ڈاکٹر برناڈیٹ ہارڈ بیرون ملک تھیں جب وہ بیمار ہو گئیں، ان کا سر درد اتنا شدید تھا کہ وہ بمشکل حرکت کر سکتی تھیں لیکن انھیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر ہارڈ کہتی ہیں مجھے لگا کہ میرا سر پھٹ جائے گا، پھر حیرت انگیز طور پر واقعی پھٹ بھی گیا۔'
ڈاکٹر ہارڈ جب مالٹا میں تھیں تو ان کے شوہر جیک، جوخود بھی ڈاکٹر ہیں، اُن کی تیمارداری کے لیے وہاں موجود رہےڈاکٹر برنیڈیٹ ہارڈ بیرونِ ملک موجود تھیں جب اُن کے سر میں شدید درد ہوا۔ کچھ ہی دیر میں اُن کی حالت اِس قدر بگڑ گئی کہ اُن کے لیے حرکت کرنا بھی دشوار ہو گیا۔ ڈاکٹر ہونے کے باوجود انھیں اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔
53 سالہ ڈاکٹر ہارڈ ملک مالٹا کے ایک ہوٹل کے کمرے میں اکیلی تھیں۔ وہ برطانیہ سے مالٹا ایک طبی کانفرنس میں شرکت کرنے آئی تھیں اور یہییں انھیں اس خوفناک کیفیت کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے لگا کہ میرا سر پھٹنے والا ہے اور حیرت انگیز طور پر ایسا ہی ہوا بھی۔‘
انھیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں انھوں نے اگلا ایک ماہ گزارا اور بالآخر اُنھیں اس جدید ترین سرجری کی ضرورت پیش آئی جس کی مدد سے اُن کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کو محفوظ رکھنے والے سیال (مائع) کی تھیلی میں موجود رساؤ یا لیکج کو بند کیا گیا۔
بعد ازاں انھیں معلوم ہوا کہ وہ ایک نایاب بیماری میں مبتلا ہیں، ایک ایسی بیماری جس کے بارے میں ان کے اپنے فیملی ڈاکٹر بھی نہیں جانتے تھے۔
اپنی کیفیت یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارڈ نے کہا کہ ’مجھے گردن میں جھٹکا سا محسوس ہوا، جیسے کوئی پٹھا کھنچ گیا ہو۔ پانچ منٹ بعد ایک عجیب سا احساس ہوا اور پورا سر بھاری لگنے لگا، بالکل ایسے کہ کسی نے میرے سر میں اینٹ رکھ دی گئی ہو۔‘
’لیٹنے سے کچھ آرام ملا، اور میں نے کچھ دیر سونے کی کوشش بھی کی لیکن اگلی صبح تک درد ناقابلِ برداشت ہو چکا تھا۔‘
ڈاکٹر ہارڈ نے بتایا کہ ’درد ناقابلِ برداشت تھا، توجہ مرکوز کرنا ممکن نہیں رہا تھا، پسینہ آ رہا تھا اور طبیعت بگڑتی جا رہی تھی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں لڑکھڑاتے ہوئے ہوٹل کے ساتھ واقع فارمیسی میں داخل ہوئی اور پھر گر پڑی۔‘
ڈاکٹر ہارڈ کو فوری طور پر مالٹا کے دارالحکومت ویلیٹا کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے ابتدائی طور پر گردن توڑ بخار (میننجائٹس) اور دماغ میں خون رِسنے جیسے عارضوں کو خارج از امکان قرار دیا۔ اس کے بعد ڈاکٹروں کو شبہ ہوا کہ شاید وہ ایک نہایت نایاب بیماری، جسے ’سی ایس ایف لیک‘ کہا جاتا ہے، میں مبتلا ہیں۔
ڈاکٹر برناڈیٹ ہارڈسی ایس ایف لیک کیا ہے؟
- دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کو گھیرنے والی بیرونی جھلی میں معمولی سوراخ یا شگاف کے باعث دماغ و ریڑھ کی ہڈی کے گرد موجود مائع کے اخراج کو سیریبروسپائنل فلوئڈ (CSF) لیک کہا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت کمیاب مگر شدید نوعیت کی بیماری ہے۔
- جب شگاف کی وجہ سے یہ مائع جھلی سے باہر نکلتا ہے تو کھوپڑی کے اندر دباؤ کم ہو جاتا ہے، جسے انٹراکرینیل ہائپو ٹینشن کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دماغ کو ملنے والا حفاظتی سہارا کم ہو جاتا ہے اور دماغ اپنی جگہ سے کھسکنے لگتا ہے۔
- یہ کیفیت، جسے عام طور پر ’برین سیگ‘ کہا جاتا ہے، شدید درد کا باعث بنتی ہے۔ اس کی علامات میں دھندلا نظر آنا، آنکھوں اور گردن میں درد اور سماعت کی کمی شامل ہیں۔
- برطانیہ میں ہر ایک لاکھ افراد میں تقریباً 3.8 افراد اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں، اور سالانہ اس بیماری کے تقریباً 2,500 نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ خاص طور پر 30 سے 40 سال کی درمیانی عمر کی خواتین کو اس بیماری کا زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
- ماہرین کہتے ہیں کہ یہ بیماری اکثر غلط تشخیص کا شکار ہو جاتی ہے، اور اگر بروقت اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ طویل المدتی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے، جن میں دماغ میں خون رِسنا، سُپر فیشل سائیڈروسِس نامی بیماری اور حتیٰ کہ قبل از وقت ڈیمینشیا بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر برناڈیٹ ہارڈ سرجری کے بعد اپنے بیٹوں کے ہمراہڈاکٹر ہارڈ کو مالٹا سے اپنے وطن واپس لانے کے قابل بنانے میں ایک ماہ لگ گیا۔ لیکن یہ اُن کے ایک طویل سفر کی محض شروعات تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کیا مگر انھیں بھی اس بیماری کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔‘
بعد ازاں انھیں نیورولوجسٹ کے پاس بھیجا گیا، جہاں انھیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر کی پہلی اپائنٹمنٹ کے لیے 13 ہفتے انتظار کرنا پڑے گا۔
بالآخر انھوں نے لندن کے نیشنل ہسپتال برائے نیورولوجی و نیوروسرجری (NHNN) میں سی ایس ایف لیک کے ماہرین کی ٹیم کو دکھایا، اور اس چیک اپ کے عوض انھیں ادائیگی کرنی پڑی۔
ماہرین نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کے اگلے حصے میں بٹن کے برابر ایک سوراخ کو دریافت کیا، جسے درست کرنے کے لیے پیچیدہ سرجری درکار تھی۔
ڈاکٹر ہارڈ نے کہا کہ ’مجھے معلوم تھا کہ برطانیہ میں صرف چند سرجن ہی یہ آپریشن کر سکتے ہیں اور ویلز میں تو کوئی بھی ایسا ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔‘
اس دوران اُن کی حالت مزید بگڑتی جا رہی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ’مجھے دائمی درد رہتا تھا اور میں صرف محدود وقت کے لیے سیدھی حالت میں رہ سکتی تھی۔‘
ڈاکٹر ہارڈ نے بتایا کہ اس دوران انھیں نمایاں حد تک ذہنی کمزوری کا سامنا رہا، جو اس بیماری کا ایک معروف سائیڈ ایفیکٹ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس پیچیدگی کے باعث ’دماغ کو صاف کرنے والا عمل رُک جاتا ہے، جس کے باعث دماغ میں زہریلے مادے جمع ہونے لگتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ کیفیت سوچنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے، اس لیے پاس ورڈز جیسی چیزیں، جن کے لیے قلیل مدتی یادداشت پر انحصار کرنا پڑتا ہے، کو یاد رکھنا بھی میرے لیے نہایت مشکل اور اذیت ناک تھا۔‘
بالآخر ویلز میں این ایچ ایس نے لندن میں سرجری کے اخراجات برداشت کرنے پر رضامندی ظاہر کی، جو اگست 2023 میں انجام دی گئی۔ تاہم یہ عمل خاصا خطرناک تھا۔
ڈاکٹر ہارڈ نے وضاحت کی کہ ’تمام اعضا سامنے کی جانب ہوتے ہیں، اس لیے سرجن کو پیچھے سے جانا پڑتا ہے، جلد اور پٹھوں کو کاٹ کر ایک ’ہڈی کی کھڑکی‘ بنانی پڑتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے بعد سرجن آپریٹنگ مائیکروسکوپ کے ذریعے سوراخ کو دیکھتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اس میں اسٹیپلز یا ٹانکے لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے کیس میں وہ چار ٹانکے لگانے میں کامیاب ہوئے۔‘
تاہم ڈاکٹر ہارڈ کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ سرجری کے بعد ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ کے دوبارہ اپنی جگہ پر آنے کے عمل کے دوران شدید درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر برناڈیٹ ہارڈ کے بیٹے نے اپنی والدہ پر 30 منٹ کی دستاویزی فلم بھی بنائی ہےڈاکٹر ہارڈ نے بتایا کہ سرجری کے دس دن بعد اُنھیں اپنا دماغ ’بالکل صاف‘ محسوس ہوا (یعنی اس پر چھائی دھند اور کثافت دور ہوتی محسوس ہوئی)۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ ناقابلِ بیان حد تک خوشگوار تھا، جیسے آپ نے پورے ہفتے ایک بھاری بیگ کے ساتھ پہاڑوں پر سفر کیا ہو اور پھر وہ بیگ اُتار کر محسوس کریں کہ آپ ہلکے ہو گئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں گذشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک درد سے آزاد نہیں رہی تھی اور سر میں ناقابلِ برداشت بوجھ کا احساس رہتا تھا۔ یہ کیفیت بدترین نشے کے بعد کی حالت، جیٹ لیگ اور ایک خوفناک احساس کا مجموعہ تھی، اور پھر (سرجری کے بعد) اچانک ایسا لگا جیسے دماغ بالکل صاف ہو گیا ہو۔‘
اس کے بعد سے وہ محسوس کرتی ہیں کہ انھیں نئی زندگی مل گئی ہے۔ ڈاکٹر ہارڈ اب سی ایس ایف لیک ایسوسی ایشن کی ٹرسٹی بن چکی ہیں۔
انھوں نے فنڈ جمع کرنے کے لیے ایک ’ونگ واک‘ میں حصہ لیا اور وہ اس کمیاب بیماری کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہیں۔
ڈاکٹر ہارڈ چاہتی ہیں کہ این ایچ ایس (برطانیہ کا ادارہ صحت) کے فرنٹ لائن عملے، جیسا جی پیز، کو علامات پہچاننے کے لیے بہتر تربیت دی جائے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں ایم آر آئی سکین اور ’بلڈ پیچ‘ جیسے علاج، جو ضلعی جنرل ہسپتالوں میں فراہم کیے جا سکتے ہیں، مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
وہ مریضوں کو ماہرین تک پہنچانے کے لیے آسان تر طریقہ کار ترتیب دینے کی بھی خواہش رکھتی ہیں۔
آگاہی بڑھانے کی اپنی کوششوں کے تحت انھوں نے ایک 30 منٹ کی دستاویزی فلم میں بھی حصہ لیا، جس میں ان کے علاج کے سفر کو دکھایا گیا ہے۔ یہ فلم ان کے بیٹے کیلم نے بنائی، جو فلمی ویژول ایفیکٹس کا طالبعلم ہے۔
ڈاکٹر ہارڈ نے کہا کہ ’میرے پاس ایک حقیقی مشن ہے۔ میں جانتی ہوں کہ میں کتنی خوش قسمت تھی۔ اگرچہ سی ایس ایف لیک ایک نایاب بیماری ہے، لیکن زیادہ تر کیسز میں اس کا علاج ممکن ہے۔ درست علاج ملنے پر مریض مکمل صحت یاب ہو سکتے ہیں۔‘
آگاہی بڑھانے کی ان کی کوششوں میں انھوں نے ایک 30 منٹ کی دستاویزی فلم میں بھی حصہ لیا، جو ان کے علاج کے سفر کو بیان کرتی ہے، جسے ان کے بیٹے کالم، جو فلم ویژول ایفیکٹس کا طالب علم ہے، نے فلمایا۔
'میں جانتی ہوں کہ میں کتنی خوش قسمت تھی اور اگرچہ اچانک سی ایس ایف لیک ہونا ایک نایاب بیماری ہے، یہ کافی غیر معمولی ہے کیونکہ زیادہ تر کیسز میں اسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ صحیح علاج سے مریض مکمل صحت یاب ہو سکتے ہیں۔'