مرد کی زندگی ایک روبوٹ کی طرح ہوتی ہے جو چاہے جتنا ہی تھکا ہوا کیوں نہ ہو، اپنے گھر والوں کے لیے کام کرتا ہے۔ ان کی خواہشات کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک جملہ بہت آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا، مرد نہیں روتا۔ لیکن اس بات کو سجھنے والے لوگ بہت کم ہیں۔ مرد بھی ایک انسان ہے اور ہر انسان کو تکلیف ہوتی ہے۔ برا لگتا ہے۔ اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ مرد بیشک ایک مضبوط جان ہے۔ مگر درد تو اس کو بھی ہوتا ہے۔
کیوں یہ معاشرہ مردوں کے جذبات کو نہیں سمجھتا؟ کیوں صرف ایک عورت کو مظلوم اور مرد کو مضبوط ثابت قرار دیا جاتا ہے؟ مرد وہ گلشن ہے جس کی ہنسی سے گھر میں رونق ہے۔ مرد کے آنسو گھر کو قبرستان بنا دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ کمانے والا اکیلا ہوتا ہے، اس پر ماں باپ کی ذمہ داری بھی ہے، بھائی بہن کی بھی، بیوی اور بچوں کی بھی۔ چاہے اس ذات میں ایک قدم بڑھانے کی ہمت ہو یا نہ وہ اپنے گھر والوں کی خاطر کہاں سے کہاں اکیلا ہی چل پڑتا ہے۔ پورا دن گھر سے باہر رہ کر گھر والوں کی خوشی کے لیے کام کرتا ہے۔
مرد مجبور ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے میں مذید کام نہیں کر سکتا، میں اتنے زیادہ اخراجات نہیں اٹھا سکتا۔ مرد اس وقت بھی مجبور ہوتا ہے جب وہ اپنے گھر میں اپنی پسند سے شادی کرنے کا اقرار کرے اور اس کی ماں اپنی مرضی مسلط کردے۔ مرد اس وقت بھی مجبور ہوتا ہے جب اس کی ماں کہے کہ بیٹا بہن کی شادی کے جہیز کا سارا خرچہ تمہیں اٹھانا ہے۔ مرد اس وقت بھی مجبور ہوتا ہے جب اس کا بھائی اس سے قرضہ مانگے۔ وہ اس وقت بھی مجبور ہوتا ہے جب اس کی بیوی میکے جانے کی دھمکی دے دے۔ کیوں ہمارے ہاں آج بھی مرد کے جذبات کو نہیں سمجھا جاتا؟
ہمیں صرف عورتوں کے مسائل کو ہی نہیں مردوں کے مسائل کو بھی اجاگر کرنا چاہیئے۔ ان کے ساتھ بھی دُکھ بانٹنے چاہیے۔ اگر آپ نفسیاتی اداروں کا دورہ کریں تو وہاں بھی آپ کو زیادہ تعداد مردوں کی ملے گی جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مرد کتنا بے بس اور مجبور ہے۔