوئے اگلے 24 گھنٹوں میں یمن سے اماراتی فوجیوں کو واپس بلا لے گا۔
مکلا، جنوبی یمن۔ اس تصویر میں تباہ شدہ فوجی گاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں، جو مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات کی جانب سے یمن کے علیحدگی پسند گروہ ’ایس ٹی سی‘ کے لیے بھیجی گئی تھیں۔ یہ گاڑیاں سعودی قیادت میں قائم اتحاد کی فضائی کارروائی کے بعد بندرگاہ مکلا میں تباہ ہوئی ہیں۔سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد کی جانب سے یمن میں کیے گئے ایک فضائی حملے میں متحدہ عرب امارات سے آنے والےہتھیاروں اور فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنانے کے بعد سعودی عرب نے مطالبہ کیا ہے کہ یو اے ای یمن کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے 24 گھنٹے میں یمن سے اماراتی فوجیوں کو واپس بُلا لے گا۔
سعودی وزرات خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب سعودی سربراہی میں قائم اتحاد نے ’محدود فضائی کارروائی‘ کرتے ہوئے یمن کی مکلا بندرگاہ کو نشانہ بنایا جہاں سعودی عرب کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جانب سے بغیر اجازت ہتھیار اور جنگی گاڑیاں اُتاری جا رہی تھیں۔
یاد رہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی میں متحدہ عرب امارات سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) کا حامی ہے اور اس گروہ نے حالیہ دنوں میں یمن کے علاقوں میں پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے۔ ادھر سعودی عرب ایس ٹی سی کی مخالفت کرتا ہے اور یمن میں قائم حکومت کا ساتھ دیتا ہے۔
سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں یمن میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) کو فوجی مدد فراہم کرنا یمن اور سعودی عرب کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اقدامات ’اتحاد کے اصولوں کے خلاف ہیں‘اور اِن سے یمن میں قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔
بیان کے مطابق ’سعودی عرب کو متحدہ عرب امارات کے اِن اقدامات پر مایوسی ہوئی، جن میں سدرن ٹرانزیشنل کونسل کی افواج پر دباؤ ڈال کر مملکت کی جنوبی سرحدوں پر حضرموت اور المہرا کے صوبوں میں فوجی کارروائیاں کروائی گئیں۔ یہ اقدامات سعودی عرب کی قومی سلامتی اور یمن و خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ تصور کیے جاتے ہیں۔‘
یمن کے معاملے پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں جاری خاموش رقابت اب کُھل کر سامنے آ رہی ہےبیان میں کہا گیا ہے کہ ’متحدہ عرب امارات کے اٹھائے گئے اقدامات انتہائی خطرناک ہیں اور کسی بھی خطرے کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے تاکہ ایسے خطرات کو ختم کیا جا سکے۔‘
سعودی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب نے یمن کی خودمختاری، سلامتی اور اتحاد کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا اور ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ بحران کا واحد حل ’یمنی قیادت کے مابین سیاسی مکالمہ ہے جس میں تمام فریق شامل ہوں، بشمول ایس ٹی سی۔‘
سعودی وزارت خارجہ نے امید ظاہر کی کہ متحدہ عرب امارات اس درخواست کو قبول کرے گا جس میں یمن کی حکومت نے اگلے 24 گھنٹوں میںاماراتی فوجیوں کے انخلا اور کسی فریق کی عسکری و مالی مدد روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یمن میں ’محدود فضائی کارروائی‘ کے دوران کیا ہوا؟
یمن کی بندرگاہ مکلا میں یو اے ای سے بھیجے گئے دو بحری جہازوں سے اُترنے والے سامان کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں سعودی اتحاد کے مطابق کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہےسعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ سعودی سربراہی میں قائم اتحاد نے یمن میں ایک فضائی حملے میں ایسے ہتھیاروں اور کامبیٹ گاڑیوں کو نشانہ بنایا ہے جو کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والے بحری جہازوں سے یمن کی بندرگاہ پر اُتاری جا رہی تھیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں یمن کے جنوب میں موجود علیحدگی پسندوں کی کارروائی کے باعث متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) اور سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومتی فوجی دستے آمنے سامنے آئے تھے۔
سعودی سربراہی میں قائم اتحاد کے ترجمان کے مطابق متحدہ عرب امارات میں واقع فجیرہ بندرگاہ سے آنے والے دو جہاز سنیچر اور اتوار کو مکلا بندرگاہ میں بغیر اجازت داخل ہوئے، انھوں نے اپنے ٹریکنگ سسٹم بند کر دیے اور بڑی تعداد میں ہتھیار اورجنگی گاڑیاں اُتاریں، ’تاکہ ایس ٹی سی کی حمایت کی جا سکے۔‘
سعودی سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی اتحاد کا کہنا ہے کہ مکلا بندرگاہ پر حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
تاحال متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔
سعودی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی کا کہنا ہے کہ یمن کی صدارتی قیادت کونسل کے سربراہ رشاد العلیمی کی جانب سے حضرموت اور المہرا میں شہریوں کے تحفظ کی درخواست پر سعودی اتحاد نے منگل کی صبح ایک محدود فضائی کارروائی کی جس میں بندرگاہ پر اُتارے گئے ہتھیاروں اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
خیال رہے کہ علیحدگی پسند گروہ ایس ٹی سی ابتدا میں یمن میں حوثیوں کے خلاف قائم کردہ سعودی اتحاد کا حصہ تھا۔ تاہم بعد میں ایس ٹی سی نے جنوب میں خودمختاری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایس ٹی سی یمن کے جنوب کے بڑے حصے پر قابض ہے جن میں سٹریٹیجک طور پر اہم حضرموت صوبہ بھی شامل ہے۔ حضرموت سعودی عرب کی سرحد پر واقع ہے اور سعودیہ کے اس کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں۔
حوثی یمن کے شمالی حصے، بشمول صنعا، پر قابض ہیں جہاں سے انھوں نے سعودی حمایت یافتہ حکومت کو سنہ 2014 میں نکال دیا تھا اور شمال کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔
سعودی اتحاد نے مزید کہا کہ ’ہم کسی بھی ملک کی جانب سے کسی یمنی گروہ کو فوجی مدد فراہم کرنے سے روکنا جاری رکھیں گے۔‘
خیال رہے کہ یمن 2014 سے خانہ جنگی سے متاثرہ ہے۔ یمن کے مقامی ذرائع ابلاغ پر دسمبر کے اوائل سے یہ تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ جنوبی یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان یمن کے معاملے پر رقابت

یمن کے معاملے پر سعودی کمان میں ہونے والی جنگ میں ابتداً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تھے لیکن اب دونوں کا موقف ایک دوسرے سے مختلف ہے اور دونوں ممالک کی جانب سے مختلف گروہوں کی حمایت تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن رہی ہے۔
علیحدگی پسند گروہ ایس ٹی سی ابتدا میں یمن میں حوثیوں کے خلاف قائم کردہ سعودی اتحاد کا حصہ تھا۔ تاہم بعد میں ایس ٹی سی نے جنوب میں خودمختاری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایس ٹی سی یمن کے جنوب کے بڑے حصے پر قابض ہے جس میںسٹریٹیجک طور پر اہم حضرموت صوبہ بھی شامل ہے۔ حضرموت سعودی عرب کی سرحد پر واقع ہے اور اس کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں۔
حوثی ملک کے شمالی حصے پر قابض ہیں بشمول دارالحکومت صنعا جہاں سے انھوں نے سعودی حمایت یافتہ حکومت کو 2014 میں نکال دیا تھا اور شمال کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔
یمن کی صورتحال کے حوالے سے ریاض اور ابوظہبی کے موقف متضاد ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے سنہ 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں یمن کے حوثی باغیوں (جنھیں ایران کی حمایت حاصل ہے) کے خلاف لڑی گئی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
لیکن دوسری جانب یمن کے جنوبی ساحل پر قدم جمانے کی خواہش اور بحیرہ احمر تک رسائی اور بندرگارہ کے تجارتی راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے، متحدہ عرب امارات نے ایس ٹی سی کی افواج کی حمایت کی۔
ماضی میں ایس ٹی سی نے سرکاری افواج سے براہ راست جھڑپیں کی ہیں اور یمن کے جنوبی علاقے پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔
مگر یہ وہ حمایت تھی جس نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کا بیج بویا کیوںکہ سعودی عرب یمن میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور فوج کی حمایت کرتا ہے۔
گذشتہ برسوں میں متحدہ عرب امارات نے یمن میں اپنی عسکری موجودگی کو بڑھایا ہے، جس میں سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت کے ساتھ افواج کی تربیت، انٹیلیجنس تعاون کو فروغ دینے اور خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے سکیورٹی معاہدہ وغیرہ شامل ہے۔
سنہ 2021 میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات آبنائے باب المندب میں جزیرے مایون (پریم) پر ایک فضائی اڈہ بنا رہا ہے۔ اور ابوظہبی کی جانب سے اس سٹریٹیجک جزیرے میں فوجی اڈہ قائم کرنے کی کوششیں بھی ریاض کے لیے تشویش کا باعث بنیں۔